تحریر: ابرار لطیف
حکمران طبقہ تاریخ کو کتنا ہی مسخ کیوں نہ کر لے انسانی تاریخ ان مٹ واقعات، انقلابات، شخصیات، تحریکوں اور انقلابی ادوار سے بھری پڑی ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمیں برصغیر کی طلبہ تحریک میں بھی ملتی ہیں جو اپنے سیاسی ارتقاکے اتار چڑھاؤ اور منازل طے کر کے آج اس نہج پر کھڑی ہے۔ آج کے طلبہ تک یہ میراث پہنچانا اور انہیں طلبہ تحریک کی تاریخ اور طلبہ یونین کی افادیت (جس سے آج طلبہ کی اکثریت انجان ہے) کا ادراک کرانا ایک نہایت اہم فریضہ ہے۔
مغلیہ سلطنت کے خاتمے اور انگریز سامراج کی برصغیر میں آمد نے تمام تر جبر و استحصال کے باوجود کئی حوالوں سے ٹھہراؤ کے شکا ر اس خطے کو جست دی۔ 1857ء میں کلکتہ یونیورسٹی، بمبئی یونیورسٹی، مدراس یونیورسٹی اور1882ء میں پنجاب یونیورسٹی جبکہ 1887ء میں الہ آباد یونیورسٹی قائم کی گئی۔ لیکن سامراجیوں کا مقصد یہاں کے نوجوان کو تعلیم دینا یا ڈاکٹر اور انجینئر بنانا نہیں بلکہ پڑھے لکھے مزدوروں کی ایک کھیپ تیار کرنا تھا تاکہ باہر سے تعلیم یافتہ مزدور لانے کے بجائے یہیں سے مزدوروں کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ لیکن پھر یہ ادارے نوجوانوں کو سیاسی سرگرمیاں میں جوڑنے کا باعث بنے۔ وظیفوں میں کٹوتیوں کے خلاف طلبہ منظم ہونا شروع ہوئے اورخصوصاً1907ء میں کسانوں کی بغاوت میں ہونے والے قتل عام پر طلبہ نے سیاسی مظاہروں میں اپنا اظہار کیا۔ سامراجیوں کی لوٹ مار نے محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کو جوڑنا شروع کیا۔ جس طرح انگریز کی بچھائی ریل نے دور دراز کے علاقوں ا ور ان میں بسنے والے لوگوں کو متحد کیا اسی طرح ان اداروں نے نوجوانوں میں جڑت پیدا کی۔
طلبہ کے انقلابی کردار اور مداخلت نے برصغیر کی انقلابی تحریکوں کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریز سامراج کے خلاف اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے طلبہ نے جرأت مندانہ لڑائی لڑی۔ بھگت سنگھ بھی انہی نوجوانوں میں سے تھا جسے سوشلزم کے پرچار کی پاداش میں 23 سال کی عمر میں ساتھیوں سمیت پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ بھگت سنگھ کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں اسے باغی نظریات سیکھنے کے مواقع میسر آئے۔ 1926ء میں نیشنل کالج کی طالب علمی کے دور میں انقلابی نظریات سے آشنائی کے بعد بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں بی کے دت اور سکھ دیو کے ساتھ نوجوان بھارت سبھا کی بنیاد رکھی جو کہ ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (HRA) کا فرنٹ تھا۔ 1927ء میں بھگت سنگھ نے سیاسی طلبہ تنظیم’لاہور سٹوڈنٹس کانفرنس‘ بنائی جس کا مقصد طلبہ کو سیاسی شعور سے لیس کرتے ہوئے انقلابی نظریات سے روشناس کرانا تھا۔ اس سٹوڈنٹس کانفرنس کے تاسیسی اجلاس کی صدارت لالہ لجپت رائے نے کی تھی۔ انہی طلبہ نے 1928ء میں ’HRA‘ کو تبدیل کر کے ’HSRA‘ یعنی ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ کی بنیاد ڈالی۔ نام کی اس تبدیلی میں بھگت سنگھ کا بہت بڑا کردار تھا۔ بھگت سنگھ چاہتے تھے کہ تنظیم کے نام سے ہی اس کا مقصد اور پیغام بتایا جائے۔ مطلب واضح تھا کہ پارٹی کا مقصد ہندوستان کی صرف انگریز سامراج سے آزادی نہیں بلکہ ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام ہے۔ اس کے بعد سے ’HSRA‘ میں مارکسی نظریات کا رحجان بڑھنے لگا۔
