فاٹا کا سوال

تحریر: لال خان

پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ’وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات‘ (فاٹا) میں صورتحال پچھلے کچھ مہینوں سے ابال کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ علاقے برطانوی نو آباد کاروں کے لئے بھی مشکلات کا باعث رہے۔ ڈیورنڈ لائن کے نام سے 1893ء میں کھینچی گئی سامراجی لکیر بھی دونوں اطراف کے ہزاروں سال قدیم سماجی، ثقافتی اور معاشی بندھن کاٹنے میں ناکام رہی۔ برطانوی راج ان علاقوں پر ’فرنٹیر کرائمز ریگولیشن‘ (FCR) نامی قوانین کے تحت بالواسطہ حکمرانی کرتا رہا۔ یہ انتہائی جابرانہ قوانین اپنی ابتدائی شکل میں سب سے پہلے 1873ء میں لاگو کئے گئے تھے جن کے تحت برطانوی نوآبادیاتی قوانین کا اطلاق فاٹا کے باسیوں پر نہیں ہوتا ہے۔ یہ قوانین درحقیقت اجتماعی سزاؤں پر مبنی تھے جن کے تحت کسی فرد کی جرم کی سزا پورے خاندان یا قبیلے کو دی جا سکتی تھی، پوری پوری آبادیوں کو بغیر کسی معاوضے، وضاحت یا تنبیہ کے دربدر کیا جا سکتا تھا اور جرم بتائے بغیر لوگوں کو سالوں تک پابند سلاسل رکھا جا سکتا تھا۔
1947ء کے بعد ریاست پاکستان کے تحت بھی یہی ایف سی آر، جسے مقامی لوگ ’کالا قانون‘ قرار دیتے تھے، تقریباً 70 سال تک لاگو رہا۔ بعد ازاں پچھلے کچھ عرصے کے دوران دہشت گردی کے خلاف ہونے والی فوجی آپریشنوں سے یہاں کے عام لوگوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ ’کولیٹرل ڈیمج‘ بہت سے معصوموں کی زندگیاں بھی نگل گیا۔ لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔ بے شمار دیہات اور بازار ملبے کا ڈھیر بن کے رہ گئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کئی ہزار افراد اب بھی ’لاپتہ‘ ہیں۔ تاہم پچھلے کچھ مہینوں سے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کرنے بارے ایک متنازعہ بحث جاری تھی۔ جس کا نتیجہ منگل 26 مئی کو سامنے آیا جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے غیر معمولی اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کے لئے 1973ء کے آئین میں 31ویں ترمیمی بل کی منظوری دی۔ اس بل کی منظوری کا اشارہ اس سے قبل عسکری قیادت اور حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس نے دے دیا تھا ۔ تاہم اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے بل کی مخالفت کی اور واک آؤٹ کر گئے۔ اس مسئلے پر ان کے سیاسی و مالیاتی مفادات دوسری مین سٹریم پارٹیوں اور ان کے آقاؤں سے متضاد معلوم ہوتے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں کی طرف سے اٹھایا گیا یہ اقدام پچھلے سال کے موسم خزاں میں ابھرنے والی فاٹا کے نوجوانوں کی ایک غیر معمولی تحریک کے پیش نظر ضروری ہو چکا تھا۔ سٹیٹس کو‘ کو حیران کر ڈالنے والی یہ اچانک تحریک، جو ابھی تک جاری ہے، بنیادی انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں کا مطالبہ کر رہی ہے اور قبائلی علاقوں کے عام لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک، علاقے میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں اور چیک پوسٹوں پر تذلیل کے سلسلے کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ان کا سب سے بنیادی مطالبہ ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلقہ ہے۔ اس کے ابھار میں کراچی میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل نے عمل انگیز کا کردار ادا کیا تھا۔ اس قتل کے بعد ہزاروں پشتون نوجوان احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں متحرک ہو گئے۔ تحریک کے اِس پھیلاؤ کے پیش نظر ’محسود تحفظ موومنٹ‘ کا نام بدل کر ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ (پی ٹی ایم) رکھ دیا گیا۔ یہ تحریک جتنی تیزی سے ابھر کر شدت اختیار کر گئی ہے اس کے پیش نظر مقتدر حلقے خاصے تذبذب کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ تحریک کے قائدین پر غداری کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ میڈیا نے روز اول سے مکمل بلیک آؤٹ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم پشاور، لاہور اور کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے پی ٹی ایم کے بہت بڑے جلسوں کے پیش نظر آئن لائن اور پرنٹ میڈیا کو کچھ کوریج دینی پڑی ہے۔ یہ پچھلی کئی دہائیوں میں ابھرنے والی واحد تحریک ہے جسے عوامی بنیادیں اور غریب و مظلوم لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور جو تاحال جاری ہے۔

ڈیورنڈ لائن
برطانوی راج کے دور سے ہی فاٹا کا اسٹریٹجک کردار خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ’’گریٹ گیم‘‘ کے زمانوں میں ان علاقوں کو روسی زار شاہی اور برطانوی سلطنت اپنی آپسی چپقلش میں ایک ’بفر زون‘ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ وسیع عریض روسی سلطنت کے ساتھ براہ راست جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لئے برطانوی نو آبادکار 1849ء میں اپنے کٹھ پتلی افغان بادشاہ کے ساتھ ایک معاہدہ کے مطابق یہاں کے باغی اور جنگجو قبائل کو ایک ایسے انتظامی اور سیاسی ڈھانچے میں لائے جو انہیں براہِ راست ہندوستان کا حصہ تو نہیں بناتا تھا لیکن برطانوی راج کی بالواسطہ عملداری کے تابع کرتا تھا۔ تاہم 1880ء تک روسی مزید آگے بڑھ چکے تھے اور دریائے امو کے کناروں تک پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ برطانوی راج نے 1883ء میں باقاعدہ سرحدوں کے تعین کا فیصلہ کیا تاکہ ہندوستان اور افغانستان کی حدود کا تعین ہو سکے اور برطانوی سلطنت کی طرف روسی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ مذاکرات کے لئے بھیجے جانے والے سفارتکار کا نام سر ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ تھا۔ 1885ء میں دریائے امو کا استعمال کرتے ہوئے پہلی حد بندی کی گئی لیکن یہ سرحد مشرق کی طرف پامیر اور واخان کے علاقوں تک وسیع نہیں تھی۔ سر ڈیورنڈ کی کوشش تھی کہ سرحد کا یہ والا حصہ بالکل واضح ہو تاکہ روسی کہیں پامیر کے پہاڑوں سے شمالی ہندوستان میں مداخلت نہ کریں۔ چنانچہ 1893ء سے 1896ء تک طے کی گئی انیس سو کلومیڑ کی ڈیورنڈ لائن ایرانی سرحدوں سے واخان تک کھینچی گئی۔ واخان وہ چھوٹا سی پٹی ہے جہاں برطانوی نو آبادکار اپنی اور روسی سلطنت میں فاصلہ رکھنا چاہتے تھے۔
اِس ڈیورنڈ لائن نے بہت سے قبائل کو کاٹ کے رکھ دیا۔ وزیرستان کا کچھ حصہ اُس طرف افغانستان کی حدود میں جبکہ باقی برطانوی سلطنت اور بعد ازاں پاکستان کی حدود میں تھا۔ یہ لائن کم از کم 12 دیہاتوں کو دو لخت کرتی ہے اور بہت سی آبادیوں کو ان کے زرعی علاقوں سے جدا کرتی ہے۔ مہمند قبائل کے علاقے بھی اسی طرح تقسیم ہیں۔ اس علاقے کے مخصوص پس منظر اور دوری کے پیش نظر ان حد بندیوں کو یقینی بنانا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ ایک ہی خاندان کے افراد دونوں طرف آباد ہیں اور کسی چھلنی کی طرح بے شمار مسام اور سوراخ اِس ڈیورنڈ لائن میں موجود رہے ہیں۔
