صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے…

| تحریر: لال خان |

پاکستان اور ہندوستان کی حالیہ کشیدگی کے دوران جہاں دونوں فریقوں کے حلیف اور حریف عناصر کی جانب سے مختلف رد عمل سامنے آئے وہاں دونوں ممالک کے اقتصادی آقاؤں میں شامل عالمی بینک نے انہیں غربت ختم کرنے کی تلقین کی ہے۔ المیہ بہرحال یہ ہے کہ نہ تو غربت کی اصل وجوہات بیان کی گئی ہیں اور نہ ہی ہر کچھ عرصے کے بعد ابھرنے والی اس کشیدگی کاکوئی تجزیہ یا محرکات بیان کئے ہیں۔
indo-pak-tension-and-usعالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ہندوستان اور پاکستان میں غربت اور محرومی کے نئے اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ اس میں بہتری کے زاویے کہیں پاکستان میں زیادہ دکھائے ہیں اور کہیں ہندوستان کو اس معاملے میں آگے بتایا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی سامراج کے ادارے اس طرح کی رپورٹوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک کی معیشتوں میں ان کی مداخلت سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑ رہا ہے۔ لیکن اعداد و شمار کے اس پیر پھیر اور غربت کی مسلسل بدلتی رہنی والی تعریفوں کے برعکس آج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کی جو خستہ حالی ہے اس میں غربت اور محرومی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ان سامراجی اداروں کے احکامات اور دلاسوں کو ’’بتی کے پیچھے لگانے‘‘ کا محاورہ زیادہ بہتر طور پر بیان کرتا ہے۔
حالیہ کشیدگی نے یہ حقیقت بھی عیاں کی ہے کہ برصغیر کے حکمران کھلی اور بڑے پیمانے کی جنگ اور دور رس امن، دنوں سے خوفزدہ ہیں اور دونوں راستوں پر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ان حکمرانوں کا کوئی احسان نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی بڑی جنگ نہیں ہونے دی بلکہ وہ اقتصادی طور پر بھی سامراج کے ترجیحی تقاضوں کے تحت ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس نظام زر کے اقتدار سامراجی طاقتوں کی اجازت اور بالادست سرمایہ دار طبقات کی مرضی و منشا کے تابع ہو کر ہی حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس مروجہ سیاست میں ہر ’نیا سیاستدان‘ جب اقتدار کی طرف سفر شروع کرتا ہے تو اسے دولت اور ریاست کے دیوتاؤں کا اعتماد کئی حوالوں سے جیتنا پڑتا ہے۔ اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی یہ نظام انہیں سرمائے کے مفادات کے تابع رکھتا ہے۔
ویسے تو مختلف ممالک کی معیشتوں میں صنعتی انقلابات ہونے یا نہ ہونے اور دوسرے تاریخی حوالوں سے بہت فرق پایا جاتا ہے۔ لیکن اسے جس طرح عالمی معیشت سے علیحدہ کر کے پیش کیا جاتا ہے وہ موجودہ عہد کے معاشی حقائق اور تجزئیے کے سائنسی طریقہ کار سے متضاد ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی معیشتیں ان گنت باہمی تعلقات میں جڑ کر ایک عالمی معاشی اکائی میں ڈھل چکی ہیں۔ جہاں اس اکائی کے مختلف سیاسی یونٹوں میں فرق ہے وہاں زیادہ اقدار مشترک بھی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی معیشتیں بھی اس بحران زدہ عالمی معیشت کا اٹوٹ حصہ ہیں اور اس کے اتار چڑھاؤ سے ناگزیر طور پر متاثر ہوتی ہیں۔
ہندوستان کی معیشت کی شرح نمو فی الوقت 7 فیصد سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں بلند ترین قرار دی جا رہی ہے لیکن سرمایہ داری کے تحت یہ ترقی وسیع تر عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لانے سے قاصر ہے۔ یکم ستمبر کو متواتر دوسرے سال پندرہ کروڑ سے زائد محنت کشوں کی عام ہڑتال بے وجہ نہیں ہے۔ مودی ’ویکاس‘ (ترقی) کی جتنی ڈینگیں مارتا ہے اندر سے صورتحال اتنی ہی کھوکھلی ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ جنگ کا شور شرابا تیز کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی معیشت جتنی بڑی ہے اس کا بحران بھی اتنا ہی شدید ہے۔ ’تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی‘ (OECD) کی نئی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی موجودہ معاشی شرح نمو خطرات سے دو چار ہے اور ممکن ہے کہ اگلے سال دھڑام سے تین فیصد پر آن گرے۔
