افغانستان: سامراجی طاقتوں کے اکھاڑے میں ’کابل کے قصاب‘ کے واپسی

تحریر: حسن جان

جمعرات 4 مئی کو ’کابل کے قصاب‘ کے نام سے شہرت پانے والے گلبدین حکمت یار (جسے کابل کے باسی ’راکٹ یار‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں) کا کابل کے صدارتی محل میں ایک سرکاری تقریب میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ موصوف بیس سال بعد افغان حکومت کے ساتھ پچھلے سال ستمبر میں ایک معاہدے کے نتیجے میں کابل میں اپنے مسلح حامیوں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں داخل ہوا۔ معاہدے کے تحت حکمت یار کے ماضی کے تمام جنگی جرائم، جو اس نے افغان عوام کے خلاف کیے تھے، کی عام معافی دی گئی اور جیلوں میں قید اس کے حامیوں کو رہا کردیا گیا۔ افغان حکومت، امریکہ اور خطے کے ممالک نے اس قدم کو افغانستان میں ’’امن‘‘ قائم کرنے کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ لیکن افغان عوام جانتے ہیں کہ کابل میں موجودہ ’قومی اتحاد کی حکومت (NUG)‘ میں شامل تمام لوگ بھی حکمت یار ہی کی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ جنگی جرائم اور قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔ اس لیے برسراقتدار لوگوں کی طرح کے ایک اور شخص یا افراد کے حکومت میں شامل ہونے سے قطعاً کوئی امن قائم نہیں ہوسکتا بلکہ پہلے سے دست و گریباں ’قومی اتحادی حکومت‘ کی صفوں میں مزید چپقلش بڑھے گی، کیونکہ اب اس لوٹ مار کے بازار میں ایک اور حصہ دار کا اضافہ ہوا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ افغانستان میں ایک نئی گریٹ گیم زیادہ متشدد شکل میں ملک میں معصوموں کی خونریزی کررہی ہے جس میں سامراجی ممالک کے متضاد معاشی اور سیاسی مفادات پراکسی جنگوں کی شکل اختیار کرکے افغان عوام پر قہر نازل کر رہے ہیں۔ ایسے میں امن اور خوشحالی ایک سراب اور ترقی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔

