تحریر: لال خان
برصغیرکے حکمران طبقات نے بعدازبٹوارے کی تمام تاریخ میں کشمیرکے مسئلہ کوبڑی ہی بے دردی سے استعمال کیاہے۔ لیکن ہرچیزکی کوئی حد ہوتی ہے، مظلوم عوام کے ساتھ ہمیشہ ناٹک نہیں چل سکتا۔ کشمیریوں کے گن گا کر یہاں کی سفارتکاری نے کشمیریوں کو ہی سب سے زیادہ پامال اور رسوا کیا ہے۔ حالیہ تحریک جو تقریباً دس ماہ پہلے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اٹھی تھی وہ تھوڑے بہت عروج وزوال کے ساتھ چلتی رہی ہے اور پچھلے چند دنوں میں یہ تیزی سے بھڑک اٹھی ہے۔ بھارتی رجعتی ریاست کی قوتوں نے مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ بہت سے صحافت اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے اسکی کوریج کر کے شاید تھک گئے ہیں، لیکن کشمیری نوجوانوں اور محنت کشوں اور اب خواتین کی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ حقیقی تحریکیں اور اطاعت سے انکار اتنی شکتی اور جذبے بھی پیدا کرتی ہیں کہ نئی توانائی کے ساتھ یہ بغاوتیں پھر سے اُمڈ آتی ہیں۔ ماضی میں لائن آف کنٹرول کی جھڑپوں اور گولہ باری سے ہونے والی ہلاکتوں کو داخلی طور پر کشمیر میں تحریکوں کو زائل کرنے میں کسی حد تک بھارتی حکمرانوں کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ مودی سرکاری کو جس نئی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ یہی ہے کہ یہ جھڑپیں اور ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں مسخ کیے جانے والے پراپیگنڈے نے کشمیر کے عوام پر اثر انداز ہونا چھوڑ دیا ہے۔ یہ نسخہ اب ناکام و نامراد ہوچکا ہے۔ یہ بھارتی اور یہاں کے سرمایہ دارانہ حکمرانوں کے لیے ایک تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ کیونکہ ماضی میں اس بیرونی تصادم کے حربے سے جنم لینے والا قومی شاونزم اب ابھر ہی نہیں رہا ہے۔ بالادست طبقات نے ہمیشہ ہر خطے میں داخلی مزاحمتوں کو دبانے اور زائل کرنے کے لیے بیرونی جنگوں اور تنازعات کا فارمولا طویل عرصے سے جاری کیا ہوا تھا، یہ کم ا ز کم کشمیر میں ناکام ہوچکا ہے۔ کشمیر کی تحریک بار بار بھڑک اٹھتی ہے اور اس مرتبہ یہ واقعات ان کو دبانے کی بجائے ابھارنے کا باعث بنے ہیں۔
بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں (سی آر پی ایف) اور پولیس نے اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وسیع پیمانے پرکریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے، نوجوانوں کو سڑکوں پرگھسیٹا گیا اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، سنگبازی کے الزام میں ایک نوجوان کوبھارتی فوج کے ایک میجرکی گاڑی کے آگے باندھ کرسرینگرکی شاہراہوں پر یہ اعلانات کروائے گئے کہ پتھر مارنے والوں کے ساتھ آئندہ اس طرح کاسلوک کیاجائے گا۔ 16 اپریل 2017ء کوطلبا و طالبات کے احتجاج کی ایک نئی لہرنے اس وقت جنم لیا جب بھارتی فوج، پولیس اورنیم فوجی دستے گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ کے احاطہ میں چوکی قائم کرنے اور گرفتاریوں کی غرض سے داخل ہوئے۔ پانچ ہزار کے قریب طلبا و طالبات نے فورسز کے اس اقدام اوردرسگاہ کے تقدس کو پامال کئے جانے کیخلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کوبری طرح سے کچلنے کیلئے فورسزنے فائرنگ اورآنسو گیس کی شیلنگ کا سہارا لیا جبکہ طلبا و طالبات نے فورسز پر جوابی پتھراؤ شروع کر دیا۔ کئی گھنٹے تک نہ صرف کالج بلکہ پورا پلوامہ قصبہ میدان جنگ بنا رہا۔ کاروباراورٹرانسپورٹ کاسلسلہ معطل، نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ قابض افواج کی فائرنگ اورشیلنگ سے پچاس سے زائد طلبہ زخمی ہوئے جن میں اکثریت طالبات کی ہے۔
طلباکے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعدادمیں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اوربھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سرینگر، کلگام، پلوامہ اور بانہال کے علاقوں میں طلبہ نے تمام شاہراؤں کو ٹریفک کیلئے بندکر رکھا ہے جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ محبوبہ مفتی حکومت نے درسگاہوں میں تعطیلات کا اعلان کرتے ہوئے افواج سے مظالم روکنے کی بجائے والدین اور طلبہ سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی حکمرانوں نے وادی بھر میں انٹرنیٹ و موبائل سروس سمیت میڈیاکے دیگر ذرائع پر پابندیوں کے ایک نئے سلسلہ کابھی آغاز کردیا ہے جو تحریک کے دیگر علاقوں میں ممکنہ پھیلاؤ کے حکومتی خدشات کا اظہارہے۔
