پشتون تحفظ تحریک: پس منظر و مختصر تعارف
بظاہر یہ تحریک ایک قوم پرست تحریک نظر آتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں جن مسائل کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے وہ تمام غریب طبقے کے مسائل ہیں۔
بظاہر یہ تحریک ایک قوم پرست تحریک نظر آتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں جن مسائل کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے وہ تمام غریب طبقے کے مسائل ہیں۔
پچھلے عرصے میں یورپ میں عارضی رجعتی رجحانات کے ابھار سے قطع نظر فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں مزدوروں اور نوجوانوں کی جدوجہد مسلسل جاری رہی ہے۔
طلبہ کے انقلابی کردار اور مداخلت نے برصغیر کی انقلابی تحریکوں کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کبھی دھونس، ریاستی جبر اور بلیک میلنگ کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جائے گی تو کبھی لالچ اور ترغیب کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ملک کا بوسیدہ انفراسٹرکچر اور علاج کا ناقص انتظام اُن کی موت کا ذمہ دار ہے۔
بھٹو کی زندگی اور موت کا سبق یہ ہے معروضی صورتحال کے ساتھ افراد بھی بدلتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی حرارت میں ریڈیکل بھی ہو جاتے ہیں۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں ہے جس کے پاس ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل طاقت ہو۔
قومی آزادی اور خومختیاری کی ہر تحریک کی طرح یہ جدوجہد بھی پورے خطے اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور یکجہتی سے ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔
سیاسی و سماجی کارکنان، محنت کشوں، طلبہ ، صحافیوں، ٹریڈ یونین رہنماؤں و خواتین سمیت کامریڈ جام ساقی کے رشتہ داروں نے سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی۔
حالیہ احتجاجی تحریک کی مزید اہمیت اس حوالے سے بنتی ہے کہ اس میں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے عام لوگ بالخصوص نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں۔
محکوم عوام کا ایک ہی انقلابی ریلہ مشرق وسطیٰ کے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
یہ ظاہری طور پر پشتونوں کی تحریک دکھائی دیتی ہے لیکن اس تحریک کے سرخیل کارکنان خطے کی تمام مظلوم قومیتوں اور طبقات کو یکجا کرنے کا عزم اور ارادہ رکھتے ہیں۔
مقررین نے لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت کش خواتین میں طبقاتی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس موقع پر مقررین نے کہا کہ جام ساقی نے تمام عمر صعوبتیں برداشت کیں مگر حکمران طبقات سے مصالحت کرنے سے انکار کیا۔