امریکی سامراج کی پشت پناہی سے حکمت یار بدترین جنگی جرائم میں ملوث رہا ہے۔

گلبدین حکمت یار اور اس کی حزب اسلامی اُن اولین ’مجاہدین‘ گروہوں میں سے ایک تھے جسے پاکستانی ریاست اور امریکی سامراج نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے افغانستان میں بھیجا تھا۔ اس دوران امریکی اور سعودی امداد کا سب سے بڑا حصہ حکمت یار کی حزب اسلامی کو ہی ملتاتھا۔ اپریل 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے استعفیٰ کے بعد مختلف مجاہدین گروہ کابل پر قبضے کے لیے آپس میں وحشیانہ طریقے سے لڑ پڑے۔ریاست پاکستان کا منصوبہ یہ تھا کہ حکمت یار کے ذریعے کابل پر قبضہ کیا جائے۔ اس نے جنوب کی جانب سے کابل پر پیش قدمی شروع کی لیکن دوسرے مجاہدین گروہوں، مثلاً ایرانی حمایت یافتہ حزب وحدت، سعودی حمایت یافتہ اتحاد اسلامی کے عبدالرسول سیاف، احمد شاہ مسعود، رشید دوستم وغیرہ کی مزاحمت کی وجہ سے وہ کابل میں داخل نہیں ہوسکا۔ اس ناکامی کے بعد گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی نے کابل پر بے دریغ راکٹ باری شروع کی۔ کابل پر ہزاروں راکٹوں کی بارش کی گئی اور شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ اسی وحشیانہ راکٹ باری کی وجہ سے اسے کابل کے لوگ آج تک ’راکٹ یار‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ حکمت یار کی اس ناکامی کے بعدہی پاکستانی حکمرانوں نے طالبان کی تخلیق کی۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد گلبدین حکمت یار ایران فرار ہوا اور 2002ء تک وہیں خامنہ ای کی ’پناہ‘ میں رہا۔
حکمت یار اور افغان حکومت کے درمیان موجودہ معاہدہ 29 ستمبر 2016ء کو طے پایا تھا جس کے تحت حکمت یار نے افغانستان کے آئین کو ’تسلیم‘ کرتے ہوئے مسلح کاروائیاں ختم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا وعدہ کیا اور اس کے بدلے میں اشرف غنی کی حکومت نے اس کے ماضی کے تمام جرائم معاف کردیئے اور جیلوں میں قید حزب اسلامی کے جنگجوؤں کو رہا کرنے اور اس کے کارکنوں کو افغانستان کی فوج میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ نے بھی افغان حکومت کی درخواست پر حکمت یار کا نام اپنی پابندی کی فہرست سے نکال دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ موجودہ تنازعے میں حزب اسلامی کا کردار انتہائی کم ہوگیا ہے۔ ماضی کی نسبت اس کی مسلح کاروائیاں بھی معدوم ہوچکی ہیں اور اس کی جگہ طالبان اور ان سے منسلک دوسرے گروہوں نے لے لی ہے۔ اس کے علاوہ حزب اسلامی سے منسلک بہت سے لوگ پہلے سے ہی حکومت میں مختلف عہدوں پر براجمان ہیں۔ 2001ء کے بعد بننے والے سیٹ اپ میں حزب اسلامی کی اکثریت مختلف حکومتی عہدوں سے مختلف اوقات میں مستفید ہوتی رہی ہے۔ ان میں حزب کے سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔ مثلاً وحید اللہ سباون، حامد کرزئی کی کابینہ کا حصہ رہا۔ اسی طرح خالد فاروقی اور عبدالہادی ارغندیوال بھی نئے ریاستی سیٹ اپ کا حصہ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض تجزیہ نگار اس معاہدے کو حزب اسلامی اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ گلبدین حکمت یار کی ذات اور حکومت کے بیچ معاہدہ قرار دے رہے ہیں۔
اس لیے اس صورت حال میں اس معاہدے سے امن تو قائم نہیں ہوسکتا لیکن اس سے اشرف غنی نے اپنی بحران زدہ اور باہمی چپقلش کی زد میں آئی حکومت کو سہارا دینے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔ تاہم اس کا یہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ بلکہ حکومت کا بحران مزید تیز ہوگا کیونکہ حکمت یار کو ’ایڈجسٹ‘ کرنے کے لیے حکومت میں مزید اکھاڑ پچھاڑ کرنی ہوگی جس سے انتشار مزید بڑھے گا۔ پہلے ہی چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ دوسری طرف نائب صدر رشید دوستم کو حکومت گرفتار کرنے کے درپے ہے۔سیاسی مخالفین پر انسانیت سوز مظالم ڈھالنے والے رشید دوستم کو ترکی جلاوطن کرنے کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے اور اس تمام بحران کو نسلی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اول تو یہ نام نہاد معاہدہ ہی سراسر منافقت پر مبنی ہے۔ حکومت میں شامل تمام جماعتوں اور وار لارڈز نے ماضی میں ان تمام جرائم کا ارتکاب کیا ہے جو حکمت یار اور حزب اسلامی نے کئے اور جسے اب ’معافی‘ دے دی گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کے خلاف خونریز لڑائیاں لڑی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیشتر نے 2001ء میں امریکی حملے کے وقت اس کا ساتھ دیا اور اس کے بدلے میں ان کے سارے گناہ دھل گئے جبکہ حکمت یار کو یہ موقع آج ملا ہے۔
لیکن افغانستان میں امن اور خوشحالی لانے کا عمل اتنا بھی سادہ نہیں کہ ایک شخص کے آنے سے یہ قائم ہوجائے کیونکہ زیادہ تر مسئلوں کی جڑیں افغانستان کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر ہیں۔ اس بات کا ادراک صدر اشرف غنی کو بھی ہے۔ تبھی تو اس نے جرمنی کے شہر میونخ میں 19 فروری کو سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’افغانستان میں جاری جنگ خانہ جنگی نہیں۔ یہ منشیات کی جنگ ہے، یہ دہشت گردی کی جنگ ہے اور یہ ریاستوں کے مابین غیر اعلانیہ (پراکسی) جنگ ہے۔‘‘ انیسویں صدی کی گریٹ گیم میں تو صرف برطانوی سامراج اور زارِ روس افغانستان میں اثرورسوخ کے لیے لڑ رہے تھے لیکن آج صورت حال اس سے کئی زیادہ پیچیدہ اور پر انتشار ہے۔ متضاد معاشی اور سیاسی مفادات رکھنے والی ریاستیں اپنی اپنی پراکسیوں کے ذریعے افغانستان میں اپنا اُلو سیدھا کر رہی ہیں۔ منشیات، کالے دھن، دہشت گردی اور ریاستوں کی اس باہمی لڑائیوں میں وفاداریاں تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