روسیوں کی پیش قدمی اور اثر ورسوخ روکنے کے لئے برطانوی نوآبادکاروں نے ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی بفر زون تخلق کئے تھے۔ اپنے زیر انتظام ہندوستان کی حفاظت کے لئے انہوں نے ایک تہری حکمت عملی مرتب کی جسے خود لارڈ کرزن نے بھی ’تہرے فرنٹیر‘ کا نام دیا۔ پہلے جغرافیائی درجے میں ہندوستان کے وہ علاقے تھے جن پر برطانوی راج اپنا براہِ راست کنٹرول اور غلبہ قائم رکھ سکتا تھا۔ دوسرے درجے میں وہ سرحدی علاقے تھے جو جغرافیائی طور پر تو برطانوی راج کے قبضے میں تھے لیکن جہاں کلکتہ اور بعد ازاں دہلی میں قائم اس کے دارالحکومتوں کا براہِ راست قانونی اور سیاسی کنٹرول موجود نہیں تھا۔ تیسرے درجے میں ہندوستان کی بین الاقوامی سرحدوں سے پرے افغانستان، کشمیر، نیپال، بھوٹان اور سکم جیسی ’خودمختیار‘ بادشاہتیں تھیں جنہیں کئی طرح کے معاہدوں کے ذریعے برطانوی مفادات کے تابع رکھا گیا تھا۔ سرحدی درجہ بندی کے اس دیوہیکل نظام کی وسعت نے روسیوں کو تو دور رکھا لیکن ناگزیر طور پر برطانوی راج کو مقامی آبادیوں کے غیض و غضب اور بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ۔
دوسرے درجے میں موجود شمال مغربی سرحدی علاقوں کے قبائل کیساتھ معاملات نہ صرف برطانوی نو آبادکاروں بلکہ اس سے پہلے بھی دہلی، آگرہ، لاہور اور کلکتہ سے حکمرانی کرنے والوں کے لئے ہمیشہ دردِ سر بنے رہے۔ مختلف شاہی سلسلوں کی جانب سے براہِ راست عسکری مداخلت اور غلبے کی پالیسی عام طور پر نامراد ہی رہی۔ پشاور کے یوسفزئی قبائل کے ساتھ تصادم میں اکبر کی افواج برباد ہو گئیں اور آٹھ ہزار لوگ مارے گئے۔ خیبر پاس پر تسلط رکھنے والے آفریدی قبائل کیساتھ تصادم میں اورنگزیب کو بھی ایسی ہی شکست سے دوچار ہونا پڑا جس میں اس کے دس ہزار بندے مارے گئے۔ برطانوی راج کا تجربہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ 1842ء میں مشرقی افغانستان کے پشتون قبائل کیساتھ تصادم میں کابل سے پسپا ہونے والی 18 ہزار افراد پر مشتمل ’گرینڈ آرمی آف انڈس‘ کی پوری رجمنٹ کام آئی۔

فاٹا اور ایف سی آر
1901ء میں لارڈ کرزن نے پرانے پنجاب صوبے سے ’شمالی مغربی سرحدی صوبہ‘ (NWFP) الگ کیا جو ڈیورنڈ لائن کیساتھ قبائلی بفر زون پر مشتمل تھا۔ لارڈ کرزن نے یہاں بالواسطہ حکمرانی کی حکمت عملی اپنائی جو مراعات اور پیسے کے عوض خریدے جا سکنے والے بااثر قبائلی افراد اور ’پولیٹیکل ایجنٹس‘ کے امتزاج پر مبنی تھی اور 1873ء کے قوانین کو نئی شکل میں ’ایف سی آر‘ کے نام سے ان علاقوں پر لاگو کیا۔ ایف سی آر کے تحت ان پولیٹیکل ایجنٹوں کے پاس بے حد اختیارات موجود تھے جن میں چنیدہ قبائلی سرداروں پر مشتمل ’قبائلی عمائدین کی کونسل‘ کی تشکیل کا اختیار بھی شامل تھے۔ یہ ایجنٹ افراد کے سرکشی کی اجتماعی سزا کے طور پر پورے کے پورے دیہاتوں کو منہدم کرنے کی طاقت بھی رکھتے تھے۔ ان کے زیر انتظام مسلح گروہ قبائل کی ناکہ بندی کر سکتے تھے اور شدید صورتوں میں انہیں جلاوطن بھی کر سکتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں ایف سی آر کے تحت برطانوی راج کے یہ نمائندے کسی قانونی عمل یا متاثرین کو استدعا کا اختیار دئیے بغیر من مانی سزائیں سنا سکتے تھے۔ برطانوی نوآبادکاروں سے ورثے میں ملنا والا یہ نظام پاکستان کے قیام کے بعد بھی قائم رہا اور ان قبائلی علاقوں کو انتظامی طور پر وسیع تر سرحدی صوبے (موجودہ پختونخواہ) سے ہٹ کر اس طریقے سے وفاق کی عملداری میں رکھا گیا۔ 1947ء کے بعد بھی ایف سی آر کے نفاذ کے اغراض و مقاصد ماضی سے کچھ مختلف نہیں تھے۔ اس کا مقصد ریاست کے مفادات کا تحفظ تھا۔ جبکہ ان علاقوں کے عام لوگوں کو دوسرے درجے کے شہری بنا دیا گیا۔ لیکن اس طریقہ کار نے اُس قبائلی اشرافیہ کی ریاست کیساتھ وفاداری کی راہ ہموار کی جس کی مراعات، طاقت اور مالی حیثیت کا تحفظ اس سیٹ اپ کے تحت یقینی تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ کو بے شمار اختیارات کیساتھ وفاقی حکومت کے نمائندے کی حیثیت حاصل تھی جبکہ فاٹا کے عام لوگ قانونی چارہ جوئی اور نمائندگی کے بنیادی حقوق سے بدستور محروم رہے۔ ’’اجتماعی ذمہ داری کی شق‘‘ کے تحت کسی فرد کے کیے کی سزا پورے قبیلے یا دیہات کو دینے کی بھی اجازت تھی اور حکام سالوں تک فردِ جرم کے بغیر لوگوں کو قید رکھ سکتے تھے۔ حکومت بغیر کسی معاوضے کے نجی ملکیت کو قبضے میں لے سکتی تھی۔ اسی طرح ان علاقوں تک باہر والوں کی رسائی بھی بہت محدود تھی۔ ایف سی آر میں یہ شق بھی شامل کی گئی کہ کسی مقامی شخص کو جرم کی نشاندہی کے بغیر قبائلی عمائدین حکومت کے حوالے کر سکتے تھے بصورت دیگر حکومت ان عمائدین کو سزاوار ٹھہرانے کا حق رکھتی تھی۔ فاٹا کے باشندوں کو ووٹ ڈالنے کا اختیار 1997ء میں کہیں مل سکا۔ اس سے قبل مخصوص با اثر افراد (مَلک) ہی ووٹ ڈال سکتے تھے۔ اس کے باوجود 2013ء تک سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایف سی آر جیسے قوانین کا خاتمہ یقیناًایک مثبت اقدام ہو گا لیکن معاشی و سماجی تقسیم اور طبقاتی جبر کے خاتمے کے بغیر ایسا ہر اقدام ادھورا ہی رہے گا۔

ڈالر جہاد
افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کے خلاف امریکی سی آئی اے کے شروع کردہ ڈالر جہاد کے کلیدی متاثرین میں فاٹا کے عوام بھی شامل تھے۔ اس جہاد کو فنانس کرنے کے لئے یہاں منشیات کی پیداوار اور ترسیل کا وسیع و عریض نیٹ ورک بچھایا گیا۔ افرادی قوت کی فراہمی کے لئے مدرسے کھولے گئے اور بنیاد پرستی کو فروغ دیا گیا۔ 1988ء میں روسیوں کے افغانستان سے نکل جانے اور بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکیوں کی دلچسپی اس خطے میں خاصی کم ہو گئی لیکن فاٹا منشیات کی تجارت اور شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا۔ منشیات کے بیش بہا کالے دھن پر پلنے والے یہ دہشت گرد گروہ اپنی دفاداریاں بدلتے رہے اور اس خطے کو برباد کرتے رہے۔ 2001ء میں امریکی جارحیت کے بعد صورتحال اور بھی پر انتشار اور خونریز ہو گئی۔ دوغلی ریاستوں اور ان کے پراکسی گروہوں کے ٹکراؤ میں معصوم لوگ مرتے رہے۔ اس نئی ’گریٹ گیم‘ میں طالبان کے نئے سے نئے گروہ منظر عام پر آتے رہے اور ان کی آپسی لڑائیاں بھی مسلسل جاری رہیں۔ یہ بنیاد پرست درندے بالخصوص یہاں کے ترقی پسند رجحان رکھنے والے افراد اور خاندانوں کو نشانہ بناتے رہے اور پورے کے پورے خاندان قتل کر دئیے گئے۔ ڈرون حملوں میں مرنے والے بھی زیادہ تر بے گناہ لوگ تھے جن میں بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ یہی کیفیت بعد میں ہونے والے فوجی آپریشنوں میں پیدا ہوئی۔ لیکن افغان ڈالر جہاد کے لئے منشیات، اغواہ برائے تاوان اور دوسرے جرائم کی جس معیشت کو پیدا کیا گیا تھا وہ تو آج بھی نہ صرف افغانستان بلکہ پورے پاکستان اور بالخصوص اِن قبائلی علاقوں میں غالب ہے۔ سیاسی سیٹ اپ اور انتظامیہ کی تبدیلیاں اس کالی معیشت سے وابستہ وحشی گروہوں اور ان کے سرغنہ سرداروں کا غلبہ کیسے توڑ سکتی ہیں؟ لیویز فوس کو برقرار رکھنے سے قانون نافذ کرنے کا ایک متوازی نظام بھی موجود رہے گا جس سے عملداری کی حدود مزید گڈ مڈ ہو جائیں گی۔

غربت
