نوٹ بدلنے سے حالات نہیں بدلتے!

| تحریر: لال خان |

نریندرا مودی کی بنیاد پرست حکومت، جو مذہبی بنیاد پرستی کی وحشت کو سرمایہ دارانہ جبر واستحصال کو شدید کرنے کے لیے مسلسل استعمال کررہی ہے، اس کو اتنے’’تاریخی مینڈیٹ‘‘ کے باوجود مسلسل بحرانوں نے گھیر رکھا ہے۔ اس کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو زائل کرنے یا کچلنے کے لیے وہ طرح طرح کے نئے ناٹک کرتی ہے جن میں سے اکثر عام انسانوں کے لیے بربادیوں اور خونریزی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ ویسے مودی سرکار کو تو ’’ہنی مون‘‘ پیریڈ بھی نہیں مل سکا۔ جن بھارتی کارپوریٹ سرمایہ داروں نے اربوں ڈالر خرچ کے اس رجعت کے ذریعے اپنے منافعوں کی شرح بڑھانے، لیبر قوانین اور ہر قسم کے کارپوریٹ ٹیکس ختم کرنے کے لیے مودی کو اقتدار دلوایا تھا وہ اتنے ’اوتاولے‘ تھے کہ شروع میں ہی انہوں نے عالمی سامراجی اور مقامی میڈیا کے ذریعے مودی پر ’’ریفامز‘‘ تیز کرنے کا دباؤ ڈلوانا شروع کردیا۔ لیکن ہندوستان کے وقتی خاموشی اختیار کیے ہوئے محنت کش طبقے نے ذرا سی کروٹ لی (عام ہڑتالیں) اور سیاسی دباؤ اتنا بڑھا کہ مودی نے راشٹریہ سیوک سنگھ اور ویشوا ہندو پریشد جیسی جنونی ہندو تنظیموں کے ذریعے گائے کے گوشت کا واویلا کر کے مذہبی تضادات ابھارنے کے زہریلے ایشو کھڑے کر دئیے۔

پرانے نوٹ تبدیل کروانے کے عمل نے ملک گیر بحران کو جنم دیا ہے جس میں کئی افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔

جب ستمبر 2016ء میں 18 کروڑ مزدور ایک عام ہڑتال میں باہر نکل کھڑے ہوئے تو مودی سرکار نے بیرونی دوروں اور اسلحہ سازی کے معاہدوں کے کھلواڑ سے بھارت کے ایک عالمی طاقت بننے کا ڈرامہ رچایا۔ تیز ترین معاشی شرح نمو کا ڈھونڈورا پیٹا گیا۔ جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں طلبہ کی بغاوت ابھری تو پھر کشمیر پر ظلم ڈھانے کا آغاز ہوا۔ لیکن جب کشمیر کی ایک نئی نسل نے کشمیر ی انتفادہ کا آغاز کردیا تو پھر سارا استعمال پرانے حربے کا شروع ہوگیا جو دونوں طرف کے حکمران کرتے ہیں۔ ’’دشمن‘‘ سے ایک حالت جنگ مسلط کر دی گئی جو ابھی تک جاری ہے۔ لیکن جب بھارت کے عوام اس سے بھی اکتا گئے اور آئندہ چند ہفتوں میں ہونے والے چھ ریاستوں کے صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو شکست نظر آنے لگی تو اب یہ نوٹ بدل کے کالے دھن وکرپشن کے خاتمے کا ناٹک رچایا گیا ہے۔ اگر ان 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کے خاتمے کے اس کھلواڑ کا جائزہ لیں تو یہ مزید مضحکہ خیز اس وقت ہوجاتا ہے جب یہ اعلان بھی کردیا گیا کہ دو ہزار کا نوٹ نکالا جائے گا۔ لیکن بنیادی طور پر یہ واردات مودی سرکار اور بی جے پی کو شاید بہت مہنگی پڑے گی۔ کیونکہ اس سے بھارتی صنعت کار، کارپوریٹ بزنس مین اور تاجر و کاروباری حضرات قطعاً خوش نہیں ہوئے۔ لیکن اگر کسی کو تنگی آئی ہے تو وہ درمیانے طبقے کی سب سے نچلی پرتیں اور ہندوستان کے محنت کش اور غریب ہیں۔ ان میں سے درجنوں بزرگ اس دھکم پیل میں جان سے گئے جوان نوٹوں کو تبدیل کرنے والی قطاروں میں روزانہ ہو رہی ہیں۔ مودی نے اپنی ماں کو بھی ایک ایسی ہی قطار میں کھڑا کروا کر اسکی تصاویر میڈیا پر چلوائیں جو ہندوستان کی غریب ماؤں کے لیے ایک تضحیک آمیز طنز بن کر رہ گئی ہیں۔ لوگ اتنے بے وقوف بھی نہیں ہیں کہ اس ناٹک گیری کو سمجھ نہ پائیں اور ان کی اس رجعتی حاکمیت کے خلاف حقارت میں مزید اضافہ نہ ہو۔ اسی طرح بہت سے مریض جن میں بزرگ، خواتین اور بچے شامل ہیں، صرف اس لیے زندگیوں کی بازی ہار گئے کیونکہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں علاج اور دوا پیسے کے بغیر نہیں ملتی اور نجی ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں انسانی زخموں اور بیماریوں کے بیوپاری پرانے نوٹ لینے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ علاج اس نظام زر میں انسانی زندگی بچانے اور صحت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ منافع کمانے کے لیے ہوتا ہے۔ علاج کا یہ کا روبار آج بھارت اور پاکستان، دونوں میں زور پر ہے کیونکہ یہاں کی بوسیدہ سرمایہ داری کو اپنی منافع کی ہوس بجھانے کے لئے انسانی زخموں کا یہ بیوپار بھی درکار ہو گیا ہے۔
ان تمام کھلواڑوں میں بھارت کا کارپوریٹ میڈیا مودی سرکار کی مکمل حمایت کرتا رہا ہے۔ قومی شاونزم کا زہر پھیلانے سے لے کر جنگی جنون ابھارنے تک، اس نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ایک سیکولر ریاست، سیاست اور صحافت کا مذہبی جنونیت اور رجعت کا کردار اپنا لینا ناگزیر تھا۔ جس نظام میں معاشرے کو ترقی دینے کی صلاحیت ہی نہ رہے اس میں سیکولرازم اور جمہوریت محض ڈھونگ ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔ میڈیابہت شور مچا رہا ہے کہ 28 ارب ڈالر کے برابر خفیہ رقوم حاصل کر لی گئی ہیں، کرپشن کو ایک کاری ضرب لگی ہے وغیرہ۔ لیکن یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے۔ ہندوستانی ریاستی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کارپویٹ سرمایہ داروں کی وہ دولت جس کا انکشاف کھلے عام ہوچکا ہے وہ 1000 ارب ڈالر ہے جو سوئٹزلینڈ اور دوسرے بینکوں میں پڑی ہے اور مودی سرکاراس میں سے ایک ٹکہ بھی بھارت واپس نہیں لاسکی، نہ لاسکتی ہے، نہ لانا چاہتی ہے۔ کیا مکیش انیل امبانی، یا رتن ٹاٹا یا ہزاروں ہندوستانی ارب پتیوں میں سے کسی نے کبھی پانچ سو یا ہزار کا نوٹ کبھی استعمال بھی کیا ہے؟ کالے دھن کے آقاؤں کی کرپشن اور چوری نوٹوں کی مرہون منت ہوتی ہے نہ ہی اس طرح سے یہ ختم ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان میں غربت میں غرق تقریباً 85 کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بھی شاید ہی کبھی پانچ سو اور ہزار کا نوٹ استعمال کیا ہو۔

AppleMark
پانچ سو اور ہزار روپے کے پرانے نوٹ ختم کر کے پانچ سو اور دو ہزار روپے کے نئے نوٹ متعارف کروا دئیے گئے ہیں۔

لیکن سرکاری رپورٹ میں مذکورہ یہ ہزار ارب ڈالر (اصل رقم اس سے کہیں زیادہ ہو گی) کیا ان سرمایہ داروں نے ان نوٹوں کے ذریعے آف شور بینکوں میں بھیجے ہیں؟ایسی ہی بھونڈی دلیل پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ بھی دیتے ہیں کہ بینکوں میں پیسے آجائیں تو پھر ان کی ’ٹریکنگ‘ ہوسکتی ہے۔ بینکوں کا تو کاروبار ہی اس قسم کے پیسے کی ہیرا پھیری پر چلتاہے۔ اگر غور کریں تو بینک سب سے منافع بخش ادارے ہیں۔ اگر یہ پیسے کی ہیرا پھیری نہ کریں تو پھر یہ چلتے کیسے رہیں؟ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں کالا دھن نہ ہو تو بینکوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کی یہ بوسیدہ معیشت بھی دھڑام کر جائے۔ یہ نظام چلتا ہی کرپشن اور بدعنوانی پر ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ زر اور کرنسی نوٹ وغیرہ نسبتاً نئے مظاہر ہیں۔ اس سے پیشتر ہزاروں لاکھوں سال تک انسانی سماج بھی تھے، وہ ضروریات بھی استعمال کرتے تھے اور زندہ بھی رہتے تھے لیکن پیسہ اور نوٹ نہیں تھے۔ آئندہ بھی ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے، لیکن جدید ترین بنیادوں اور بلند تر پیمانے پر، جہاں زر کا استعمال ضروری نہیں رہے گا۔ کیونکہ پیسہ نہ انسان کھاسکتا ہے نہ پہن سکتا ہے نہ اس کی کوئی دوسری قدرِ استعمال ہے۔ لینن سے کسی نے پوچھا تھا کہ ایک کمیونسٹ سماج میں زر کا کیا مستقبل ہوگا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’ان سونے چاندی کے سکوں کو ٹوائلٹ کے فرش بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا‘‘۔ کیونکہ مارکسسٹوں کے نزدیک کمیونزم انسانی معاشرے کی وہ معراج ہے جو آج کی ٹیکنالوجی کے تحت مکمل طور پر ممکن بھی ہے اور جس میں ضروریات زندگی کی پیداوار اور بہتات اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ معاشرے سے قلت، مانگ اور محرومی اور نتیجتاًزر کا خاتمہ ہو سکے گا۔ لیکن اس زر کے سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو پیسے پیسے کا محتاج بنا دیا ہے۔ اسی طرح بینکوں میں سیمنٹ، کپڑا یا گھی تو نہیں بنتا۔ بینک انسانی استعمال کی کوئی چیز نہیں بناتے پھر بھی انکی عمارات سب سے عالیشان ہیں اور ان کے منافعوں کی کوئی حد نہیں۔ یہ سب ایک ایسے نظام کے مضمرات ہیں جہاں ہر چیز کی پیداوار کا مقصد انسانی استعمال نہیں بلکہ منافع ہے۔ اگر اس نظام کو ایک ایسی منصوبہ بند معیشت سے تبدیل کردیا جائے جہاں ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت اور منافع کی زنجیروں سے آزاد کر دیا جائے تو پیداوار کی فراوانی آسکتی ہے اور قلت کو مٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر صرف پانچ سو، ہزار کے نوٹ ختم نہیں ہونگے بینکوں سے لیکر انشورنش کمپنیوں اور مالیاتی کاروبار کے تمام اداروں کا وجود غیر ضروری ہوجائے گا۔ انسان جینے کے لیے ضروریاتِ زندگی حاصل کرے گا اور اپنے عظیم مقصد یعنی تسخیر کائنات کی طرف بڑھے گا۔