نئی ’سرد جنگ‘؟

تحریر: لال خان

25 ’اتحادی‘ مغربی ممالک کی جانب سے ڈیڑھ سو روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اقدام غیر معمولی ہی نہیں بلکہ سفارتکاری کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا تصادم بھی ہے۔ یہ انتہائی اقدام اٹھائے جانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ 4 مارچ کو برطانیہ کے قصبے سالزبری میں مقیم سابق روسی جاسوس ’سرگئی سکریپال‘ اور اسکی بیٹی پر نسوں کو مفلوج کرنے والے ایک کیمیائی ہتھیار سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ دونوں کی حالت ابھی تک نازک ہے اور بچنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ سکریپال ایک روسی جاسوس تھا جسے روس کی خفیہ ایجنسی ’FSB‘ نے دسمبر 2004ء میں گرفتار کر لیا تھا اور یورپ میں روسی ایجنٹوں کی خبر مغربی خفیہ ایجنسیوں کو فراہم کرنے کے الزام میں 13 سال قید کی سزا دی گئی۔ تاہم 2010ء میں مغربی ممالک اور روس کے درمیان جاسوسوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اس کو برطانیہ جانے دیا گیا۔ سکریپال درحقیقت ایک ڈبل ایجنٹ رہا تھا۔ اُس پر قاتلانہ حملے کا الزام مغربی ممالک کی جانب سے روس پر لگایا جا رہا ہے۔
سفارتکاروں کی بے دخلی پر روسی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیفروف نے ازبکستان میں ایک کانفرنس کے دوران بیان دیا ہے کہ ’’کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس کا بھرپور جواب دینگے۔ اس طرح کی دھونس اور غنڈہ گردی کے رویے کو ہم برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ خارجہ پالیسی کے بہت سے مغربی اور روسی ماہرین اس سفارتی تناؤ کو ایک نئی ’سرد جنگ‘ کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ لیکن روسی صدر پیوٹن خود بھی ایک نئی سرد جنگ کا خواہاں معلوم ہوتا ہے۔ یکم مارچ کو اس نے اپنے سالانہ صدارتی خطاب میں نئی ساخت کے ’ناقابلِ تسخیر‘ ایٹمی میزائل دنیا کو دکھائے، جو ایک اینی میشن ویڈیو میں امریکی ریاست فلوریڈا کے اوپر گر رہے تھے۔ پیوٹن نے بیباک انداز اپناتے ہوئے کہا کہ ’’مغرب اب روس کو مزید تضحیک کا نشانہ نہیں بناسکے گا۔ جیسے کہ وہ کرتا آیا ہے۔ ہماری کوئی نہیں سن رہا تھا۔ اب ہماری بات سنو!‘‘
پیوٹن پچھلے پندرہ سال سے مغربی لیڈروں سے اپنا احترام کروانے کی تگ ودومیں لگا رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ جارج بش، ٹونی بلیئر اور انکے بعد آنے والے مختلف مغربی حکمران اسکو برابری کا درجہ دیں گے۔ لیکن اُس کی تضحیک ہی کی گئی اور امریکی صدور نے روس کو ایک بڑا لیکن ثانوی حیثیت کا ملک ہی سمجھا۔ اب اس کا خیال ہے کہ ایک نئی سرد جنگ شروع کرکے وہ عالمی سطح پر ایسا مقام حاصل کر سکے گا جو کسی وقت میں سوویت یونین کے سربراہان کو حاصل ہوتا تھا۔ پیوٹن کا یہ خواب رہا ہے کہ 1945ء میں کرائمیا کے شہر یالٹا میں سٹالن (سوویت یونین)، روز ویلٹ (امریکہ) اور چرچل (برطانیہ) پر مشتمل سربراہی کانفرنس کی طرز پر وہ دباؤ کے ذریعے مغربی سامراجیوں سے دنیا کے مختلف حصوں پر اثر ورسوخ کی تقسیم کے معاملات طے کر سکے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکنے کی صورت میں اُس نے دنیا کے مختلف حصوں میں روسی مداخلت کو تیز کر دیا ہے اور دوبارہ ایک ’سپر پاور‘ کے طور پر روس کا امیج بنا رہا ہے۔ 2008ء میں جارجیا میں روس کی عسکری مداخلت شاید اِس عمل کا نقطہ آغاز تھا۔ 2014ء میں کرائمیا اور مشرقی یوکرائن پر قبضہ کر کے اس نے اپنے عزائم واضح کئے۔ اسی طرح شام میں مداخلت سے مغربی سامراجیوں بالخصوص امریکہ اور اس کے خلیجی حواریوں کو زچ کیا اور جدید روسی اسلحے کی بھرپور نمائش بھی کی۔ چونکہ وہ ہیلری کلنٹن سے شدید نفرت کرتا ہے اس لئے مبینہ طور پر اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے امریکی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی واردات بھی کی۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پیوٹن نے امریکہ جیسی مغربی سامراجی طاقتوں کے معاشی زوال اور عسکری بحران کو استعمال کرتے ہوئے ایک جارحانہ پالیسی اپنائی ہے۔ روس کے خلاف مغربی لیڈروں کی حالیہ بیان بازی انکی بوکھلاہٹ اور بے بسی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسی سفارتی جنگیں کوئی عسکری تصادم نہ کرسکنے کی صورت میں اپنی طاقت کو مصنوعی طور پر منوانے کا طریقہ واردات ہوتی ہیں۔ سفیر واپس بلائے جاتے ہیں یا نکالے جاتے ہیں۔ سرکاری احتجاج علامتی اور بے اثر ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔
بالخصوص امریکہ کا داخلی بحران ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد شدت اختیار کرگیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں جس تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اس کے پیش نظر وہاں اہلکاروں کی تعیناتی کو ’’ریوالونگ ڈور‘‘ (گھومنے والے دروازے) کی پالیسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہر منصب پر فائز ہونے والا کچھ عرصے بعد معزول کردیا جاتا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ جس شخص کو قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر لایا ہے وہ جان بولٹن ہے جو عراق پر جارحیت کی پالیسی کا سب سے بڑا علمبردار اور سہولت کار تھا۔ فلسطین پر بولٹن کا موقف ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کر کے مستقلاً مصر، اردن اور اسرائیل کے قبضے میں دے دیا جائے۔ وہ اتنا رجعتی اور جارح انسان ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے ریپبلکن اراکینِ کانگریس بھی اس سے خوفزدہ ہیں ۔ وہ ایران اور شمالی کوریا پر بھی عراق جیسی جارحیت کروانے کے ارادے رکھتا ہے۔ اسی طرح مغربی یورپ میں بھی سرمایہ داری کابحران شدید سیاسی اور ریاستی انتشار کا موجب بنا ہوا ہے۔ عدم استحکام پہلے ہی اتنا زیادہ ہے کہ موجودہ اقدامات ایک نئے عالمی خلفشار کو جنم دے سکتے ہیں۔ لیکن پیوٹن بھی ایک طویل عرصے سے اقتدار میں رہ کر ذہنی عدم توازن کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ کئی حوالوں سے اسکی نفسیات ٹرمپ سے کافی ملتی ہے۔ اس کے گرد زیادہ تر بیورکریٹ ارب پتی مافیا سرمایہ دار ہیں ۔ ان کی کاسہ لیسی میں پیوٹن اپنے آپ کو طاقت کا منبع سمجھنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کیفیت کا اندازہ اُس کے ایک اہم مشیر اور روسی پارلیمنٹ کے سپیکر ’ویاچیزلاف ولوڈن‘ کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ’’پیوٹن کے بغیر روس کا وجود ممکن نہیں۔‘‘ ٹائم میگزین نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ایک قدامت پرست کیتھولک کی طرح پیوٹن یہ سمجھنا شروع ہوگیا کہ ’’خدانے روسی قوم کو چنا ہے جس کے معنی ہیں کہ پیوٹن خدا کا چنا ہوا رہنما ہے۔‘‘
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں ہے جس کے پاس ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل طاقت ہو۔ اس وقت روس کی معیشت کینیڈا اور جنوبی کوریا سے بھی چھوٹی ہے جبکہ سوویت یونین دنیا کی دوسری بڑی معاشی اور صنعتی طاقت تھی۔ وسط ایشیا کی سابقہ سوویت ریاستوں کاجھکاؤ روس سے زیادہ چین کی جانب ہے۔ چین اور روس کے درمیان وقتاً فوقتاً ہونے والے معاہدوں میں بھی چین کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ روسی معیشت کا 80 فیصد انحصار تیل اور گیس پر ہے اور سعودی عرب سے20 سالہ تیل معاہدے کے باوجود اب تیل کی قیمتیں اتنی نہیں بڑھ سکتیں کہ روس کی اقتصادی ترقی میں کوئی بڑی تیزی لاسکیں۔ لہٰذا پیوٹن کی قوم پرستی پر مبنی حاکمیت کو مسلسل بحران اور داخلی بغاوت کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ مغربی سامراجی طاقتیں بھی داخلی بحرانوں کی وجہ سے دوررس جارحانہ پالیسیوں کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ لیکن سب سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ماضی کی سرد جنگ آخری تجزئیے میں دو متضاد معاشی نظاموں کی کشمکش تھی۔ افسر شاہی کی جکڑ میں ہونے کے باوجود سوویت معیشت ہر لحاظ سے سرمایہ دارانہ معیشت سے متضاد تھی۔ لیکن آج کا روس مغرب کی طرح ایک بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ اِس لحاظ سے یہ نام نہاد ’نئی سرد جنگ‘ بھی سطحی اور کھوکھلی ہے۔ قومی جنگوں کے جنون اور بڑھک بازیوں کے ذریعے طبقاتی جنگوں کو صدا ٹالا نہیں جا سکتا۔