’تذویراتی گہرائی‘
پاکستان کے حکمران طبقات سماج کو ترقی دینے اور ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست تعمیر کرنے میں اپنی تاریخی نااہلی کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی ایک احساسِ عدم تحفظ اور خوف (Paranoia) کا شکار رہے ہیں۔ تاریخی طور پر صدیوں سے یکجا قومیتوں کو ریڈکلف لائن اور ڈیورنڈ لائن کے ذریعے چیر کر برطانوی سامراج نے جو دو نئی ریاستیں تخلیق کیں وہ درکار معاشی اور مادی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے کبھی بھی جدید قومی ریاستیں نہ بن سکیں۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں پشتون رہتے ہیں لیکن ستر سال گزرنے کے بعد بھی دو الگ ریاستیں ہونے کے باوجود ان کے تاریخی رشتے کو یہ لکیر توڑ سکی نہ توڑسکتی ہے ۔ دونوں اطراف کے عوام اس لکیر کو مصنوعی تصور کرتے ہیں۔
مشرقی سرحد پر ہندوستان اور مغرب میں افغانستان کی یہ صورت حال پاکستانی حکمران طبقات کے اس تاریخی عدم تحفظ کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ اسی وجہ سے افغانستان کی طرف ان کا جارحانہ رویہ پاکستان کے وجود کے دن سے ہی جاری ہے تاکہ افغانستان کو ایک ایسی نحیف اور گماشتہ ریاست میں تبدیل کیا جا سکے جسے ہندوستان کے پاکستان پر حملے کی صورت میں ایک اسٹریٹجک پسپائی کے ٹھکانے کے طور پر استعمال کیا جا سکے، جسے حرف عام میں ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ یا تزویراتی گہرائی کہا جاتا ہے ۔ یہ پالیسی ایک تاریخی مسئلہ ہے۔ مختلف آمرانہ اور جمہوری حکومتیں آتی اور جاتی رہی ہیں لیکن یہ تبدیل نہیں ہوئی کیونکہ حکمرانوں کی پالیسیوں کا تعین آخری تجزئیے میں وہ ریاستیں ہی کرتی ہیں جن میں وہ برسراقتدار آتے ہیں۔
افغانستان میں بنیاد پرست پراکسیوں کی حمایت اور امداد ثور انقلاب اور بعد میں سوویت یونین کی مداخلت کے دنوں سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ گلبدین حکمت یار کو دراصل اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہی افغانستان میں اپنی پراکسی کے طور پر بھیجا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جہاں افغان صدر داؤد خان پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور پشتون قوم پرستوں کی حمایت کررہا تھا وہیں پاکستان اپنی پراکسیوں کے ذریعے افغانستان کے اس دباؤ کو کم کرنے اور افغان حکومت کو ڈیورنڈ لائن کے مسئلے سے پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد اور بعد میں طالبان کی تخلیق میں انہی پالیسیوں کا عمل دخل تھا لیکن اب اس نے ایک سامراجی شکل اختیار کرلی تھی جسے اُس امریکی سامراج کی مکمل امداد اور حمایت حاصل تھی جو آج دنیا بھر میں ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ جنگ کے نام پر دہشت گردی کرتا پھر رہا ہے۔ بعد ازاں پاکستانی ریاست کی حمایت اور عسکری کمک کے ذریعے ہی طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کیا۔