کشمیر کے عوام کی جانب سے یہ جرات اور دلیری کا نیا اظہار ظاہر کرتا ہے کہ شعورکس حدتک آگے بڑھ گیا ہے۔ حکمرانوں کی ان چالوں کو کشمیر کے محنت کش عوام خوب اچھی طرح بھانپ گئے ہیں۔ ماضی میں حکمرانوں کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی تھا کہ ریاستی و نجی میڈیا اور انٹیلی جینشیا کے ذریعے معصوم لوگوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انکو قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس سے عام کشمیری انکی حمایت میں کھل کر اپنا اظہارنہیں کر پاتے تھے لیکن اب تو ان ’’دہشت گردوں‘‘ کے جنازوں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہوتے ہیں، کھل کر انکی حمایت کرتے ہیں اور مذموم ریاستی دہشت گردی کی پر جوش اور جراتمندانہ مظاہروں اور احتجاجوں کے ذریعے مذمت کی جاتی ہے۔ اس میں خواتین اور خصوصی طو رپر طالبات سب سے ہراول کردار ادا کر رہی ہیں۔ بھارتی ریاست صرف تشدد بڑھا رہی ہے لیکن جتنا تشدد بڑھ رہاہے وہ بغاوت کوکچلنے کی بجائے اسکے شعلوں کومزیدبھڑکانے کاباعث بنتاہے۔ دوسری جانب اہم تبدیلی یہ بھی ہے کہ بیرونی مداخلت اور تخریب کار عناصر جن کو مختلف سامراجی ریاستی عزائم کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے وہ بھی ایک ابھری ہوئی آبادی اورتحریک کی اس حدت میں مداخلت کرنے میں ناکام ہونے لگے ہیں۔ تحریک کی جب اپنی شدت اتنی زیادہ ہو جائے تو پھر وہ مخصوص مفادات کے لیے سیاست کا آلہ کارنہیں بنتی بلکہ اپنی قومی، سماجی اور معاشی آزادی کے ایجنڈے کو اولین رکھتی ہے۔ ایسے میں تحریک اتنی جرات پکڑ جاتی ہے کہ ریاستی دہشت اس کی بغاوت کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ ا س کی ایک اہم وجہ نریندرا مودی کی نہ صرف مذہبی جنونیت کی پالیسیاں ہیں بلکہ اس ہندوتوا حکومت کا جارحانہ سرمایہ داری کا پروگرام بھی ہے جو امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو مزید غربت کی کھائی میں دھکیلنے کا موجب ہے۔ اس حاکمیت کے خلاف اتنی نفرت اور بغاوت کی بڑی وجہ صرف ان پر ہونے والا فوجی جبر ہی نہیں بلکہ اس نظام کے مزید تسلط سے انکی روزمرہ کی زندگیوں میں بنیادی ضروریات سے لے کر اجتماعی سہولیات کا چھن جانا ہے۔
مودی سرکار کے اس دنیا کی ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں سب سے رجعتی حاکمیت کے طور پر مسلط ہونے سے ظاہری طور پرنہ صرف بھارت بلکہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی ایسی ہی رجعتی قوتوں کو تقویت ملی ہے۔ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کی درندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ممالک کی مذہبی رجعت کی کالی قوتوں نے بھی فسطائیت پر مبنی قتل وغارت گری کو تیز کیا ہے لیکن کشمیر کی یہ تحریک نہ صرف کشمیر میں حکمرانوں کو منہ توڑ جواب د ے رہی ہے بلکہ بھارت اور برصغیر کے دوسرے خطوں میں بھی نوجوانوں اور محنت کشوں کو جدوجہد کرنے اورجراتمندانہ مزاحمت کے جذبوں سے سرشار کررہی ہے۔ آنے والے وقتوں میں جب پورے برصغیر کے محنت کش اور نوجوان ایسی تحریکوں میں اس نظام کے ظلم وبربریت کے خلاف ابھریں گے تو اس میں کشمیر کے نوجوانوں کی موجودہ جراتمندانہ مزاحمتی تحریک کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ یہی یکجہتی جب طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کو اکٹھا کرکے تاریخ کے میدان میں اتارے گی تو پورے جنوب ایشیا کا سیاسی و سماجی منظر بد ل جائے گا۔ انقلاب اور آزادی کا حصول ایک حقیقت کے روپ میں معاشرے کے سامنے واضح ہو کر آئے گا۔ کشمیر کے نوجوانوں کی ا س عظیم الشان بغاوت سے پورے برصغیر کے حکمران اور ان کے ایوان لرزاں ہیں۔ ان واقعات پر برصغیر کے کمیونسٹ شاعر جوش ملیح آبادی کے کچھ اشعار ذہن کے دریچوں میں گونجنے لگتے ہیں۔
جفا ئے تاج داری سے بہ تنگ آکربجنگ آکر
سزاؤں ذلتوں پابندیوں فاقوں سے گھبرا کر
بھڑکتے جذبہء ناموسِ انسانی کی شہ پا کر
چھچھورے حاکموں کی ناز برداری سے اُکتاکر
غرورِ آسماں کو جب زمیں نیچا دکھاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یا دآتی ہے
جو مظلوموں کی ٹوٹی ہڈیوں کوجوڑ دیتی ہے
جو عفریت حکومت کی کلائی موڑ دیتی ہے
جو شاہیں چشم فرعونوں کی آنکھیں پھوڑ دیتی ہے
جوقلعوں کو فقط ضربِ نظر سے توڑ دیتی ہے
کسی جاں باز میں جب وہ بغاوت کھڑکھڑاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے