تحریک کی آزمائش!

تحریر: لال خان

معمول کے عام حالات میں حکمران طبقات کی سیاست، اقدار، اخلاقیات، نظریات و عقائد وغیرہ معاشرے پر حاوی رہتے ہیں۔ ان کے ریاستی ڈھانچوں کا جبر ایک ایسے خوف کو مسلط رکھتا ہے جس سے کسی بھی سماج کی وسیع اکثریت تشکیل دینے والے عام انسان ان کی حاکمیت کو نہ چاہتے ہوئے بھی نفسیاتی طور پر قبول کئے رکھتے ہیں۔ لیکن جبر و استحصال ان کی زندگیوں کی محرومی اور ذلت میں مسلسل اضافہ کرتا رہتا ہے۔ وہ بیزار بھی ہوتے ہیں اور اس کیفیت کو بدلنے کی امنگ ان کو مضطرب بھی رکھتی ہے۔ لیکن پھر بھی بعض اوقات دہائیاں گزر جاتی ہیں لیکن استحصال زدہ خلق کی بغاوت نہیں ابھرتی۔ مروجہ سیاسی پارٹیاں اور رہنما استحصالی نظام کی حاکمیت کے اوزار بن جاتے ہیں اور عوام کی محنت سے پیدا شدہ دولت کی لوٹ مار میں اپنی حصہ داری کی ’’سیاست‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ لوٹ مار اور جاہ و جلال کے لئے مسلسل اقتدار میں آنے کے لئے زور لگا رہے ہوتے ہیں۔ مروجہ نظام اور ’سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے کے لئے وہ فریب کاری کرتے ہیں۔ مظلوم لوگوں کی جدوجہد کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی ان کی تحریکوں کو سازشوں سے ناکام اور بے ضرر بنا دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ حکمران طبقات کے ہر طرح کے سیاستدانوں، دانشوروں اور مذہبی پیشواؤں وغیرہ کے تسلط کو چیر کر عوام کی تحریکیں اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہیں۔ ایسی تحریکیں نہ تو سیاسی اشرافیہ کے کنٹرول میں ہوتی ہیں نہ ہی ’سٹیٹس کو‘ کے رکھوالے ان کو روک سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت طویل عرصے کے بعد ہمیں پشتون تحفظ موومنٹ کی شکل میں نظر آئی ہے۔ اس تحریک نے نہ صرف اس نظام کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کو ششدر کر دیا ہے بلکہ یہ نام نہاد قوم پرستوں قیادتوں، مذہبی جماعتوں، قبائلی فرقہ واریت کے رجحانات اور سرکاری جبر کے وسیع و عریض ڈھانچے کو چیر کر ابھری ہے۔ تحریک کے تمام مطالبات آئینی و قانونی طور پر بھی بالکل جائز ہیں۔ یہ بھی کیسا مضحکہ خیز المیہ ہے کہ اس نظام میں جائز مطالبات کرنے والوں کو بھی حکمران طبقات اور ان کے حواری ہر قسم کے جبر اور بہتانوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہاں آئین کی بالادستی کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ لیکن اگر غور کیا جائے تو 1973ء کے آئین میں عوام کے بنیادی حقوق، عزت نفس کے تحفظ اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے موجود تمام شقیں آج مفلوج اور غیر موثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ اسی آئین میں ہر شہری کے لئے تعلیم، علاج اور روزگار اور ہر سطح پر یونین سازی کی ریاستی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ لیکن کسی سیاسی پارٹی یا رکن پارلیمنٹ نے ان بنیادی ’انسانی حقوق‘ کی فراہمی پر بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے نظام کی بنیادوں کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ اگر مفت علاج کا مسئلہ ہی اٹھایا جائے تو صحت کے شعبے میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری اور منافع خوری پہ ضرب لگے گی۔ یہی صورتحال تعلیم کے شعبے کی ہے جسے منافع بخش کاروبار بنانے والے تمام مروجہ پارٹیوں میں موجود ہیں۔ جہاں مروجہ سیاست کالے اور ’سفید‘ دھن والوں کے تسلط میں ہے وہاں بنیادی سماجی آزادیوں کو بھی مختلف حیلے بہانوں سے صلب کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسی صورتحال تو شاید مارشل لاؤں میں بھی نہیں رہی جیسی اِس نام نہاد جمہوریت میں بن چکی ہے۔ چنانچہ پشتون تحفظ موومنٹ نے عام انسانوں کی زندگیوں کے تحفظ اور معاشرتی آزادی سے لیکر معاشی بدحالی جیسے دوسرے ایشوز پر جب تحریک شروع کی تونہ صرف پشتونخواہ بلکہ دوسرے خطوں میں بھی حیران کن حد تک وسیع عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زور پکڑتی تحریک کے تیز ابھار سے مروجہ سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں خاصی پریشان اور نالاں ہیں۔ روایتی مذہبی قیادتوں، بڑے بڑے سرداروں اور مَلکوں وغیرہ کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ تحریک نظریاتی سوچ رکھنے والی نوجوان قیادت کے تحت ابھری ہے۔ عام طور پر پشتونوں کی روایتی پارٹی سمجھی جانے والی اے این پی کی قیادت نے پہلے تو پس پردہ اور اب کھل کر اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ اے این پی کی ذیلی تنظیم ’نیشنل یوتھ آرگنائزیشن‘ کے چیئرمین محسن داور کو اس تحریک کی حمایت کی پاداش میں عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ لیکن پشتون نوجوانوں میں ایسے اقدامات کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اب یہ نعرہ مقبول ہو رہا ہے کہ ’’ہم باچا خان کے پیروکار ہیں، اسفند یار کے کرایہ دار نہیں!‘‘ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اس تحریک کے خلاف قرم اور مہمند ایجنسیوں اور پشتونخواہ کے دوسرے علاقوں میں ’’پارٹی ورکروں‘‘ سے مظاہرے کروائے ہیں اور تحریک کی قیادت کو ’’دشمن ایجنسیوں‘‘ کے ایجنٹ قرار دے دیا ہے۔ تحریک انصاف کا رویہ بھی شدید مخالفت اور مخاصمت پر مبنی ہے۔ اسی طرح مذہبی پارٹیوں نے بھی ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ سے ملتے جلتے ناموں سے مختلف جعلی مہمات شروع کر کے ایک متوازی اور متحارب تحریک ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ پیسے کی اِس سیاست کے جگادریوں کی جانب سے یہ مکروہ حملے ہی تحریک کے سچے اور کھرے ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ بہت سے سرکاری تجزیہ نگاروں نے اس تحریک پر افغانستان اور دوسری بیرونی قوتوں کا آلہ کار ہونے کے بہتان لگائے ہیں۔ یوں تحریک کی کامیابی موجودہ نظام کے رکھوالوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ ابتدا سیاسی حملوں سے ہوئی ہے۔ 8 اپریل کو پشاور میں جس جلسے کی کال دی گئی ہے اسے سبوتاژ کرنے کے لئے پشتون قوم پرست پارٹیاں اپنے کارکنان کو شرکت سے روک رہی ہیں۔ لیکن ایسے بالواسطہ اقدامات سے بڑھ کر اگر کوئی براہِ راست حملہ کیا گیا تو اس سے بغاوت بھی مشتعل ہو سکتی ہے۔
یہ صورتحال پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان اور قیادت کے لئے ایک کڑے امتحان کا وقت ہے۔ تحریک کو ابھی اور بھی کڑی آزمائشوں سے گزرنا ہو گا۔ جیسا کہ فیض نے کہا تھا