ایران
2001ء کے اواخر میں جب امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس برباد اور تباہ ملک میں تعمیر نو کے نام پر پراکسی جنگوں کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا۔ نئی ریاستوں کے مداخلت کے لیے راستہ کھل گیا۔ 2001ء سے پہلے ایران اور طالبان مزار شریف میں ایرانی سفارتکاروں کے طالبان کے ہاتھوں قتل کے بعد جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ امریکی حملے کے وقت ایران نے طالبان حکومت کو گرانے کے لیے امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد نئی افغان حکومت کی تشکیل کے لیے بون کانفرنس منعقد کرانے میں بھی ایران نے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا جس میں ایران کا موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف پیش پیش تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب امریکہ اور ایران کے درمیان تضادات ابھرے تو ایران نے اپنے نام نہاد ’دشمن‘ یعنی طالبان کے ساتھ رابطے استوار کیے۔ وال سٹریٹ جرنل، دی گارڈین اور کابل میں امریکی سفارت خانے کی رپورٹوں کے مطابق ایران نے طالبان کے لیے اپنی مالی اور عسکری حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ ایران میں طالبان کے جنگجوؤں کو تربیت دی جاتی ہے اور حتیٰ کہ ایران کے شہروں زاہدان اور مشہد میں طالبان کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ ایران کی جانب سے طالبان کی حمایت یا اس کے بعض گروپوں کی حمایت کی وجہ افغانستان کی کمزور اور نحیف مرکزی حکومت اور افغانستان کی پرانتشار صورت حال میں مستقبل کے لیے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ایران افغانستان میں انفراسٹرکچر، سیاسی تنظیموں اور میڈیا ہاؤسز پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی غیرمستحکم کیفیت میں اس تمام سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے ریاست یا کسی مسلح گروہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلے سال مارچ 2016ء میں طالبان کا امیر ملا اختر منصور ایران سے واپسی پر پاک ایران بارڈر کے نزدیک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس واقعے نے ایران اور طالبان کے درمیان رابطوں اور اتحاد کی رپورٹوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں قندھار میں ایک خودکش حملے میں متحدہ عرب امارات کے سفیر سمیت اس کے کئی سفارت کار ہلاک ہوئے۔ بعض رپورٹیں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ اس حملے کو طالبان کے کسی گروہ نے ایران کی ایما پر انجام دیا ہے۔ عام طور پر تاثر یہ ہے کہ ایران کی طالبان کی حمایت اور تعاون صرف مغربی افغانستان تک محدود ہے لیکن حالیہ دنوں میں افغان حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ ایک ایرانی وفد ہلمند صوبے میں طالبان کمانڈروں سے ملنے گیا تھا۔ ہلمند صوبے کے گورنر حیات اللہ حیات نے 23 جنوری کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ ایرانی وفد نے طالبان کو اسلحہ اور عسکری سازوسامان بھی فراہم کیا۔ اس ملاقات کا وقت بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کیونکہ اسی دوران ہی طالبان نے ہلمند صوبے کے ضلع سنگین پر قبضہ کیا۔ طالبان کے علاوہ بھی ایران کے سابقہ شمالی اتحاد میں شامل تاجک اور ہزارہ وار لارڈز کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔

روس
اس کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایران اور روس کے درمیان داعش کے خلاف اتحاد کی جھلک ہمیں افغانستان میں بھی نظر آتی ہے۔ روس افغانستان میں داعش کو کچلنے کے لیے طالبان کو ’کمتر‘ برائی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں (جو روایتی طور پر روس کے حلقہ اثر میں شمار کی جاتی ہیں) میں افغانستان سے داعش کے جنگجوؤں کی مداخلت اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھی روس نے طالبان سے رابطے استوار کیے ہیں۔ سب سے بڑھ کر امریکی فوج کی شکست اور اس کے انخلا کے نتیجے میں اب روس افغانستان میں اپنے سامراجی کردار کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سپہ سالار جنرل جان نکولسن کے مطابق روس طالبان کو اسلحہ اور دوسرا عسکری سازوسامان فراہم کر رہا ہے ۔ جنرل کے مطابق روسی کی جانب سے طالبان کی حمایت ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا کررہی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ روس طالبان کی حمایت کرکے اسے قانونی جواز فراہم کر رہا ہے۔ روس نے بھی طالبان کے ساتھ اپنے رابطوں کی تصدیق کی ہے لیکن اسے صرف معلومات کے تبادلے تک محدود قرار دیا ہے۔

بھارت
اسی طرح افغانستان کی اس پرانتشار اور پیچیدہ صورت حال میں ہندوستان بھی اپنی جگہ بنارہا ہے۔ روایتی طور پر ہندوستان کے تعلقات سابقہ شمالی اتحاد کے ساتھ رہے ہیں۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہندوستان نے تعمیر نو اور امداد کے نام پر اپنی مداخلت میں اضافہ کیا۔ اشرف غنی جب 2014ء کے اواخر میں اقتدار میں آیا تو شروع شروع میں اس کا جھکاؤ پاکستان کی طرف تھا اور اسلام آباد کا دورہ بھی کیا۔ لیکن ایک سال بعد ہی اس نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی لائی۔ پچھلے سال ہندوستان نے افغانستان کو چار Mi-25 ہیلی کاپٹر فراہم کیے اور افغان ایئر فورس کے لڑاکا جہازوں کی مرمت اور دوسری عسکری امداد بھی بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے علاوہ ہندوستان نے نمروز صوبے میں 218 کلومیٹر زرنج دلارام ہائی وے تعمیر کی ہے جو فرح صوبے کے شہر دلارام کو ایرانی سرحد کے قریب شہر زرنج کے ساتھ جوڑتی ہے اور آگے جا کر ایران کے شہر زابل سے ملتی ہے۔ وہاں سے مختلف سڑکوں کے ذریعے یہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے ملتی ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ پر ہندوستان پہلے ہی ایک معاہدے کے تحت 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ راستہ جہاں ہندوستان کو وسطی ایشیا کے ساتھ جوڑتا ہے وہیں یہ افغانستان کو پاکستان سے گزرے بغیرایران کے ذریعے ہندوستان سے جوڑتا ہے۔اسی وجہ سے اس ہائی وے کی تعمیر کے دوران 135 افراد مختلف حملوں کے دوران ہلاک ہوئے۔ یہ حملے افغانستان کے اندر کارفرما دوسری سامراجی قوتوں کی موجودگی اور ان کو ان منصوبوں سے پہنچنے والی زک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن اس نام نہاد تعمیر نو اور امدادی کاموں سے افغانستان کے محکوم عوام کی زندگیوں میں بدلاؤ کم اور بربادیاں زیادہ آرہی ہیں کیونکہ اس سے پراکسی جنگیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ کابل میں ہندوستان کے سفارت خانے، جلال آباد اور مزارشریف میں قونصلیٹ پر حملے انہیں پراکسی جنگوں کا شاخسانہ ہیں۔

