افغانستان: جان لیوا ’گریٹ گیم‘

تحریر: لال خان

منگل 17 اکتوبر کو عمان میں افغانستان سے متعلق ایک اور بے نتیجہ چار ملکی اجلاس کے خاتمے کے ایک دن بعد پکتیا صوبے کے دارالحکومت گردیز میں دو دہشت گرد حملوں میں 71 افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دسمبر 2014ء میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی فوج اور پولیس طالبان کے ساتھ براہ راست نبرد آزما ہے، جس میں اسے ہولناک حد تک بھاری جانی نقصانات ہوئے ہیں۔ اس کی صفوں میں کرپشن اور بھگوڑا پن عام ہے۔
افغانستان میں بربادیوں اور عدم استحکام کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے کو برباد کررہے ہیں۔ اس سامراجی جارحیت اور بنیاد پرستانہ دہشت نے یہاں کے عوام کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ نیٹا کرافورڈ کی کتاب ’The Human Cost of Afghanistan’s War‘ کے مطابق جنگ سے وابستہ مختلف وجوہات سے مرنے والوں کی تعداد 360,000 تک ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو پاکستان میں اس خونی جنگ کے انتشار کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس قتل و غارت اور بربادی کی ہولناکی کا یہ عالم ہے کہ شمالی کابل میں سرائے شمالی کے بازار میں سب سے منافع بخش کاروبار کفن کی دکانوں کا ہے۔
افغانستان کی بدقسمت سرزمین صدیوں سے سامراجی جنگوں اور نوآباد کاروں کے حملوں کا میدان جنگ بنی رہی ہے۔ ایک وقت میں افغانستان برطانوی سامراج اور روسی زار شاہی کی کشمکش کا مرکز تھا۔ افغانستان اور جنوبی و وسط ایشیائی خطوں پر اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیے برطانوی اور روسی سلطنت کے درمیان اس عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذ آرائی کو مؤرخین نے گریٹ گیم کا نام دیا تھا۔ 1901ء میں رڈیارڈ کپلنگ کے ناول ’کیم‘ نے اس اصطلاح کو شہرت دی۔ روسی بادشاہت وسط ایشیا میں برطانیہ کی ریشہ دوانیوں سے پریشان تھی اور برطانوی سامراج اس بات سے خوفزدہ تھا کہ روس ہندوستان (جسے برطانیہ اپنی سلطنت کے تاج کا ہیرا کہتا تھا) کو اپنی وسیع سلطنت میں شامل کرلے گا۔ اس سے بداعتمادی کی ایک ایسی فضا قائم ہوئی جس میں دونوں کے درمیان ہمیشہ جنگ کا خطرہ رہتا تھا۔
اس خونی گریٹ گیم کا آغاز 12 جنوری 1830ء کو اس وقت ہوا جب بورڈ آف کنٹرول آف انڈیا کے صدر لارڈ ایلن بورو نے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ویلیم بینٹنک کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ امارات بخارا کے لیے نیا تجارتی راستہ بنائے۔ برطانیہ افغانستان پر قبضہ کر کے اسے اپنے ’پروٹیکٹوریٹ‘ میں تبدیل کرنا چاہتا تھا اور سلطنت عثمانیہ، سلطنت فارس، خانان خوارزم اور امارات بخارا کو دونوں سلطنتوں کے بیچ بفر زون کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ روس کو خلیج فارس اور بحر ہند میں بندرگاہ بنانے سے روک کر ہندوستان اور برطانیہ کے اہم سمندری راستوں کو تحفظ فراہم کیا جانا تھا۔ روسی زار شاہی نے افغانستان کو ایک نیوٹرل زون بنانے کی تجویز دی۔ نتیجے میں 1838ء کی پہلی اینگلو افغان جنگ، 1845ء کی اینگلو سکھ جنگ، 1848ء کی اینگلو سکھ جنگ، 1878ء کی دوسری اینگلو افغان جنگ ہوئی اور خوارزم، بخارا اور خوقند پر روس کا قبضہ ہوا۔ گریٹ گیم 10 ستمبر 1895ء کو اس وقت ختم ہوئی جب افغانستان اور روسی سلطنت کے درمیان پامیر باؤنڈری کمیشن پر دستخط ہوئے، جس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کا تعین کیا گیا۔ لیکن اپریل 1978ء میں افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کے بعد جب سی آئی اے نے اسلامی انتہاپسندی اور منشیات کی تجارت کے ذریعے ڈالر جہاد کا آغاز کیا تو ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز ہوا۔ چالیس سال بعد آج اس گریٹ گیم میں صرف روس نہیں بلکہ بہت سی عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتیں افغانستان میں بربادی پھیلا رہی ہیں۔
2001ء کے بعد سے متعدد سفارتی اقدامات اور مذاکرات ہوئے لیکن سب ناکام رہے۔ حالیہ ’امن مذاکرات‘ میں امریکہ، پاکستان، چین اور افغانستان شامل ہیں اور اس دوران ہی پاک افغان سرحد پر ڈرون حملوں کی بارش ہوئی ہے۔ مسقط میں حالیہ امن اجلاس ناکام ہوتا نظر آتا ہے۔ نام نہاد طالبان نے مسقط کے مذاکرات کا بائیکاٹ کیا۔ امریکہ نے با دل ناخواستہ اپنے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ایلس ویلز کو بھیجا۔ پاکستان اور افغانستان کے ایلچیوں کو بات چیت سے پہلے ہی اس عمل سے کوئی امید نہیں تھی۔ چین اپنے پاکستانی سہولت کاروں کے ذریعے ہی شریک ہوا۔
