تحریر: لال خان
اپریل 1979ء کی تاریک راتوں میں شہر شہر گاؤں گاؤں اداسی کا عالم تھا۔ خبر تھی کہ کسی بھی لمحے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کے ذریعے قتل کر دیا جائے گا۔ ہر طرف مایوسی، لاچاری، ناکامی اور اذیت کا احساس تھا۔ آخر ملک کی تاریخ کا مقبول ترین رہنما 4 اپریل کی رات کو راولپنڈی سینٹرل جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ اُسی برس جنوری میں بھٹو کی اکاونویں اور آخری سالگرہ جیل کی کال کوٹھڑی میں گزری۔ مسوڑھوں کی تکلیف کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ بمشکل ہی کچھ کھانے کے قابل تھا۔
5اپریل کو برطانوی اخبار گارڈین نے لکھا کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو کے انجام پر پاکستان سوگوار ہے۔ عام لوگوں میں وہ ہر دلعزیز تھا… اس نے حکمران اشرافیہ اور آمریت سے اپنی راہیں جدا کیں۔ بھٹو نے طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنایا… روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا۔ بیش قیمت سوٹ اور ریشمی رومالوں کو چھوڑ کر شلوار قمیض پہنی اور بازاروں اور ایسے دو ر دراز علاقوں میں جا کر الیکشن مہم چلائی جنہیں اس کے مخالف فراموش کر چکے تھے… بھٹو کی شخصیت پیچیدگی اور تضادات سے بھرپور تھی۔ وہ بہت ذہین تھا اورایک ممتاز خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ امتزاج اکثررعونت کی شکل اختیار کر لیتا ہے… اس کا مزاج حاکمانہ تھا لیکن وہ بزدل ہرگز نہیں تھا۔ زندگی کے آخری غمناک مہینوں میں بھی وہ با وقار رہا۔ تلخ حالات اسے شکست نہ دے سکے۔ وہ جھکا نہ ہی فریاد کی۔‘‘
بھٹو کا عدالتی قتل پاکستان کے محنت کش عوام اور جابر ریاست و سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان جدوجہد اور کشمکش کا اہم موڑ تھا۔ اس سے قبل جولائی 1977ء میں آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہونے والی ملک کی پہلی حکومت کا تختہ امریکی سامراج اور مقامی حکمران طبقات کی ایما پر الٹ دیا تھا۔ لیکن بھٹو نے جھکنے سے انکار کر دیا اور فوجی حکومت کے خلاف پر زور مہم شروع کی۔ اسلام آباد سے لندن اور واشنگٹن تک اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ حکمران طبقات خوفزدہ تھے کہ کہیں مقبولِ عام لیڈر ایک نئی انقلابی بغاوت کا محور نہ بن جائے۔ بالخصوص ضیا پر بھٹو کو ختم کرنے کا بھوت سوار تھا۔ بھٹو کا عدالتی قتل عدل کے اِن اونچے اونچے ایوانوں کی مکروہ حقیقت اور منافقت کو آج تک عیاں کرتا ہے۔ کیسا المیہ ہے کہ پیپلز پارٹی پر مسلط ٹولہ آج انہی ریاستی اداروں کی کاسہ لیسی اور حمد و ثنا میں مصروف ہے۔
ماضی میں جائیں تو 1967ء کے اواخر میں ریڈیکل بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاسی کارکنان کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا قیام لاہور میں عمل میں آیا تھا۔ لیکن یہ 1968-69ء کی انقلابی تحریک تھی جس نے سوشلسٹ پروگرام دینے والے اِس رجحان کو راتوں رات ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنا دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ابھار اِسی تحریک کے محور و مرکز کے طور پر ہوا تھا۔ کروڑوں محنت کش اور نوجوان نہ صرف آمریت بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف میدانِ عمل میں اترے تھے۔ پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات اور 1970ء کا انتخابی منشور بعد از تقسیم اس خطے کا سب سے ریڈیکل سیاسی، معاشی اور سماجی پروگرام تھا۔ لیکن بھٹو کوئی لینن نہیں تھا اور پیپلز پارٹی کوئی بالشویک پارٹی نہیں تھی۔ ایسے میں ایوب خان کے استعفے، 1970ء کے انتخابات اور مشرقی بنگال میں جنگ کے ذریعے انقلاب کو زائل کر دیا گیا۔ مفلوج ریاست اور شکست خوردہ فوج کی کیفیت میں بھٹو کو اقتدار دیا گیا۔ عالمی سامراج اور مقامی حکمران طبقات ابھی انقلابی تحریک کے خوف اور صدمے سے نہیں نکلے تھے اور محنت کشوں کی ہراول پرتیں ابھی تک تحرک میں تھیں۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار کی منتقلی ایک کڑوا گھونٹ تھا جو اِن استحصالی قوتوں کو بھرنا پڑا۔ اس اقدام کا مقصد بحیثیت مجموعی پورے نظام کو بچانا تھا۔ بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنما ریڈیکل اصلاحات کے ذریعے عوام کی حالت زار میں بہتری چاہتے تھے۔ ان میں سے بیشتر بہت خلوص سے انقلابی اقدامات کے طور پر ان اصلاحات کو دیکھ رہے تھے۔ اصلاحات کئی بھی گئیں۔ بھٹو حکومت کے ابتدائی سالوں میں کئے جانے والے معاشی اقدامات کا شمار نہ صرف اِس خطے بلکہ دنیا کی تاریخ کی بڑی نیشنلائزیشنز میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں کا سرمایہ دارانہ نظام اتنا گلا سڑا تھا کہ اس میں رہتے ہوئے یہ انتہائی ریڈیکل اصلاحات بھی سماج کی وسیع اکثریت کو غربت، محرومی اورذلت کی دلدل سے نہیں نکال سکیں۔ اُلٹا کئی طرح کے نئے تضادات اور پیچیدگیوں نے جنم لیا۔ ایسے میں عوام مایوس اور پژمردہ ہونے لگے۔ ریاست جوں جوں سنبھلتی گئی، حکمران طبقے کے جبر کے اوزار کے طور پر اس کا حقیقی چہرہ سامنے آتا گیا۔ چند سالوں میں بھٹو عملی طور پر اس ریاست کی مشینری کا اسیر بن گیا جسے بنگال کی شکست فاش کے بعد بچانے کی غلطی اُس نے کی تھی۔ اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھنے کی خاطر بونارٹسٹ اقدامات، لفاظی اور ظاہری اقدامات کے باوجود اب حقیقی فیصلہ ساز ریاست ہی تھی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ فیصلہ کن کردار ہمیشہ اُس ریاست کا ہی ہوتا ہے جس کی حدود و قیود میں سیاسی اقتدار قبول کیا جاتا ہے۔ پارٹی میں دائیں بازو کے رجحانات، بیوروکریسی اور بورژوا پالیسی ساز بھٹو کو یقین دلا رہے تھے حکومت کے دوام کے لیے ریاست کا سہارا ناگزیر ہے۔ بھٹو کو غلط فہمی تھی کہ وہ یہ سہارا لے کر ایک ’توازن‘ قائم رکھتے ہوئے معاملات چلا سکتا ہے۔ نتیجتاً وہ رفتہ رفتہ دائیں جانب سرکتا چلا گیا۔ بلوچستان میں خونریز فوجی آپریشن، ایٹمی پروگرام میں تیزی، اسلامی سربراہی کانفرنس، ریاست میں مذہب کی مداخلت کے اقدامات اور کراچی کے صنعتی مراکز میں ہراول محنت کشوں کا قتل اسی عمل کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ آخر میں بھٹو نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ تحریک پیچھے چلی گئی تھی۔ متحرک عوامی حمایت بہت محدود ہو چکی تھی۔ امریکی سامراج اور ریاست نے مل کر لبرل، سیکولر، قوم پرست اور اسلامی جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا اور مارچ 1977ء میں ایک رد انقلابی مہم شروع کر دی گئی۔ فنڈنگ سی آئی اے کر رہی تھی۔ آخر موقع ملتے ہی ’قو ی سلامتی‘ کی خاطر ایک ’پر امن‘ فوجی بغاوت کے ذریعے بھٹو حکومت کو معزول کر دیا گیا۔ بھٹو کا پچھتاوا اور اُس کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے۔ کال کوٹھڑی میں لکھی کتاب ’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘ میں اس نے اعتراف کیا: ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے متضاد مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی… اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ، قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹو پیا (دیوانے کاخواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اورا س کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا۔‘‘ یہ بھٹو کی آخری تحریر ثابت ہوئی۔
بھٹو کی میراث کی دعویدار پارٹی آج امریکی سامراج اور ریاست کی کاسہ لیسی میں سب رجعتی رجحانات کو پچھاڑنے کی بھرپور تگ و دو کر رہی ہے۔ لیکن یہ پیپلز پارٹی جمود کے ادوار میں سماج پر مسلط سیاسی ڈھانچے کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ بھٹو کو عوامی لیڈر بنانے والے طبقاتی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم کے نظریے کو پارٹی قیادت نے 1980ء کی دہائی میں ہی خیر باد کہہ دیا تھا۔
بھٹو کوئی مارکسسٹ انقلابی تو نہیں تھا لیکن سماج کی نبض پر ہاتھ رکھنا جانتا تھا۔ اسی ادراک کی بنا پر عوامی شعور کی انقلابی اٹھان کے دور میں اُس نے سوشلسٹ پروگرام اور نعرے پیش کئے۔ جواباً تحریک نے بھٹو کو مزید ریڈیکل بنا دیا۔ جدید تاریخ میں عوام اور پاپولسٹ لیڈروں کے درمیان ایسے تعلق کی اور بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ بھٹو کی زندگی اور موت کا سبق یہ ہے معروضی صورتحال کے ساتھ افراد بھی بدلتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی حرارت میں ریڈیکل بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اُس کی زندگی اور موت یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ طبقاتی جدوجہد میں کوئی ’درمیانی راستہ‘ نہیں نکالا جا سکتا اور محنت کش طبقے کی حتمی نجات ایک لینن اسٹ انقلابی قیادت کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کے یکسر خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