مودی سرکار کے تین سال!

تحریر: عمرشاہد

بھارت کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات کے بعد 26 مئی 2014ء کو اقتدارمیں آنے والی مودی سرکار کو رواں برس تین سال مکمل ہو چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں حکومت کی جانب سے اپنی کامیابیوں کا بڑا چرچا کیاجا رہا ہے جس میں اپنے اقدامات کو تاریخی کارناموں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقائق کی روشنی میں یہ عیا ں ہے کہ نریندرمودی او ران کی پارٹی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان میں ایک بھی وفا نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود مودی سرکار کے تین سال پورے ہونے کی تاریخ26 مئی سے ایک ہفتہ پہلے ہی میڈیا نے مودی سرکار کی کامیابیوں کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ طرح طرح کے پروگرام کرکے لوگوں کوگمراہ کیاگیا۔ کئی ٹی وی چینلوں اوراخبارات نے مختلف سروے شائع کئے جن میں بتایا گیا کہ ملک کے 80 فیصد لوگوں کو نریندرمودی ہی پسند ہیں۔ آج بھارتی میڈیا نریندر مودی کو بے مثال، باہوبلی، ان داتا، بھگوان کا اوتارجیسی صفات سے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
’’گجرات ماڈل‘‘ کو بنیاد بناکر بھارت کی معیشت کو سنوارنا، سست روی پرمبنی معاشی پالیسیوں کو تیز کرنا، سرمایہ کاری کے لئے سرخ فیتے کا خاتمہ کرنا، رکاوٹیں ڈالنے والی بھارتی بیوروکریسی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنا، سرمایہ کاری معاون انفراسٹرکچر کو بہتر بنانااور کرپشن کا خاتمہ نریندر مودی کی انتخابی مہم کے اہم معاشی نکات تھے۔ ان تمام میں کسی ایک میں بہتری لانے کی بجائے آج تمام شعبے تنزلی کا شکار ہیں۔ درحقیقت مودی جن ’اچھے دنوں‘ کے وعدے کے ساتھ حکومت میں آیا وہ اچھے دن اب موجودہ سرمایہ داری کے بحران میں ماضی کا قصہ معلوم ہوتے ہیں۔ مودی جس ’’گجرات ماڈل‘‘ کی مثالیں دیتا نہیں تھکتا وہ درحقیقت محنت کشو ں کے سخت ترین استحصال پر مبنی ماڈل ہے اور حقیقت میں گجرات کی جس تیز ترین ترقی کے گُن گائے جاتے ہیں وہ مودی حکومت سے بھی تقریباًایک دہائی پیشتر کی ترقی ہے، اور مودی دورمیں 1991-98ء کے دور کے برعکس گجرات کا نمبر اتر کھنڈ اور سِکم کے بعد آتا تھا۔ مودی کے گجرات ماڈل میں کارپوریٹ سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی گئیں۔ اسی وجہ سے کارپوریٹ سیکٹر کو وزیر اعظم سے امید تھی کہ وہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کرے گا، بزنس یا کاروبار کے حق میں ماحول بنائے گا۔ یعنی ایسا ماحول بنے گا جس میں کارو بار، چھوٹے سے لے کر بڑے تک تیزی سے بڑھ سکے۔ الٹا، صورت حال بد سے بد تر ہو گئی اوران دنوں بیو روکریسی کاروباریوں کا ہی بری طرح رس چوس رہی ہے۔ محنت کشوں کی مزاحمت کی وجہ سے مودی بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں کی نجکاری نہیں کر سکا۔ حالانکہ اس نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے حالات سازگار کرنے کے لئے کئی شعبوں میں اصلاحات بھی کی ہیں۔ سابقہ یو پی اے سرکا رنے تو کچھ ہی شعبوں میں ایف ڈی آئی کی اجازت دینے کی بات کہی تھی، اُس وقت مودی اور بی جے پی‘ ایف ڈی آئی کا مطلب ملک کو غیرملکی تھیلی شاہوں کے ہاتھوں بیچنے جیسا بتا رہے تھے، اب تو دفاعی سیکٹرتک میں سو فیصد ایف ڈی آئی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی غیر ملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ موجودہ جشن میں مودی سرکار اپنے تین بڑے کارناموںآدھا رکارڈ، جی ایس ٹی اورایف ڈی آئی (فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ) کا بڑے پیمانے پر چرچاکر رہی ہے۔ لیکن یہ تینوں اقدامات پھر سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی کانگریس سرکار کی طرف سے شروع کئے گئے تھے جن کی اُس وقت بی جے پی نے سخت مخالفت کی تھی۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ایما پر من موہن سنگھ نے جی ایس ٹی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا لیکن اس کو مکمل نہ کر سکا۔ مودی سرکار اس وقت اسی ٹیکس اصلاحات کے پروگرام کو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اصلاحاتی پروگرام گردان رہی ہے لیکن اس کے معیشت پر مثبت اثرات دکھائی نہیں دے رہے۔ نئے روزگار کاوعدہ اس وقت اپنی الٹ میں تبدیل ہو کربیروزگاری کی شرح میں حیران کن اضافہ دکھا رہاہے۔ بھارت میں ہرسال تقریباً 12 ملین لوگ محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں، جو کہ 1کروڑ 20لاکھ کی تعدادبنتی ہے۔ سہ ماہی ایمپلائمنٹ سروے کے مطابق اکتوبر 2016ء اور جنوری 2017ء کے درمیان صرف 1.22 لاکھ روزگار یا ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ اپریل اور جولائی 2016ء کے درمیان 77 ہزار اور جولائی اوراکتوبر کے دوران 31 ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ کئی شعبہ جات میں ملازمتوں کا تناسب کم ہوگیاہے۔ جیسے کنسٹرکشن انڈسٹریز میں ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آٹوموبائل انڈسٹری میں بھی روبوٹس نے کئی ملازمین کی جگہ لے لی۔ کنسٹرکشن اور آٹو موبائل دو ایسے شعبے ہیں جہاں نوجوانوں کو روزگار کیلئے امید رہتی ہے۔ نئی ملازمتوں کیلئے نئے منصوبوں کی ضرورت ہے اور نئے منصوبوں کیلئے نئی انوسٹمنٹ کی۔ بلند و بانگ دعوؤں کے باوجودسرمایہ کاری مایوسن کن ہے۔ OECD کے حالیہ سروے کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے 30 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ تناسب چین کے نوجوانوں کی بیروزگاری کے مقابل میں دو گنا ہے، جہاں بیروزگاری کا تناسب 14.6 فیصد ہے۔
مودی سرکار نے بنیادی ضرورتو ں پر مزید کٹوتیاں کی ہیں، مثال کے طور پر -14 2013ء کی یو پی اے حکومت کے آخری بجٹ میں حکومت نے اعلیٰ تعلیم کیلئے بجٹ کا 4.57 فیصد حصہ مختص کیا تھا لیکن مودی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص بجٹ کو-18 2017ء میں کم کر3.8 فیصد کر دیا۔ پچھلی کچھ دہائیوں کی صنعتی ترقی کے باوجود بھارت آج بھی ایک زرعی ملک ہے جہاں 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ مودی کی حکومت بننے سے پہلے زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.6 فیصد تھی، مگر اب زرعی شعبے میں ترقی کی شرح کم ہوکر 1.7 فیصد رہ گئی ہے۔ شدید معاشی مشکلات کے باعث کسانوں کی خودکشیاں کئی برسوں سے بھارت میں ایک سنجیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مودی اور بی جے پی کا انتخابی دعویٰ تھا کہ ان کے دور میں کوئی کسان خود کشی نہیں کرے گا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2014ء میں 5,650 کسانوں نے خود کشی کی اور 2016ء میں 8,007 کسانوں نے۔ مودی نے سکہ بندی کی پالیسی کوکالے دھن کے خلاف ایک انقلابی قدم تعبیر دیا لیکن سکہ بندی یا ڈیجیٹل انڈیا کے نام پر مودی نے ملک کو واقعی قلاش بنا دیا ہے۔ زر بندی پالیسی کا اصل مقصد کالے دھن پر روک لگانے یا کالے دھن کی بیرونی ممالک سے واپسی کے وعدوں کی عدم تکمیل پر تنقید سے بچنا تھا۔ تاکہ عوام کو مسائل میں الجھاکر ان کے سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیتوں کو مجروح کیا جا سکے۔ لیکن اس کی وجہ سے جن کی اپنی محنت کی کمائی تھی وہ اس سے محروم ہوگئے جبکہ کالے دھن میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا۔ معاشی حوالوں سے کئی شعبوں میں سخت گراوٹ دیکھی گئی۔ وزیر اعظم نے ہاتھ جوڑ کر بھارتی عوام سے 50 دن کی مہلت مانگی تھی کہ 50 دن بعد سب کچھ بہتر ہوجائے گا۔ کچھ بہتر تو نہیں ہوا لیکن ہندوستانی عوام بدترین حالات میں زندگی گزارنے کے عادی ضرور ہوگئے۔ سماجی و سیاسی حوالوں سے پاکستان دشمنی، فرقہ پرستی، نفرت اور گائے کے گوشت پر پابندی جیسے نان ایشوز سرگرم کیے گئے۔ اخلاق، پہلو خان جیسے المناک واقعات پیش آئے۔ یو پی میں ان کے ہم خیال اور مستقبلکے امکانی رفیق آدتیہ ناتھ یوگی کو اقتدار ملا تو فرقہ پرستوں اور مذہبی جنونیوں کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے۔ گؤ رکھشکوں کی جانب سے علی الاعلان حملے روزمرہ کے معاملات میں سرائیت کرچکے ہیں۔ حال ہی میں علیگڑھ میں گھر کے اندر بھینس ذبح کرنے پر بھی ہنگامہ آرائی کی گئی۔ نام نہاد گؤ رکھشکوں نے بھینس ذبح کرنے والوں کو پولیس کی موجودگی میں زدو کوب کیااور پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
اس تمام خلفشار اور میڈیا پر پیش کردہ پیلے آسمان سے کہیں پرے معاشرے میں طبقاتی تضادات مزید سلگ رہے ہیں۔ ان تین سالوں میں محنت کش طبقے کی جانب سے دو بڑی عام ہڑتالیں کی گئیں تو کسانوں میں بھی تحریک بیدار ہوئی۔ رواں ماہ مہاراشڑا اور مدھیہ پردیش میں کسانوں کے شاندار احتجاج ہوئے جس میں انہوں نے مودی سرکار کو چیلنج کیا۔ اسی طرح طلبہ تحریک کی ایک اٹھان دیکھی گئی جو کہ آنے والے وقت میں مزید مضبوط ہو گی۔ مودی سرکار کے دوران قومی تحریکوں کو ایک نئی اٹھان ملی، رپورٹس کے مطابق بھارت میں بہار، آندھرا پردیش، اتراکنڈ، ناگا لینڈ، مانی پور، ملائیلا، کرناٹک، چنیش گڑھ، اتر پردیش اور دوسرے کئی صوبوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں جو کسی بھی وقت طوفان کا پیشہ خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان میں اہم کشمیر کی تحریک ہے جہاں طلبہ کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعدادمیں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اوربھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مودی سرکار کے اس دنیا کی ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں سب سے رجعتی حاکمیت کے طور پر مسلط ہونے سے ظاہری طور پرنہ صرف بھارت بلکہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی ایسی ہی رجعتی قوتوں کو تقویت ملی ہے۔ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کی درندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ممالک کی مذہبی رجعت کی کالی قوتوں نے بھی فسطائیت پر مبنی قتل وغارت گری کو تیز کیا ہے۔ لیکن جب طبقاتی بنیادوں پر محنت کش متحد ہو کر تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو پورے جنوب ایشیا کا سیاسی و سماجی منظر بد ل جائے گا۔