اس گورکھ دھندے میں سیاسی اور جیو اسٹریٹجک مفادات اور وسائل کی لوٹ کے لیے سامراجی سرمایہ کاری جتنی بڑھی ہے اتنے ہی طالبان کے نئے نئے گروہ بنے ہیں۔ ان کی کوئی یکجا شکل نہیں ہے۔ جمی کارٹر اور ریگن کے دور میں ’’مجاہدین‘‘ سے لے کر 1990ء کی دہائی میں جارج بش اور بل کلنٹن کے دور میں طالبان تک، بے شمار ایسے دہشت گرد گروہ تھے جو اکثر اوقات آپس میں متحارب ہوتے تھے۔ اس بات کے اب دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ 1996ء میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رابرٹ اوکلے نے ملا عمر کی قیادت میں طالبان کوکابل پر قبضہ کرنے میں مدد دی۔ امریکی حمایت اور مالی امداد کے بغیر یہ ناممکن تھا۔ یہاں بھی پاکستانی ریاست کو ایک سہولت کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
امریکہ کی افغان پالیسی مکمل شکست سے دوچار ہوچکی ہے اور اب وہ پاکستانی ریاست کو دھمکا رہے ہیں کہ وہ اپنی افغان پالیسی ترک کرے۔ اگرچہ شاطر چینی سامراج عسکری طور پر مداخلت کرنے سے کترا رہا ہے لیکن انہوں نے کاپر، تیل، گیس اور دوسرے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ طالبان کے کئی بااثر گروہ چین کے قابو میں ہیں۔ چینی پشت پناہی سے ہی پاکستانی ریاست کے کچھ حصے امریکی دھمکیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ لیکن اب ٹرمپ نے پاکستان پر شدید دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اپنی پراکسیوں کو لگام دے۔ تاہم اس کا نتیجہ پچھلے سولہ سالوں کی پالیسیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ ریاست کے اندر ریاست اپنی دوغلی پالیسی جاری رکھے گی۔
ولادیمیر پیوٹن، جو اپنے آپ کو زار سمجھتا ہے، اس نئی گریٹ گیم میں مداخلت بڑھا رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں روس کی مافیائی سرمایہ دارانہ ریاست نے افغانستان میں طالبان کی مالی امداد میں اضافہ کیا ہے۔ طالبان کے ایک اہلکار نے حال ہی میں دی ٹائمز (لندن) کو بتایا کہ فیول سپلائی سکیم سے طالبان کو ماہانہ 2.5 ملین ڈالر ملتے ہیں، جو طالبان کی فنڈنگ کرنے کے روس کے کئی طریقوں میں سے ایک ہے۔ دی ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ اس نوجوان اہلکار نے ’’کوئٹہ شوریٰ کے ایک سینئر ایڈوائزر کی طرف سے انٹرویو دینے پر رضامندی کا اظہار کیا‘‘ اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ سینئر ایڈوائزر سنگین سے تعلق رکھنے والا ایک ماہر بم ساز تھا جو گروپ میں سیاسی عہدہ لینے سے پہلے اتحادی اور افغان افواج کے خلاف متعدد حملوں میں شامل تھا۔
بھارتی ریاست کی مداخلت مزید تنازعوں کو ہوا دے رہی ہے۔ اپنے کاروباری مفادات کے علاوہ بھارتی ریاست یہاں پاکستانی ریاست کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کی حمایت سے پاکستان کا ردعمل زیادہ دھماکہ خیز ہوگا۔ تاہم امریکی انتظامیہ نے حالات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں تاکہ ’پاکستان کو ایک اور موقع‘ دیا جائے۔ یورپی مداخلت کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی شدید پراکسی جنگ چل رہی ہے۔ افغانستان کے اس منظرنامے میں اتنے اسٹیک ہولڈرز کی موجودگی میں نہ تو جنگ اور نہ مذاکراتی عمل کے ذریعے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
برٹش انڈیا کے فارن سیکرٹری مورٹیمر ڈیورنڈ نے 1893ء میں ڈیورنڈ لائن کھینچی تھی، جس نے سرحد کے دونوں اطراف کے عوام کو تقسیم کر دیا۔ اس جنگ میں سرحد کے دونوں اطراف کے محکوم طبقات ہی دربدر ہوئے ہیں۔ دونوں طرف اس جنگ نے پشتون اور بلوچ عوام کے لئے صرف خونریزی، غربت اور محرومی پیدا کی ہے۔ اِس قدیم سرزمین اور تہذیب کی ان سامراجیوں اور بنیاد پرستوں کے ہاتھوں بربادی بہت تکلیف دہ ہے۔ یہاں جدوجہد اور مزاحمت کی ایک درخشاں ثقافت اور روایات بھی موجود ہیں۔ خطے کے محکوم عوام کو صرف طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر متحد کرکے ہی ان سامراجی اور مذہبی جنونی درندوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