محرومی کی تضحیک
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔
بٹوارے کی سات دہائیوں بعد تاریخ کا کوئی ناقابلِ تردید سبق ہے تو وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان سماجوں کو آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی نامرادی کا آغاز برسراقتدار آنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔
گزشتہ دہائیوں کی تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی چین کا شمار دنیا کی بڑی غربت والے پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔
جو امیدیں عمران خان سے وابستہ کی گئی ہیں اور جو خواب اس نے دکھائے ہیں ان کا بہت جلد ٹوٹنا ناگزیر ہے۔
قارئین کی بھرپور فرمائش پر ہم کچھ عرصہ قبل ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ (AMR) کے لئے اُن کی ایک خصوصی تحریر کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔
اس معاشرے میں عزت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔
نواز شریف کی یہ مزاحمت اس خلا کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے جو عوام میں کسی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہے۔
علاج زندگی کی ایسی سلگتی ہوئی ضرورت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ بیچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی قیادت اپنے مذموم مقاصد کے لئے دولت و اقتدار کے لالچ میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو کے عدالتی قتل کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کر رہی ہے۔
کسی نظام کو چلانے کے کئی انتظامی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی معاشی اور سماجی بنیادوں کو نہ بدلا جائے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
مشال خان نے جن مسائل کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی وہ اِس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے ناگزیر مضمرات تھے۔
حالیہ احتجاجی تحریک کی مزید اہمیت اس حوالے سے بنتی ہے کہ اس میں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے عام لوگ بالخصوص نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں۔
سماج کی رگوں میں سرایت شدہ گھٹن اور رجعت کے زہر کا خاتمہ اس وقت تک مشکل ہے جب تک ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے سماج کی بنیادی ساخت کو یکسر تبدیل نہ کر دیا جائے۔