2008ء کے مالیاتی کریش سے شروع ہونے والے معاشی بحران نے امریکہ کے بعد یورپ کی معیشتوں کا کباڑہ کیا۔ اس کے بعد سرمایہ داری کے ماہرین نے ابھرتی ہوئی معیشتوں بالخصوص BRICS ممالک (برازیل، روس، انڈیا، چین، جنوبی افریقہ) سے امیدیں لگائیں لیکن ان معیشتوں کا عروج بھی زوال میں ڈھلنے لگا۔ برازیل کی معیشت میں اتنی شدید گراوٹ آئی کہ وہاں کی مقبول صدر ڈلما روزیف کا اقتدار ٹوٹ کر بکھر گیا۔ برازیل کی طرح روس میں بھی شرح نمو منفی میں چلی گئی۔ اس کے بعد چین کی شرح نمو 2014ء کی 14 فیصد سے 6.8 فیصد پر آن گری۔ جنوبی افریقہ کا گروتھ ریٹ پچھلے دو سالوں سے مسلسل مثبت اور منفی میں لڑکھڑا رہا ہے۔اب ہندوستان کی باری ہے۔ عالمی معیشت کا پیش منظر مسلسل خدشات میں گھرا ہوا ہے۔ امریکہ میں پھر سے شرح نمو ایک فیصد تک سکڑ گئی ہے اور آنے والے مہینوں میں ایک نئے بحران کے امکانات زیادہ گہرے ہو رہے ہیں۔
بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جس نظام کا وقت تاریخی طور پر پورا ہو جائے اسے جعلی بنیادوں پر زیادہ عرصہ چلایا نہیں جا سکتا۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے والی سامراجی اجارہ داریاں اوڑیسہ کے پہاڑوں اور جنگلات کے وسائل سے لے کر کلکتہ اور بمبئی تک کے محنت کشوں کا بدترین استحصال کر کے ہی منافع خوری کا عمل جاری رکھتی ہیں۔اسی طرح جنگی سازو سامان سے وابستہ اجارہ داریوں کے منافعوں کے لئے مسلسل تناؤ، دشمنی اور اسلحے کی دوڑ کی فضا ضروری ہوتی ہے جس سے ان موت کے سوداگروں کے کاروباروں کو تقویت ملتی رہے۔ اگر عملی جنگ نہیں ہو سکتی تو بھی حالت جنگ تو پیدا کی جا سکتی ہے جس کا جنون اس طرح ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ عملی جنگوں کے دوران ہوتا ہے۔ یہ سب کرنے کے لئے حکمرانوں کے پاس سیاسی، سماجی اور ثقافتی حواریوں کی کمی نہیں ہوتی۔
پاکستان میں بھی ان سامراجی اجارہ داریوں کی لوٹ مار تمام حدوں سے تجاوز کئے ہوئے ہے۔ اس ہفتے سینیٹ میں پیش کئے گئے کچھ اعدادوشمار ہی چونکا دیتے ہیں حالانکہ یہ بہت کم کر کے اور بڑی ’احتیاط‘ سے منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے مطابق سیندک پراجیکٹ کے تحت 6.093 ٹن سونا، 9.693 ٹن چاندی اور 76 ہزار ٹن تانبا نکالا جا چکا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران اس سے 83 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا منافع حاصل ہوا ہے۔ اس میں مرکزی حکومت کا حصہ 10 کروڑ ڈالر جبکہ حکومت بلوچستان کا حصہ صرف 7 کروڑ 7 لاکھ ڈالر تھا۔ باقی کے 66 کروڑ ڈالر سے زائد پر یہاں کانکنی کرنے والی ہمارے ’گہرے دوست‘ ملک کی سامراجی اجارہ داری ہاتھ صاف کر چکی ہے۔ اس نظام میں ’دوستی اپنی جگہ اور کاروبار اپنی جگہ‘کا اصول چلتا ہے۔ ایک طرف صنعت، مالیات اور کانکنی وغیرہ کی ان اجارہ داریوں کی لوٹ مار ہے اور دوسری جانب اسلحہ سازوں کی ڈاکہ زنی ہے۔ اس سب کے بیچ میں مقامی حکمرانوں کی کمیشن خوری اور گھپلے ہیں۔ سامراجی مالیاتی ادارے ملکی بجٹ کا بھاری حصہ سود کی ادائیگیوں کی مد میں لے جاتے ہیں۔ اسلحہ سازی کے اخراجات میں دنیا میں سر فہرست شمار ہونے والے ان دونوں ممالک میں صحت اور تعلیم پر جی ڈی پی کے 4 فیصد سے بھی کم خرچ ہوتا ہے اور اس میں مزید کٹوتیاں مسلسل کی جا رہی ہیں۔
ایسے میں ’غربت کے خاتمے‘کے لئے ورلڈ بینک کے مشورے مضحکہ خیز بھی ہیں اور المناک بھی۔ جب نیچے سے بغاوت کا خوف ہو تو ’بیرونی دشمن‘ کے ساتھ جنگ کا جنون پیدا کر دو اور جب منافع خوری کے لئے تجارت بڑھانے کی ضرورت پڑے تو امن کے ڈھونگ رچا دو۔ اس نظام میں یہی ہوتا آیا ہے، یہی ہو سکتا ہے اور یہی ہو گا۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہی ہوگا۔ اس نظام کے خاتمے کے بغیر یہ عذاب بھی ختم نہیں ہو سکتے۔ اس کو کبھی تو ختم کر کے آزادی اور نجات حاصل کرنا ہوگی۔بغاوت کی اسی تاریخی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لئے فیض صاحب نے لکھا تھا:

اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرمان کوئی اترے

متعلقہ:

کھوکھلا جنگی جنون

برباد بستیوں میں بربادی کے سامان

بیرونی سرمایہ کاری، تریاق یا زہر؟