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پہ سرِ راہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

یہاں گھٹیا بہتان اور الزامات بھی لگیں گے۔ کبھی دھونس، ریاستی جبر اور بلیک میلنگ کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جائے گی تو کبھی لالچ اور ترغیب کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس تحریک کے مطالبات ان محرومیوں اور ذلتوں کے خاتمے پر مبنی ہیں جن کا شکار ملک کے تمام خطوں کے عام لوگ ہیں۔ اس لئے بلوچستان اور سندھ سے لے کر پنجاب، کشمیر اور گلگت بلتستان تک کے ترقی پسند نوجوانوں اور سیاسی کارکنان میں اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ شروع میں کارپوریٹ میڈیا نے پراسرار خاموشی اور مکمل بلیک آؤٹ کی پالیسی اپنائی۔ پھر کچھ چینلوں نے معمولی کوریج دی لیکن اب پھر مکمل بلیک آؤٹ کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ لیکن عوامی تحریکیں اور انقلابات اس مالیاتی سرمائے کے ذرائع ابلاغ کے بلبوتے پر نہیں بلکہ ان کے خلاف آگے بڑھا کرتے ہیں۔ سچائی اپنا راستہ خود تراش لیتی ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں حکمرانوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
تحریک کی کامیابی کے لئے قیادت کو آہنی عزم، برداشت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ایک دوررس لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ تحریک کے مطالبات کو تمام قوموں کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کے مسائل سے جوڑ کر اسے مضبوط اور وسیع کیا جا سکتا ہے اور قیادت کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ آخری تجزئیے میں اس تحریک کے دریا کو طبقاتی جدوجہد کے سمندر میں اتارنا ہو گا۔ کیونکہ بھوک اور محرومی کا کوئی دیس، کوئی قومیت اور کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ طبقاتی مسائل ہیں اور ان کا حل مظلوم و استحصال زدہ طبقات کی جڑت اور مشترکہ جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس تحریک نے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی ہراول پرتوں کو متوجہ کیا ہے اور ایک نئے عزم و حوصلے سے سرشار کیا ہے۔ محروموں اور مظلوموں کی سرکشی اور جدوجہد کی صلاحیت سارے زمانے کے سامنے ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے۔