چین
امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر اور افغانستان کی وزارت معدنیات کے مطابق ملک میں تین ٹریلین ڈالر کی معدنیات موجود ہیں۔ ایسے میں حریص چینی سرمایہ دار ان ذخائر کی لوٹ مار سے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ چین کے یارانے بھی اسی لوٹ مار کا تسلسل ہیں۔ طالبان گروہوں کے چین دورے اب ایک معمول بن چکے ہیں۔پہلے ہی چین نے 2008ء میں افغانستان کے صوبے لوگر میں واقع کاپر کے ذخائر کے لیے تین ارب ڈالر کی لیز حاصل کی ہے۔ چین کی افغانستان میں ’امن‘ کی خواہش بھی اسی وجہ سے ہے۔ اِس نظام کے تحت افغانستان کا جغرافیائی محل وقوع اور اب اس کے معدنی ذخائر اس کے عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ کریں گے۔

امریکی سامراج کا تذبذب
لیکن سوال یہ ہے کہ جب امریکی سامراج اور اس کے نیٹو اتحادی پندرہ سال تک اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ بھی افغانستان میں شکست کھا کر بھاگ گئے اور ایک پرانتشار اور غیر مستحکم افغانستان اپنے پیچھے چھوڑ گئے تو ایسے میں خطے کے سارے ممالک اپنے اپنے متضاد معاشی اور سیاسی مفادات کے ساتھ افغانستان میں کیسا استحکام لا سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ اور نئی امریکی انتظامیہ تو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ انہوں نے افغانستان میں اب مزید کرنا کیا ہے؟ وہ کوئی فیصلہ بھی نہیں کر پا رہے۔ ٹرمپ افغانستان میں جنرل نکولسن کی تجویز پر تین سے چار ہزار مزید فوج بھیجنے کے بارے میں سوچ رہا ہے جو جنرل کے مطابق طالبان اور اتحادی افواج کے درمیان ’’تعطل‘‘ (Stalemate) کو ختم کرے گی ۔ اب یہ تو مستقبل میں ہی پتہ چلے گا کہ وہ یہ ’تعطل‘ جیت کر ختم کریں گے یا ہار کر۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ جب ایک لاکھ سے زائدامریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ امریکہ شکست کھا گیا تو اب محض تین یا پانچ ہزار فوج کے اضافے سے صرف اپنے بھونڈے پن اور تاریخی زوال پذیری کو آشکار کر رہا ہے۔

راہ نجات صرف انقلاب
آج افغانستان مختلف متحارب سامراجی ممالک کے درمیان پراکسی جنگوں کی وجہ سے برباد ہو رہا ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں کسی بھی طرح کے مذاکرات اور سیاسی معاہدے افغانستان میں امن اور خوشحالی نہیں لاسکتے اور نہ ہی کسی بھی طرح کی سامراجی سرمایہ کاری اور تعمیرنو کے منصوبے افغانوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ حکومت میں موجود وحشی وارلارڈز کے ہاتھ بھی معصوم افغان عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور ان کا کردار سامراجی ممالک کے کردار جتنا ہی گھناؤنا ہے۔ جس طرح امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کے ڈالر جہاد نے افغانستان کو برباد کردیا اور مزید پراکسی جنگیں اسے تاراج کر رہی ہیں، اسی طرح افغانستان کی نجات بھی ان ممالک کی ردانقلابی اور رجعتی مداخلت کے بند ہونے سے مشروط ہے۔ لیکن یہ مداخلتیں اس وقت تک بند نہیں ہوں گی جب تک ان ممالک اور سب سے بڑھ کر افغانستان کے اندر سرمایہ دارانہ ریاستیں موجود ہیں۔ اس لیے افغانستان کا مستقبل پاکستان اور ایران میں محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد اور انقلابی تحریک سے جڑا ہوا ہے۔

متعلقہ:

افغانستان: پراکسی جنگوں کا انتشار

افغانستان: سامراج، بنیاد پرستی اور منافقت