نیپال: ’کمیونسٹ‘ حکومت کا امتحان
نیپال کی کمزور اور بوسیدہ سرمایہ داری میں اس طرح کی اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں ہے جس سے محنت کشوں اور محکوم عوام کی زندگی میں بہتری آئے۔
نیپال کی کمزور اور بوسیدہ سرمایہ داری میں اس طرح کی اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں ہے جس سے محنت کشوں اور محکوم عوام کی زندگی میں بہتری آئے۔
اس سامراجی جارحیت اور بنیاد پرستانہ دہشت نے یہاں کے عوام کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کا صفایا کرنے کی ہر کوئی کم از کم بات کرتا ہے۔ لیکن پھر اس بدعنوان سیاست اور حاکمیت میں ان کو ایسی قوتوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے جنکے صفائے کی بات کی جاتی ہے۔
مغرب کی ’’جمہوری‘‘ ہیروئین کی حاکمیت میں یہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ ایک پوری اقلیت کا صفایا کرنے کی درندگی جاری ہے۔
یہ انتفادۂ کشمیر کانفرنس کشمیر کی جدوجہد آزادی کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ مہنگی تعلیم، غربت اور بیروزگاری سے بدحال نوجوانوں کو پورے برصغیر میں اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
اگر امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو مکمل مطیع نہیں کر سکتا تو پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے بھی چین کی تمام تر سرمایہ کاری اور سرپرستی کے باوجود امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتے۔
آج بھارتی میڈیا نریندر مودی کو بے مثال، باہوبلی، ان داتا، بھگوان کا اوتارجیسی صفات سے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
گزشتہ ستر برسوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک سے یہی سبق ملتا ہے کہ اس جدوجہد کو انقلابی پیمانے پر طبقاتی جڑت کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
بلکہ پہلے سے دست و گریباں ’قومی اتحادی حکومت‘ کی صفوں میں مزید چپقلش بڑھے گی، کیونکہ اب اس لوٹ مار کے بازار میں ایک اور حصہ دار کا اضافہ ہوا ہے۔
مغربی سامراجوں اور علاقائی ریاستوں کی مداخلت سے افغانستان کی دلدل مزید پیچیدہ اور گہری ہو گئی ہے۔
بہت سی عیسائی، یہودی اور اسلامی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جو عوام کے ان نازک عقائد کو استعمال کرکے اپنی اشتہاری اور منافع خوری کی مہم تیز کرسکیں۔
یہی یکجہتی جب طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کو اکٹھا کرکے تاریخ کے میدان میں اتارے گی تو پورے جنوب ایشیا کا سیاسی و سماجی منظر بد ل جائے گا۔
طلبا کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اور بھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اپنی تمام تر خامیوں اور اندرونی تنظیمی مسائل اور جھگڑوں کے باوجود یہ انقلاب سماج کے لیے آگے کی جانب ایک عظیم قدم تھا۔