مشرقِ وسطیٰ کا پرانتشار منظر نامہ

تحریر: PTUDC دبئی

مشرق وسطیٰ ایک طرف مشرق و مغرب کا سنگم ہے تو دوسری طرف حاکم و محکوم کا ننگا اظہار بھی یہاں ہوتا ہے۔ یہ خطہ غربت اور امارت کی کبھی نہ دیکھی گئی خلیج کا ایک بہت بڑا کینوس ہے۔ جہاں ملائیت اور لبرلزم کا گٹھ جوڑ دیکھنے کو ملتا ہے وہیں غریبوں اور محنت کشوں کے حالات اذیت ناک ہیں۔ ’بکینی بیچ‘ اور سینما گھر کھولنے کی اجازت دینے جیسے اقدامات سعودی بادشاہت کی معاشی زوال پذیری کا واضح اظہار ہیں۔ 2011ء کے عرب انقلاب نے مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے پاؤں تلے سے زمین سرکا دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے منافقت سے بھر پور دورے سے ان کے نام نہاد ’اسلامی اتحاد‘ کا پول کھل کے سامنے آیا ہے۔ لیکن سامراجی کاسہ لیسی میں اپنی عافیت ڈھونڈنے والے حکمرانوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ ان کے آقا کی اپنی حالت بھی پتلی ہو چکی ہے۔ امن کی نصیحتوں کے ساتھ ساتھ اکیلے سعودی حکمرانوں کو 350 ارب ڈالر کے اسلحے اور دوسرے سٹریٹجک معاہدہ جات کا چونا لگانے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد میں دوگنا اضافے کے اعلان کے ساتھ ٹرمپ واپس گیا۔
سعودی حکمران ایک لمبے عرصے سے مختلف مسلمان اکثریت والے ممالک میں مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کو پروان چڑھاتے آئے ہیں اور خود اپنی عیاشیوں اور ملکی وسائل کے بے پناہ ضیاع سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنے ملک میں بھی رجعتی قوانین اور جبر کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سماج کو ایک گھٹن میں دھکیلتے چلے آئے ہیں۔ لیکن عالمی معاشی بحران اور عرب بہار نے اس بادشاہت کی بنیاد یں ہلا کے رکھ دیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور دوسرے فیکٹرز کی وجہ سے سعودی معیشت خسارے میں چلی گئی اور سعودی حکومت کو آئی ایم ایف کو پہلی بار 10 بلین ڈالر کے قرضے کی درخواست دینی پڑی۔ معاشی گراوٹ اور حکمرانوں کے خلاف پہلے سے موجود نفرت کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں اور غربت سے تنگ فرقہ وارانہ جبر سے اکتائے لوگ احتجاج پر مجبور ہوئے۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال اس ملک کے شیعہ آبادی والے مشرقی صوبے قطیف میں انتہائی برے حالات ہیں۔ ہسپتال ناپید ہیں۔ گندگی کے ڈھیر ہفتوں گلیوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں اور انہیں ٹھکانے لگانے اور اٹھانے کا انتظام نہیں۔ روزگار کے دروازے بند ہیں۔ ایسے میں احتجاجوں کو دانستہ فرقہ واریت کا رنگ دے کر لوگوں کے اصل مسائل کو مجرمانہ طور پر دبانے کی کوشش کی جا تی رہی۔ مذہبی جبر اور غربت میں سلگتے عوام نے جب صوبہ قطیف کے چھوٹے سے قصبے العوامیہ کے مضافات میں شیعوں کی 400 سالہ تاریخی عمارات کو مسمار کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تو عوامیہ شہر کا محاصرہ کر لیا گیا۔ دو ماہ تک جاری رہنے والے اس محاصرے میں کئی لوگوں کو اغوا، گرفتار اور قتل کیا گیا۔ اور شہر کا زیادہ تر حصہ بلڈوز کر دیا گیا۔ میونسپل انتظامیہ کے ترجمان محمد الصفیان کے بیان کے مطابق سعودی عرب کے مشرقی صوبہ کے شہر الاسوارا کے تاریخی علاقے میں 488 گھر تباہ کر دئیے گئے ہیں۔ داخلی تضادات کو بیرونی جنگوں کے ذریعے دبانا سرمایہ داری کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ قطر اور ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور اپنی کمزور پڑتی گرفت اور داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اس ریاست نے یمن میں مداخلت کر کے نہ صرف اپنے ہاتھ جلا لیے ہیں بلکہ یمن کو بھی بدترین بحران میں دھکیل دیا ہے۔ قحط اور بیماریوں میں محصور یمن بربادی کی ایک داستان بن کے رہ گیا ہے جہاں سے آئے روز دلخراش واقعات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
سعودی عرب میں رہائش پذیر غیر ملکی محنت کش انتہائی اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہیں۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے ساتھ ساتھ اقامے کی لازمی فیس اور جابر ویزہ قوانین کے تحت کام کرنے والا ملازم عملاً کفیل کا غلام ہے۔ پچھلے سال سینکڑوں مزدوروں نے بن لادن کمپنی کی بسوں کو احتجاج کے دوران آگ لگا دی تھی جس کی پاداش میں 300 مزدوروں کو گرفتار کر کے کوڑے مارے گئے۔ 20 لاکھ غیر ملکی مزدوروں کو ملک سے نکال دیا گیا ہے۔ کرپٹ شہزادے دوسرے کرپٹ شہزادوں کی کرپشن کا احتساب کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی ایک چنگاری اس وحشت ناک صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ سکتی ہے۔ شاہی خاندان کے اندر پھوٹ اس رجعتی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی غمازی ہے۔ اس نظام کی وحشت سے نکلنے کے لیے سعودی عرب کے عوام چھوٹے احتجاجوں میں منظم ہونا شروع ہوئے ہیں۔ جن کو حکومت کی طرف سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھاری تنخواہوں پر رکھے گئے ملّاں توڑنے اور موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عام لوگ جلد ہی طبقاتی بنیادوں پر اکٹھے ہوں گے۔
قطر، جو ایران کے ساتھ خلیج میں گیس کے ذخائر کا سانجھے دار ہے، خطے کے اندر اور باہر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ بلند اوسط آمدنی کیساتھ قطر ی شہریوں کو مفت زمین، اچھی ملازمتیں اور معروف یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل ہے۔ غیر ملکی محنت کش ملک کی آبادی کا 90 فی صد ہیں اور انتہائی کم اجرتوں پر اپنی قوتِ محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ قطر نے دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ تنازعہ کے دوران اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے 38 بلین پاؤنڈ کا استعمال کیا ہے۔ موڈیز کے مطابق جولائی میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی طرف سے عائد کی جانے والی محدود پابندیوں سے تجارت، سیاحت اور بینکنگ کے شعبوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قطر کے 30 بلین ڈالر بیرونی بینکوں میں منتقل ہوئے اور مزید منتقلی کی بھی توقع ہے۔ ایران اور قطر کی حماس اور اخوان المسلمین کے لیے حمایت اور سعودی حمایتی جہادی گروپوں کو کاؤ نٹر کرنے کی پالیسی درا صل خطے پر اثر و رسوخ بڑھانے کی واردات ہے۔ اس سارے کھلواڑ نے مشرق وسطیٰ کو تاراج کر رکھا ہے۔ دوسری طرف قطر گیس کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور مائع گیس کی عالمی کھپت کا تیس فیصد سے زائد برآمد کرنے والا ملک بھی ہے۔ لیکن خلیجی ممالک میں عمان، مصر اور عرب امارات سمیت صرف پانچ ملکوں کو قطر گیس سپلائی کرتا ہے۔ جاپان، انڈیا اور جنوبی کوریا قطری گیس کے بڑے خریدار ہیں۔ اس طرح سعودی عرب اور اتحادیوں کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیاں بے معنی ہیں۔ مثلاً سعودی عرب نے پابندیوں کے دوران اگرچہ قطر کی ائیر لائنز کو ا ڑنے سے روک دیا لیکن قطر سے گیس کی سپلائی بند نہیں کی۔ کیونکہ اگر قطر سے گیس کی سپلائی بند ہوتی تو آدھے سے زیادہ دبئی اندھیرے میں ڈوب جاتا۔ گھریلو استعمال کے لیے گیس کی فراہمی میں تعطل ایک الگ بحران پیدا کر سکتا ہے۔ ڈولفن انرجی پراجیکٹ کے تحت زیر سمندر 365 کلومیٹر لمبی پائپ لائن قطر سے ابو ظہبی اور پھر عمان تک روزانہ 200 بلین کیوبک فٹ سپلائی کے ساتھ گیس کی ضرورت کا 30 فیصد پورا کرتی ہے۔ تا ہم قطر کی مارکیٹ میں سعودی عرب اورامارات سمیت خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری پانچ سے دس فیصد سے زیادہ نہیں ہے اس لیے خلیجی ممالک پر قطر کی منڈی کا انحصار زیادہ نہیں ہے۔ البتہ خوراک اور ڈیری کی مصنوعات کے بڑے حصے کی درآمد زمینی راستے سے سعودی بارڈر سے ہوتی ہے اور ایلومینیم اور عمارتی سامان کی درآمدکے لیے بھی واحد خشکی کا راستہ سعودی عرب کی سرحد ہی ہے۔ قطر میں صرف کنسٹرکشن کے شعبے میں 20 لاکھ تارکین وطن کام کر رہے ہیں جبکہ تقریباً دو لاکھ گھریلو ملازم ہیں۔ سعودی قطری تنازعے میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں دوگنا سے بھی بڑھ گئیں اور معمولی تنخواہوں پہ گزارہ مشکل ہو گیا ہے۔ قطر سے متعلق ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کنسٹرکشن کے شعبے میں سیفٹی کے ناقص اقدامات، غیر واضح لیبر قوانین، گرمی میں باہر کام کرنے والے مزدوروں میں (اچانک) اموات کی بلند شرح، گھریلو ملازمین پر تشدد وغیرہ بارے اقدامات انتہائی غیر تسلی بخش ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے اس مطالبے کے باوجود کہ ورکر کو کفیل کی بجائے حکومت خود اقامہ اور ایگریمنٹ مہیا کرے‘ معاملات ابھی بھی توجہ طلب ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے مزدور 500 سے 700 قطری ریال (جو ایک انتہائی قلیل تنخواہ ہے) پر کام کر نے پر مجبور ہیں۔
متحدہ عرب امارات سات چھوٹی ریاستوں پر مشتمل مشرق وسطیٰ کی ایک امیر اور اہم ریاست ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والے اس ملک میں ٹیکس اور ہر طرح کے بے تحاشہ جرمانوں کے کمیشن ہی مقامی بے روزگار نوجوانوں کی تنخواہ کا ذریعہ ہیں۔ ابو ظہبی‘ باقی چھ میں سے سب سے امیراور زیادہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر رکھنے والی ریاست ہے۔ متحدہ عرب امارات میں دنیا کا ساتواں بڑا تیل کا ذخیرہ ہے۔ دوسری امارات نے تیل کی معیشت پر انحصار کرنے کی بجائے معیشت کو متنوع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ ابوظہبی کا انحصار بینکنگ، فنانس، رئیل اسٹیٹ، تجارت، صنعت، سیاحت اور تفریح جیسے دیگر اقتصادی شعبوں میں سرمایہ کاری پر ہے۔ قطر کے ساتھ تنازعے میں سعودی عرب کی حمایت میں اقدامات کے نتیجے میں قطر سے گیس کی سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے تجارتی منڈی سکڑنے لگی اور سرمایہ کار بینکوں سے قرضے لے کر بھاگنے لگے۔ الیکٹرونکس کی مارکیٹ ابھی تک بحران زدہ ہے۔ بادشاہت، بلند وبالا عمارتیں، بڑے عالیشان ہوٹل اور بے تحاشہ مزدور اس ملک کی پہچان ہیں۔ امارت اور غربت کا بے ڈھنگ امتزاج ہے۔ لبرلزم اور قدامت کا سنگم یہ ملک جہاں دنیا بھر کے لٹیروں کے کالے دھن کے لیے ’ٹیکس ہیون‘ ہے وہیں محنت کشوں کے لیے ناکردہ گناہوں کی سزا کی جہنم بھی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امارات میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدید تر ہیں۔ 