ہندوستان: مودی سرکار کے خلاف ’ماروتی سوزوکی‘ کے محنت کشوں کی جدوجہد
2011ء میں ماروتی سوزوکی کا مانیسر اسمبلی پلانٹ کم اجرتوں، کام کے دوران جبر، ٹھیکیداری اور عارضی ملازمت کے خلاف لڑاکا جدوجہد کا گڑھ بننا شروع ہوا تھا۔
2011ء میں ماروتی سوزوکی کا مانیسر اسمبلی پلانٹ کم اجرتوں، کام کے دوران جبر، ٹھیکیداری اور عارضی ملازمت کے خلاف لڑاکا جدوجہد کا گڑھ بننا شروع ہوا تھا۔
اتر پردیش کا اہم قصبہ ’’دیوبند‘‘، جہاں سے ایک بڑے مسلم فرقے کا جنم ہوا، وہاں مسلمانوں کا 70 فیصد سے زائد ووٹ تھا اور وہاں سے بھی بی جے پی نے ہی کامیابی حاصل کی۔
ان قومی اور مذہبی نفرتوں کے خلاف ایک حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باوجود دہلی اور دوسرے شہروں میں طلبہ کے احتجاج پھٹ پڑے ہیں۔ یہ ہندوستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے جاری طلبہ سیاست کے تحرک کا ہی تسلسل ہے۔
افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور حکمت یار کے بڑی حد تک خاموش گروپ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے حکمت یار کو ماضی کے تمام حملوں، دہشت گردی اور قتل عام سے عام معافی دیتے ہوئے اس کے مکمل ’’سیاسی حقوق‘‘ بحال کر دیے گئے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کا شمار فوجی ساز و سامان پر سب سے زیادہ اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی سہولیات پر کم ترین ریاستی اخراجات کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
افغان مہاجرین کا مسئلہ ضیاالحق کے جرائم کی طویل فہرست میں سے ایک کڑی ہے۔
علیحدگی پسند اور دوسری مقامی قیادتوں کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس میں ایسا لگتا ہے کہ بجائے نوجوان اور عوام ان کے نقش قدم پر چلیں، تحریک ان کو آگے کی جانب دھکیل رہی ہے۔
نوٹوں کو کالعدم کرنے کے بعد کالے دھن کی ایک نئی صنعت معرض وجود میں آچکی ہے، ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پرانے نوٹ 20 فیصد مارجن پر وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ نئے نوٹوں کو بیچا جا رہا ہے۔
انسانی زندگی کی تباہ کاریوں کے خلاف مدافعت نہ صرف ٹیکنالوجی کے منافع خوری کے اصراف کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سیارہ زندگانی کے لیے زیادہ ناگفتہ بہ ہورہا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے رجعتی میڈیا کی جانب سے تحریک پر ایک مذہبی اور متعصبانہ پردہ ڈالنے کی وارداتوں کے باوجود یہ تحریک آج بھی کسی مذہبی تعصب کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے۔
کالے دھن کے آقاؤں کی کرپشن اور چوری نوٹوں کی مرہون منت ہوتی ہے نہ ہی اس طرح سے یہ ختم ہو سکتی ہے۔
اس سفر میں ایک لاکھ سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ لاکھوں زخمی ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ قید و بند ہوئے لیکن سفر ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا!
آج اسلامی بنیاد پرستی کی بربریت ہو یا سامراجی قوتوں کی وحشت، افغانستان اور دنیا بھر کے عوام کے لئے وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
اس نظام میں یہی ہوتا آیا ہے، یہی ہو سکتا ہے اور یہی ہو گا۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہی ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ 1985ء کی نسبت اختلافات مزید بڑھے ہی ہیں اور تعلقات بگڑے ہیں۔