عقائد کے کاروبار

تحریر: لال خان

تاریخ گواہ ہے کہ معاشرہ جس بھی اقتصادی اور سماجی نظام میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ا س نظام کے ان داتا اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے لیے اس کی ہر قدر، ثقافت، روایت، ریت ورواج اور یہاں تک کہ اس کے عقائد کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ فلمیں، ٹاک شوز، اشتہارات اور شہرت کی پبلسٹی کے تدریسی نصاب اور سماجی اخلاقیات سبھی اس حاکمیت میں اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں کہ معاشرے کے ہر شعبے میں سماجی نفسیات پر بالادست طبقات کی شخصیات، نظریات اور انکے نظام کے جواز کو مسلط کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ہوتاہے کہ عام انسانوں پر مبنی رعایا کو مطیع اور محکومی کو قبولیت میں محبوس کردیاجائے۔ لیکن تاریخ یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ ان تمام حربوں کے باوجود ان نفسیاتی بیڑیوں اور معاشرتی زنجیروں کو بار بار یہی محنت کش عام انسان توڑتے بھی ہیں اور نظاموں کوغلامی کے دور سے آج تک بدلتے بھی آئے ہیں۔ انسانی آزادی کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں ہمیں نہ صرف سیاست میں بلکہ دنیا کے بیشتر معاشروں اور ممالک میں مذہبی عقیدوں پر مبنی تصادموں اور استحصال کا ایک نیاسلسلہ ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن آخری تجزیے میں پتہ یہ چلتا ہے کہ ان نازک روحانی آسروں کو حکمران طبقات اپنی سفاک منافع خوری کے لیے استعمال زیادہ کرنے لگے ہیں۔
اسکی حالیہ مثال بھارت میں ملتی ہیں جبکہ نہ صرف سیاست میں نریندرا مودی اور جوگی ادیتیا ناتھ جیسے مذہبی پیشوا مذہبی جذبات کا استعمال کرکے طاقت پر براجمان ہوتے ہیں بلکہ بھارتی سرمایہ دار طبقے نے بھی ان عقیدوں کے استعمال سے لوٹ مار میں خوب اضافہ کیاہے۔ ایک ہندو سوامی اور جوگی صرف دوسے تین سالوں میں بھارت کے امیر ترین اشخاص میں شامل ہوگیا ہے۔ بابا رام دیو نے چا ر سال پیشتر مذہبی عقائد سے مطابقت رکھنے والی اشیا ئے صرف کی پیداوار کرنے والی کمپنی ’’پتن جلی‘‘ کے نام سے شروع کی تھی۔ اس قلیل عرصے میں اسکی سالانہ سیل ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی اور ’’پتن جلی‘‘ کا چیف ایگزیکٹو اب’’فوربز‘‘ لسٹ کے مطابق بھارت کے 100 امیرترین اشخاص میں شامل ہوتا ہے۔ اس کا تاریخی رنگ کا چغا، مخصوص ہندومت سٹائل کی داڑھی اور ہندو مت سے مماثلت رکھنے والی پیداواری اشیا کے نام اور اشتہاری نشانات کو اس نے درمیانے طبقے کی ہندومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی منڈی اور اشیا کی کھپت کے لیے بھرپور استعمال کیا ہے۔ ’’پتن جلی‘‘ کا مرکز بھارت کے ہندومذہبی مرکز ’ہر دوار‘ میں ہے جہاں بہت سے لوگ مذہبی یاترا اور سلامی کے لیے جاتے ہیں۔ ہمالیہ کی پہاڑیوں کی گود میں اس شہر میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا دفتر نہیں ہے اور ایک میٹرو پولیٹن شہر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کارپوریٹ اجارہ داری یہاں اپنا مرکزی دفتر قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن بابا رام دیو کی تو واردات ہی یہی ہے کہ ہر حوالے سے ایک مذہبی اساس ‘پیٹی بورژوا ہندو پرست پرتوں کی منڈی میں چاندی کا باعث بنے گی۔ اب تک وہ اس کھلواڑ میں کامیاب نظر آتا ہے۔ رام دیو مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو برطانوی سامراج کا برصغیر میں تسلط قائم کروانے والی ایسٹ انڈیا کمپنی سے مماثلت دیتا ہے۔ اسی سے اس کا مقصد قوم پرستی اور خصوصاً ہندو قوم پرستی کے جذبات ابھار کر مزید منڈی پر قبضہ کرنا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اس کی کمپنی کی بنائی ہوئی اشیا، مثلاً صابن میں گائے کا پیشاب شامل کیا جاتا ہے۔ جبکہ سرکاری ونجی میڈیا اور ہندو مت کی بی جے پی سمیت تمام پارٹیوں کے سیاست دان اب گائے کے پیشاب کو ہر بیماری کا علاج بنا کر بھی پیش کررہے ہیں۔ لیکن یہ بھی کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ’’پتن جلی‘‘ اور نریندرا مودی سرکار کا ابھار تقریباً اکٹھا ہی ہوا ہے۔ ا س سے محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کا حکمران طبقہ جس کے بارے میں سیکولر اور لبرل لیبل لگایا جاتا تھا، آج کتنا غیر سائنسی ہوچکا ہے۔ لیکن وہ اپنی مقبولیت کو صرف اس درمیانے طبقے کی سیاسی شعوری جہالت کے بلبوتے پر ہی قائم رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ محنت کش طبقے کی بار بار ابھرنے والی تحریکوں کو روایتی قیادتوں نے زائل کروایا ہے۔ سماج اور سیاست میں اس عارضی پسپائی سے حکمرانوں کی جہالت کھل کر ابھری ہے۔ اس سے بڑھ کر وہ لالچ ہے جس کے لیے یہ حکمران اتنی گری ہوئی ثقافت اور جمالیاتی حسیات کے معیار کی غلیظ ترین سطح تک گر سکتے ہیں۔ لیکن ’’پتن جلی‘‘ کو اس مذہبی جنون کے پھیلاؤ کے لیے مودی سرکاری سے سستی زمینیں، ٹیکسوں میں چھوٹ اور دوسری بہت سی ریاستی سہولیات اور مراعات ملی ہیں جن سے اس کے کاروبار میں اتنی تیز بڑھوتری ہوئی ہے۔ اس سے بڑھ کر مذہبی کاموں میں نیکی کمانے کے نام پر پتن جلی بہت سے ایسے ہندومزدور ملازم بھی رکھتی ہے جن کو انکے ثواب کے عوض دوسرے مزدوروں سے کم اجرت دی جاتی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بڑی اجارہ داریاں کے ایم بی اے اور دوسری اقتصادیات کی بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والے’’مارکیٹ گروؤں‘‘ سے یہ ہندو گرو بازی لے گئے ہیں اور زیادہ منڈی پر قبضہ کررہے ہیں۔
یہ عقائد کا کاروبار صرف بھارت میں پروان نہیں چڑھ رہا بلکہ ہر مذہبی، مسلکی عقیدے میں پھیل رہا ہے۔ بہت سی عیسائی، یہودی اور اسلامی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جو عوام کے ان نازک عقائد کو استعمال کرکے اپنی اشتہاری اور منافع خوری کی مہم تیز کرسکیں۔ اہم شہری جائیدادوں، زمینوں اور اعلیٰ مقامات پر قبضوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہوں کا ملوث ہونا اب عام ہے۔ اسرائیل، امریکہ اور یورپ میں ایسی یہودی کمپنیاں ہیں جو یہودیت کی مخصوص مذہبی ملاوٹ کے اشتہاری مہم چلاتی ہیں۔ ٹیلی وژن شوز سے لے کر بہت سے امریکی کارپوریٹ کمپنیوں میں عیسائی پجاری اور واعظ اپنے والے (ٹیلی وینجلسٹ) مذہبی قصیدوں اور دعاؤں کے ساتھ کمپنیوں کے منافعوں میں اضافوں کے لیے بے پناہ مالی مراعات کے ساتھ منسلک ہیں۔ اب تو صورتحال اتنی پیچیدہ ہو گئی ہے کہ کچھ مغربی اجارہ داریوں، جن میں ڈیبن ہیمز، ٹومی ہلفگر اور مینگو شامل ہیں، نے ’اسلامی مصنوعات‘ کی اپنے سٹوروں میں بھر مار کردی ہے۔ یہ کاروبار 300 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ ان مصنوعات سے ’حلال لپسٹک‘، ’ حلال پرفیوم‘ اور ’حلال میک اپ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ حالیہ لندن فیشن ویک میں اسلامی لباس کی محبت واک کروائی گئی جس میں ادھورے نقاب کے ساتھ نیل پالش اور میک اپ کے ساتھ ماڈلز نے کیٹ واک کی۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقات کیسے اپنی سیاسی اور ثقافتی حاکمیت کو عوام کے ان نازک جذبات، جو ان کے تخیل کردہ آسروں پر مبنی ہوتے ہیں، سے کھلواڑ کرتے ہیں، بلکہ اب بحرانی دور میں گرتے ہوئے منافعوں کو قائم رکھنے کے لیے مصنوعات کی فروخت اور کاروبار کے لیے بھی استعمال کرنے سے گزیر نہیں کرتے۔
درمیانہ طبقہ نفسیاتی طور پر حکمران طبقات کے ریت ورواج اور اقدار کی پیروی کرتا ہے اور پھر انکو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہی طبقہ حکمرانوں کے ان رواجوں اور ثقافتوں کو پورے معاشرے پر مسلط بھی کرواتا ہے۔ عام محنت کش تو یہ مصنوعات خرید نہیں سکتے۔ انکی ضروریات کی محرومی بڑھتی جارہی ہے، ان کو اس نظام میں تو اب ان ضروریات کا حصول ملے گا نہیں لیکن بھوک اور روٹی کا جہاں کوئی مذہب نہیں ہوتا اسی طرح محنت کش طبقہ باشعور ہو کر جب جدوجہد میں داخل ہوتا ہے تو پھر اس کو تفریق کرنے اور اسکی طبقاتی یکجہتی میں پھوٹ ڈالنے کے ہر حربے کو وہ ناکام بنانے کی جرات اور صلاحیت بھی حاصل کرلیتا ہے۔