2016 ء میں ایک اماراتی پروفیسر اور ایک اردنی صحافی کو آزادیِ اظہار کے لیے آواز بلند کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ بنیادی طور پر امارات ایک رجعتی ریاست ہے جس میں ہر طرح کی تنقید پر پابندی ہے۔ احتجاج اور ہڑتال کی صورت میں آپ کو ہر صورت ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ خفیہ ادارے اور پولیس کسی کو بھی غیر معینہ مدت تک غائب کر سکتی ہے۔ امارات میں کل نجی ملازمتوں کی 99 فیصد لیبر فورس پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کے محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ جو کہ انتہائی مشکل حالات میں گزارہ کر رہے ہیں۔ امارات محنت کشوں کے لیے ایک سنہرے خواب کی بجائے ایک عقوبت خانہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہر طرح کی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے قانونی چور راستے موجودہیں۔ مزدور کے لیے رہائش جتنی مہنگی ہے اتنی ہی نا قابل برداشت ہے۔ صحت کے حوالے سے محنت کشوں کی اکثریت یہاں کے ہسپتالوں میں عام بخار اور زکام کا علاج کرانے کی بھی سکت نہیں رکھتی۔ پچھلے سال اگرچہ حکومت نے کمپنیوں کو ملازمین کی میڈیکل انشورنس کروانے کا پابند کیا ہے لیکن یہ اقدامات بھی صرف فیس بٹورنے کی حد تک رہے۔ کیونکہ اکثر انشورنس کارڈز 10 سے 20 فیصد تک دوائیوں میں رعایت کے حامل ہیں وہ بھی مخصوص کلینکس پر جن تک رسائی کا خرچہ اکثر ممکنہ رعایت سے دوگنا پڑتا ہے۔ یہاں نیشنل ڈے ہر سال بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا رہا ہے لیکن اس سال حکومت کی پوری کمپئین اور قومی ترانوں کی ہلا شیری کے باوجود وہ مقامی آبادی کو بھی اس مہنگے جشن میں شامل نہ کر پائے۔ دراصل مختلف جرمانوں اور کمر توڑ مہنگائی اور تنخواہوں میں کٹوتیوں نے آبادی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ انتہائی سخت قوانین کی وجہ سے لوگوں کا باہمی میل جول کم ضرور ہے لیکن گرتا ہوا معیار زندگی اور لوٹ مار کے نت نئے قوانین لوگوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔
پچھلے سال ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کے خلاف 450 کلومیٹر ’انصاف مارچ‘ میں ہزاروں افراد استنبول میں جمع ہوئے۔ 15 جون کو انقرہ میں شروع ہونیوالے احتجاجی لانگ مارچ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے تھے۔ حزب اختلاف اور احتجاج کے رہنما ’کیمیل کیلیکداروگلو ‘نے گزشتہ برس کی ناکام بغاوت کے بعد ناجائز گرفتاریوں اور قید و بند پر کڑی تنقید کی۔ احتجاجی ریلی کے آرگنائزر نے بتایا کہ وہ’’ایک آدمی کی حکومت‘‘کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلے ہیں مگراس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گزشتہ سال کی فوجی بغاوت کی حمایت کر تے ہیں۔ اس نے گزشتہ سال 15 جولائی کو اردگان کی جانب سے پارلیمنٹ کے اختیارات پر قبضہ کرنے اور انتظامیہ، قانون سازی اور عدالتی طاقتوں کو فرد واحد کو منتقل کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد50000 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور 140000 افراد نوکریوں سے معطل کر دیئے گئے۔ فوجی بغاوت کو کچلنے کی آڑ میں اردگان نے وسیع پیمانے پر اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے انتظامی اور عدالتی اداروں کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر کرد آبادیوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا۔ کُرد جو کہ کل آبادی کا20فیصد ہیں اردگان حکومت سے شدید نفرت کرتے ہیں اور اپنی آزاد ریاست کے حصول کے لیے مختلف تحریکوں میں سر گرم ہیں۔ اردگان نے ترکی میں احتجاج اور ہڑتال پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور احتجاجیوں پر دہشتگردی کے مقدمے چلائے جا رہے ہیں۔ صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ تین ماہ پہلے آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ترکی میں بے روزگاری کی شرح گھمبیرہے۔ ترکی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2017 ء میں بے روزگاری کی شرح 12.7 فیصدتھی۔ حقیقی بے روزگاری کہیں زیادہ ہے۔ اپنی آمریت کو تقویت دینے کے لئے تعلیمی نصا ب پر اردگان حکومت نے ہاتھ صاف کرنا ضروری سمجھا، جس میں فوجی بغاوت کے خلاف اردگان کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کے لیے پورا ایک سبجیکٹ متعارف کرایا گیا ہے۔ تنقید کرنے والے دسیوں ہزار اساتذہ کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ جس کے خلاف والدین نے شدید احتجاج کیے ہیں۔ جنوری 2018 ء سے مختلف شعبوں میں جبری قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوام چیخ اٹھے۔ بجلی کی قیمتوں میں 8.5 فیصد، ٹول پلازوں کی مد میں 10 سے 25فیصد اور موٹر گاڑیوں کی قیمتوں میں 15 سے 25 فیصد اضافے کے علاوہ پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔
شام میں لڑی جانے والی سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار میں ایران نے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔ امریکہ کی بجائے روس کے واضح حاوی کردار کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اور ترکی نے اب روس سے یارانہ بڑھانے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس سلسلے میں 5 اکتوبر 2017ء کو کریملن میں سعودی بادشاہ اور پیوٹن کی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ بھی طے پایا جس کی رو سے روس سعودی عرب کو S۔ 400 میزائل سسٹم دے گا۔ اسی طرح ترکی نے بھی روس سے دشمنی مول لینے سے پرہیز کیا اور روسی صدر پیوٹن کو انقرہ میں 28 ستمبر کو مدعو کیا۔ جہادی گروپوں خاص طور پر داعش کے ساتھ اردگان حکومت کے یارانے کوئی راز کی بات نہیں ہیں۔ کردوں کو کچلنے کے لیے ترک حکومت کی داعش کو حمایت حاصل رہی ہے۔ اردگان ایک رجعتی آمر ہے جو ترک سماج کو بربریت اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دوسری طرف عوام کو دینے کے لیے اس کے پاس فرقہ واریت، انتشار، بے روزگاری اور مہنگائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بڑھتے ہوئے جبر کو ترکی کے عوام زیادہ دیر برداشت نہیں کریں گے۔ خطے میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں سے ترک عوام خود کو علیحدہ نہیں رکھ پائیں گے۔
ایران میں پچھلے دنوں ابھرنے والی عوامی تحریک نے اپنا اظہار جس بلند معیار پر کیا ہے اس سے نہ صرف ایرانی ملاں اشرافیہ لرز اٹھی ہے بلکہ خطے کے ہر آمر کو ا پنا گریبان سلگتا ہوا محسوس ہوا ہے۔ ایران میں وسیع ریاستی کرپشن موجود ہے۔ آبادی کا نصف حصہ غربت کی لکیر سے نیچے یا آس پاس زندگی گزار رہا ہے جن میں سے ایک کروڑ انتہائی درجے کی غربت میں ہیں۔ تیل کے علاوہ قدرتی گیس کے دنیا کے دوسرے بڑے ذخائر رکھنے کے باوجود بدانتظامی، کرپشن، عالمی معاشی پابندیوں اور سخت شیعہ مذہبی کنٹرول کے باعث ایران کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ 2015ء میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے اور پابندیوں میں نرمی کے بعد ایران کو اپنے تیل کی فروخت کے لیے مارکیٹ بڑھانے اور بیرونی سرمایہ کاری کا موقع ملا لیکن امریکہ کی طرف سے دوبارہ معاہدے کی منسوخی اور پابندیوں کے سخت ہونے سے ایران کی معیشت پھر سے مشکلات میں گھر جائے گی۔ ایران کی معیشت کے فیصلہ کن حصوں پر فوج ( پاسدارانِ انقلاب) اور شیعہ مذہبی پیشواؤں کے قبضے ہیں۔ حسن روحانی، جو دوسری مرتبہ ایران کا صدر منتخب ہوا ہے، نے معاشی اصلاحات کی کوشش کی لیکن سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کی رجعتی پالیسیوں اور شیعہ اشرافیہ کی کرپشن کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ آسکر ایوارڈ پانے والے ڈائریکٹر اصغر فریدی کا کہنا ہے کہ شرمناک بات یہ ہے کہ بے گھر افراد تہران شہر کے قریب قبرستان میں کھدی ہوئی قبروں میں راتیں گزارتے ہیں۔ ایرانی ملاں اشرافیہ نہ صرف بے نقاب ہوچکی ہے بلکہ سلگتے ہوئے آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھی ہے۔ بے روزگاری، افراط زر، کرپشن اور دوسرے ممالک میں مہنگی مداخلتوں کے خلاف 28 دسمبر 2017ء کو مشہد سے شروع ہونے والے مظاہرے بہت جلد پورے ملک میں پھیل گئے اور عوامی نعرے معاشی سے سیاسی ہوتے چلے گئے۔ مظاہرین ’’مرگ بر آمر‘‘کے نعرے لگاتے رہے اور سکیورٹی اہلکاروں کو شمولیت کی دعوت بھی دیتے رہے۔ یہ خلفشار وقتی ٹھہراؤ کے بعد ایک بار پھر سے بلند پیمانے پر پھٹ سکتا ہے۔
اسرائیل دنیا کی 34ویں بڑی معیشت اور مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ 2016ء میں رہائشی قیمتوں میں اضافے کے بعد سے اسرائیل رہائش کے لیے دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں سب سے آگے ہے۔ بے روزگاری کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرپشن کے خلاف لوگوں میں بے چینی ہے۔ 12 فروری کو مختلف شہروں سے تل ابیب کے روتھ چائلڈ سکوائر میں جمع ہزاروں اسرائیلیوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو اور اس کے قریبی ساتھیوں کی کرپشن کے خلاف مظاہرہ کیا۔ نیتن یاہو کے خلاف پہلے سے ہی سات مختلف کیس رجسٹرڈ ہیں۔ نومبر 2017ء میں تل ابیب میں اقلیتی حقوق کے لیڈروں نے بیلفورڈ اعلامیے کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر برطانیہ کے سفارتخانے کے باہر ایک مظاہرہ منعقد کیا۔ بیلفورڈ اعلامیے نے اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی تھی جس میں 100 سال پہلے برطانیہ نے فلسطینیوں سے یہودیوں کو بسانے اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کی درخواست کی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی حمایت کے خلاف فلسطین میں آباد یہودیوں نے بھی احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام مظلوموں اور محکوموں کے لئے ایک اذیت کے سوا کچھ نہیں۔ محکوم عوام کا ایک ہی انقلابی ریلہ مشرق وسطیٰ کے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یہاں کی تمام ریاستیں جبر کے سہارے اپنی حاکمیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کی آواز ان کے گلے میں ہی گھونٹنے کا حربہ آزمانے میں مکمل آزاد ہونے کے باوجود یہاں کے حکمران شاید اتنا کسی سے نہیں ڈرتے جتنا ایک عوامی سرکشی سے ڈرتے ہیں۔ انہی ریتلے میدانوں اور سنگلاخ ٹیلوں کے دامن سے چیختی ہوئی خاموشی کا شور انہیں ڈراتا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ان حکمرانوں کی ساری عیاشیوں اور استحصال کا خاتمہ کر کے یہاں کے عوام کو یکجا اور خوشحال کر سکتا ہے اور محکوم قوموں کو آزادی کی نوید سنا سکتا ہے۔