فاٹا کا شمار ملک کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ باجوڑ، خیبر، قرّم، مہمند، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان جیسی کئی ’پولیٹیکل ایجنسیوں‘ پر مشتمل یہ سنگلاخ خطہ 27220 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جس کی افغانستان کیساتھ سرحد 1400 میل طویل ہے۔ شرح خواندگی صرف 17.4 فیصد ہے جن میں خواتین کی شرح 3 فیصد ہے۔ فی کس آمدن 250 ڈالر ہے اور 86 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ زیادہ تر خاندانوں کا گزر بسر نجی ضروریات کے لئے کی جانے والی زراعت، گلہ بانی اور چھوٹے کاروباروں پر منحصر ہے۔ بہت سے مقامی افراد روزگار کی تلاش میں ملک کے بڑے شہروں اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا رُخ کرتے ہیں جہاں انہیں بدترین استحصال کا شکار بننا پڑتا ہے۔ ان علاقوں میں مسلسل جنگی کیفیت اور آپریشنوں نے مقامی آبادی کی چھوٹی چھوٹی زرعی اراضیاں اور کاروبار بھی برباد کر دئیے ہیں۔ معاشی بربادی اور وسیع بیروزگاری کی یہی کیفیت بہت سے نوجوانوں کو کالے دھن سے وابستہ شدت پسند گروہوں کی طرف بھی راغب کرتی ہے۔ کچھ علاقوں میں اسلحے کی روایتی صنعت کے علاوہ کوئی جدید صنعت موجود نہیں ہے اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کا انفراسٹرکچر بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں اسلحے اور منشیات کا عبوری رُوٹ ہونے کی وجہ سے یہاں ’نارکو اکانومی‘ ہی حاوی رہی ہے۔ لیکن فاٹا میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں ہے۔ یہاں سنگ مر مر، کاپر، چونا پتھر اور کوئلے کے بڑے زخائر ہیں جو کانکنی کی بڑی صنعت کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بحران اور حل
ان معاشی اور سماجی حالات کے پیش نظر فاٹا کا پختونخواہ میں انضمام یہاں کے عام لوگوں کے لئے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائے گا۔ اِس نظام میں انصاف کا حصول بھی دولت کا متقاضی ہے اور قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کے نکل جاتے ہیں۔ کالے دھن سے وابستہ اشرافیہ ہی سیاسی اور معاشی طور پر غالب رہے گی۔ دوسری طرف ریفرنڈم کے ذریعے فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی محض انتظامی تبدیلیوں تک ہی محدود ہے۔ کسی نظام کو چلانے کے کئی انتظامی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی معاشی اور سماجی بنیادوں کو نہ بدلا جائے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ مروجہ سرمایہ دارانہ نظام، جو کالے دھن اور قبائلی و جاگیردارانہ باقیات کی آمیزش سے کہیں زیادہ مسخ ہو چکاہے، اِس پورے خطے میں یکساں بنیادوں پر وہ ترقی دینے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ صحت و علاج سے محرومی، افلاس اور ناخواندگی جیسے سلگتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکے۔ بلکہ فاٹا جیسے علاقوں میں سرمایہ دارانہ رشتوں کی سرایت نے یہاں کے مسائل کو زیادہ بگاڑ دیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس انتہائی پسماندگی میں جدید ترین سمارٹ فون ملتے ہیں۔اسی طرح ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جنہیں پسماندگی و جدت کے امتزاج کے اِس عجیب تضاد اور پھر ملک کے دوسرے علاقوں سے روابط نے انتہائی ترقی پسندانہ اور جرات مندانہ نتائج اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے جس کا اظہار پی ٹی ایم کی حالیہ تحریک میں بھی ملتا ہے۔ فاٹا سے ہٹ کے بات کی جائے تو باقی ماندہ ملک کی حالت بھی نسبتاً ہی بہتر ہے۔ ہر جگہ عام محنت کش لوگ انہی اذیت ناک مسائل اور جبر و استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان ہی نہیں پورے جنوب ایشیا کا یہی حال ہے۔ ہر جگہ حکمران طبقات اور ان کے اداروں کا جبر موجود ہے۔ بس شکلیں اور طریقہ واردات مختلف ہیں۔ لہٰذا بنیادی حقوق کے لئے فاٹا کے محروم و مجبور انسانوں کی جدوجہد کو پورے ملک اور خطے کے محکموں کے ساتھ جوڑ کر ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