1936ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔ 2 اگست 1936ء کو آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن نے پہلی کل ہندوستان طلبہ کانفرنس لکھنو میں منعقد کی۔ کانفرنس کو ہندو مسلم ایکتا، مختلف ثقافتوں اور صوبوں کو جوڑنے اور طلبہ کی سیاسی عمل میں شمولیت کے لیے منعقد کیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف صوبوں سے 986 مندوبین نے شرکت کی۔ ان کا تعلق 210 مقامی اور 11 صوبائی تنظیموں سے تھا۔ کانفرنس کا مروجہ سیاست سے آزادانہ کردار واضح کرنے کے لیے اس کی صدارت کے لیے محمد علی جناح اور مہمان خصوصی کے طور پر جواہر لال نہرو کو مدعو کیا گیا۔ صورتحال میں نیا موڑ اس وقت سامنے آیا جب جواہر لال نہرو کی تقریر کے جواب میں جناح نے کا نگریس کو ہندووں کی تنظیم کا نام دیتے ہوئے مسلمانوں کو الگ کمیونٹی قرار دیا اور سٹیج سے نیچے اترتے ہی کچھ طلبہ نے جناح سے اپنی نمائندہ طلبہ تنظیم بنانے کا تقاضا کیا۔ وہیں سے طلبہ کی یکجہتی کو توڑتے ہو ئے 1937ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی گئی۔ اسی عرصے میں سرینگر سٹوڈنٹ کانفرنس کے نام سے ایک گروپ کو سیالکوٹ اور لاہور میں پڑھنے والے کشمیری طلبہ نے منظم کیا جس کی محدود بنیادیں سرینگر میں بھی موجود تھیں۔ اس کے علاو ہ بھی سرمایہ دارانہ نظام اور انگریز سامراج کے خلاف چھوٹی بڑی تحریکیں منظم ہوتی رہیں۔
آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہااوربڑی تعداد میں خواتین بھی اس میں شامل ہو نے لگیں۔ 1940ء میں خواتین کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں الگ ونگ بننے لگے۔ آگے چل کر 1941ء میں یہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا سٹوڈنٹس ونگ بن گئی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس کے بعد 1920ء میں تاشقند میں بنائی گئی تھی۔ اس کے بانیوں میں ایم این رائے، ان کی بیوی ایلوین رائے و دیگر شامل تھے۔ 1925ء میں اس کی تاسیسی کانفرنس کانپور میں منعقد کی گئی اور مولانا حسرت موہانی اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے۔
1946ء میں برطانوی سامراج کے خلاف جہازیوں کی بغاوت بمبئی، کلکتہ، کراچی سمیت تمام صنعتی مراکز تک پھیل چکی تھی۔ مزدوروں، کسانوں ا ور طلبہ کواس فوجی بغاوت نے بہت متاثر کیا تھا۔ یہ ایک سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی تھی۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی سامراج کی معاونت کی تباہ کن سٹالنسٹ پالیسی کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی اور مرحلہ وار انقلاب کے نظریاتی انحراف کی وجہ سے یہ بغاوت حتمی منزل تک نہیں پہنچ سکی۔ جس کا نتیجہ محنت کش طبقات کی پسپائی اور رجعت کے غلبے کی شکل میں برآمد ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی کے تحریک آزادی سے عملاً باہر ہوجانے سے پیدا ہونے والے خلا کو سامراجی آشیر باد سے کانگریس اور مسلم لیگ کے ذریعے پرُکیا گیا۔ ہندوستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پورا خطہ خون میں ڈبو دیا گیا۔ 27 لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ کمیونسٹ پارٹی نے نظریاتی دیوالیہ پن کا مزید ثبوت تب دیا جب قیادت نے ’ہندو کامریڈ وں‘ کو ہندوستان اور ’مسلمان کامریڈوں‘ کو پاکستان میں الگ الگ پارٹیاں بنانے کے احکامات جاری کئے۔
پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی 1948ء میں قائم ہوئی۔ بٹوارے کے فوراً بعد صرف ایک طلبہ تنظیم ایم ایس ایف ہی تھی۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے نوجوانوں نے ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی بنیاد رکھی۔ انقلابی نظریات اور غیر طبقاتی نظام تعلیم جیسے مطالبات اس کے منشور کا حصہ بن گئے۔ ڈی ایس ایف اپنے جنم سے ہی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر رہی۔ 1951ء کے طلبہ یونین کے انتخابات میں ڈی ایس ایف نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور ملک کی سب سے بڑی طلبہ قوت بن گئی۔ نظریات کے پھیلاؤ کے لیے پندرہ روزہ ’Students’ Herald‘ کا اجراکیا گیا جس میں پاکستانی معیشت، عالمی تحریکوں اور طلبہ کے مسائل پرتحریریں لکھی جاتی رہیں۔ کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلبہ پیش پیش تھے۔ 1953ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اے بی حلیم کے ساتھ فیسوں میں کمی اور دیگر مطالبات پر مذاکرات کی ناکامی کے بعد تحریک پورے کراچی میں پھیل گئی۔ پانچ ہزار طلبہ، جو اس وقت کی آبادی کے حساب سے ایک بہت بڑی تعداد تھی، کا جلوس وزیر تعلیم کے گھر کی طرف مارچ کرتا ہوا جا رہا تھا کہ انتظامیہ نے جلوس پر آنسو گیس پھینکی۔ اگلے دن لاٹھی چارج شروع کر دیا گیا جس کے نتیجے میں سات طلبہ جاں بحق اور سو سے زیادہ شدید زخمی ہو گئے۔ بہت ساروں کو گرفتارکیا گیا۔ پھر یہ تحریک راولپنڈی، لاہور، لائل پور، ڈھاکہ اور پورے ملک میں پھیل گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کی مداخلت اور تحریک کے خوف سے 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی اور ڈی ایس ایف پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس سے پہلے بھی حکومت انقلابی طلبہ اور ڈی ایس ایف کے خلاف رجعتی تنظیموں ایم ایس ایف، اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر گروہوں کو استعمال کرتی رہتی تھی۔ اگرچہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ’کراچی شہدا کانفرنس‘ میں ایم ایس ایف نے بھی حکومت کے خلاف حصہ لیا۔ ڈھاکہ میں جنہوں نے تحریک کو منظم کیا اس میں ایسٹ پاکستان سٹوڈنٹس یونین اور ایسٹ پاکستان سٹوڈنٹس لیگ شامل تھیں۔ ڈاؤ میڈیل کالج کی طالبات نے بھی گرفتار رہنماؤں کے حق میں مظاہرے کیے۔ اسی طرح ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی طالبات تحریک میں موجود تھیں۔
اس تمام جبر کے بعد پروفیسرحلیم نے کالعدم ڈی ایس ایف کے ممبران کی سر گرمیوں کی روک تھام کے لیے چند طلبہ کو اکٹھا کر کے 1958ء میں نئی طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) بنائی۔ اوائل میں یہ ایک دائیں بازو کارحجان رکھنے والی نیشنلسٹ تنظیم تھی۔ لیکن ڈی ایس ایف کے کارکنان نے این ایس ایف میں مداخلت شروع کر دی۔ محمدشفیع، معراج محمد خان، رشید حسن خان اور امیر حیدر کاظمی کا این ایس ایف میں بائیں بازو کے نظریات پھیلانے میں بڑا کردار رہا۔ این ایس ایف اب سوشلسٹ نظریات کی حامل طلبہ قوت کے طور پر ابھرنا شروع ہوئی۔ 60 ء کی دہائی میں این ایس ایف نے کراچی کے طلبہ کو ساتھ ملاتے ہوئے چٹاگانگ، ڈھاکہ یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، راولپنڈی گارڈن کالج وغیرہ میں طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا۔ ایوبی مارشل لا کے خلاف این ایس ایف کی تحریک میں لوگ شامل ہوتے گئے۔ ایوب خان نے تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تمام مطالبات مان لئے جن میں تین سالہ ڈگری کورس کو کم کر کے دو سال کیاجانا، فیسوں میں 50 فیصد کمی اور ٹرانسپورٹ کی مفت فراہمی وغیرہ شامل تھے۔ مارکسزم اور سوشلزم پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سٹڈی سرکل اور بحث و مباحث ہوتے تھے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں اس کے یونٹ قائم ہوتے گئے۔ 1964-65ء میں این ایس ایف نے کونسلرز کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ تمام ریاستی ایجنسیوں کی مداخلت کے باوجوداین ایس ایف کے پندرہ طلبہ جیتنے میں کامیاب ہو ئے جن میں معراج محمد خان، نفیس صدیقی، علی مختار رضوی اور سعید حسین شامل تھے۔ خوفزدہ ہو کر ایوب خان نے یونیورسٹی آرڈیننسجاری کیا جس کامقصد طلبہ کے سیاسی کردار کو محدود کرنا تھا۔ طلبہ نے احتجاجی ہڑتالیں اور مظاہرے کئے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان گرفتار ہوئے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند پر اختلاف کے نتیجہ میں این ایس ایف کی قیادت چین نواز اور روس نواز دھڑوں میں بٹ گئی۔ چین نواز دھڑے کے رہنما معراج محمد اور روس نواز دھڑے کے قائد امیر حیدر کاظمی تھے۔
69۔ 1968ء کی انقلابی تحریک میں این ایس ایف کے کارکنان کا بہت اہم کردار تھا۔ معراج محمد خان سمیت بہت سے طلبہ رہنما اور کارکنان نومولود پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کو سوشلزم کے نعرے کے تحت وسیع حمایت ملی۔ لیکن انقلاب بھٹو حکومت کی اصلاحات میں زائل ہونے لگا۔ پارٹی میں سے بائیں بازو کے لوگوں کو نکالنے اور بھٹو کی دائیں جانب شفٹ سے انقلابی طلبہ اور محنت کشوں میں بہت مایوسی پھیلی۔ ادھورا انقلاب آخر کار اقتدار پر ضیاالحق کے شب خون اور بھٹو کے عدالتی قتل پر منتج ہوا۔
ضیا الحق کی درندہ صفت آمریت نے ترقی پسند طلبہ کو جیلو ں میں ڈالا۔ نوجوانوں میں منشیات اور اسلحہ کلچر کو فروغ دیا۔ انتہا پسند رجعتی تنظیموں کو کھلی چھٹی دے دی گئی۔ لیکن پھر بھی جب بات نہ بن سکی تو 1979ء میں طلبہ یونین اور مزدور یونین کو کا لعدم قرار دے دیا گیا اور 1984ء میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے طلبہ یونین پرمکمل پابند ی لگا دی گئی۔ خصوصاً پنجاب یونیور سٹی کے تمام ہا سٹلوں کو جمعیت کے قبضے میں دے دیا گیا اورپورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رجعتی تنظیموں کو لانچ کیا گیا۔ آج تک جمعیت کے غنڈ ے ریاستی سر پرستی میں سرگرم ہیں۔ پاکستان کی ترقی پسند طلبہ سیاست سے متا ثر ہو کر کراچی میں پڑھنے والے چند کشمیر ی طلبہ نے 1966ء میں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF ) بنانے کا فیصلہ کیا۔ میر پور کالج گراؤنڈ میں منعقدہ کنو نشن میں راجہ ممتا ز حسین راٹھو ر اور انکے دیگر ساتھیو ں نے 24 ستمبر کو جے کے این ا یس ایف کے قیام کا با ضا بطہ اعلان کیا۔ ممتا ز حسین راٹھو ر با نی صدر، ریاض انقلابی سیکرٹر ی جنرل اور نظیر تبسم پر یس سیکرٹری بنے۔ ان کے معا ونین اور بانی ساتھیو ں میں سردار مشتاق، صابر انصاری اور چوہدری بشیر بھی موجود تھے۔ جے کے این ایس ایف ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آنے لگی۔ طلبہ حقوق کی جدوجہد اور بنیادی مسائل کے گرد طلبہ کو منظم کیا گیا۔ 1968-69ء کے انقلا ب کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے میر پور، مظفر آباد اور دیگر کالجو ں میں جلسے جلوس نکالے گئے۔ ا پنے جنم سے ہی جے کے این ایس ایف انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات سے سر شا ر تھی۔ اسی لئے سرخ پرچم اِس کی علامت بنا۔ کچھ سالو ں بعدسرخ جھنڈ ے پر مو نو گر ام تشکیل دیا گیا جس میں شعلہ اورزنجیر بنا ئی گئی۔ 1980ء کاراولاکوٹ کنو نشن سبوتاژ ہونے کے بعدجنوری 1981ء میں میر پور میں کنو نشن ہوا جس میں میر خالد محمو د صدر بنے۔ یہ کنونشن بھی دھڑ ے بند ی کا شکا ر ہوا اور دوسر ے دھڑے کے صدر سردار جاوید نثار بنے۔ دونوں نے اپنااپنا مونوگرام بنایا۔ میر خالد محمو د انقلابی نظریات کے حامل دھڑے کے سر براہ کے طور پر سامنے آئے۔ نظریاتی طور پر یہ دھڑا این ایس ایف پاکستان کے میر حید ر کاظمی دھڑے کے قریب تھا۔ میر خالد محمود کی کا بینہ نے لینن کے نظریات اور نعروں سے متاثر ہو کر مونو گرام میں ’علم، جدوجہد، فتح‘ کا اضافہ کیا۔ اگلے کنونشن میں دو نوں دھڑوں کا انضمام ہوا اور ’علم، جد جہد، فتح‘ کو متفقہ نعرے کے طور پر اپنایا گیا جو آج تک موجو د ہے۔
جے کے این ایس ایف اپنے جنم سے سامراجی جبر اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بر سرپیکار رہی۔ اس نے سوشلسٹ بنیادوں پر کشمیر کی قومی آزاد ی اور طلبہ حقوق کے لئے ناقابلِ مصالحت جدوجہد کی۔ جس سے خوفزہ حکمرانوں نے یہاں بھی این ایس ایف کے خلاف جمعیت اور ایم ایس ایف کی خوب سر پرستی کی اور مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹس ونگ بنائے گئے۔ لیکن تمام تر دھونس اور دھاندلی کے باوجود جے کے این ایس ایف مظفر آباد سے لے کر میرپور تک 70ء کی دہائی میں تمام کالجو ں میں کامیاب ہوتی رہی اور ان رجعتی تنظیموں کے خلا ف جدوجہد کر تی رہی۔ طلبہ سیاست پر پابند یوں کے خلاف ہر تعلیمی ادارے میں لڑائی لڑی۔ جے کے این ایس ایف کی تاریخ، نظریات اور جد وجہد کے حوالے سے ’’جدوجہدکے پچاس سال‘‘ نامی دستاویز 2016ء میں شائع کی گئی ہے۔ سائنسی سوشلزم کی بنیادوں پر قومی و طبقاتی استحصال کے خلاف جے کے این ایس ایف کی جدوجہد آج بھی زور و شور سے جاری ہے اور انقلاب کا کارواں آگے بڑھ رہا ہے۔
طبقاتی، جنسی اور قومی جبر و استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے کشمیر اور پاکستان کی انقلابی طلبہ تنظیموں کو متحد ہونا ہو گا۔ تمام علاقائی، گروہی، مذہبی، قومی اور نسلی تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے اس خطے سے گلے سڑے سر مایہ دارانہ نظام کو اکھا ڑ پھینکنے کا وقت قریب ہے۔ یہی طبقاتی جڑت نہ صرف کشمیر کی وحدت بلکہ برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن اور محکوموں اور مظلوموں کی بین الاقوامی وحدت کی ضامن بن سکتی ہے۔