تھرپارکر: ترقی کی بربادی
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی تھرپارکر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی تھرپارکر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔
جس سوچ نے اس وحشت اور درندگی کو جنم دیا ہے اسکی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسے قبائل جن میں نسلوں سے دشمنیاں بھی چل رہی تھیں ایک دوسرے کی قتل وغارت کی تاریخ پائی جاتی ہیں ان کی نئی نسل کو نقیب اللہ کے اس بہیمانہ قتل نے ایک یکجہتی میں پرو دیا ہے۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
رجعت سے آلودہ سوچ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ طلبا و طالبات آپس میں فن، ادب، سائنس، تعلیم، نصاب، فلسفہ، سیاست، ثقافت، تاریخ، فلم، عالمی حالات اور معاشرے کے بحران جیسے موضوعات پربات چیت یا بحث ومباحثہ کر سکتے ہیں۔
حکمرانوں کی حاکمیت اتنی نحیف ہے کہ وہ اپنے حقیقی سیاسی اور اخلاقی کردار کی ایک ہلکی سی جھلک کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔
پاکستان میں دہشت گردی کا صفایا کرنے کی ہر کوئی کم از کم بات کرتا ہے۔ لیکن پھر اس بدعنوان سیاست اور حاکمیت میں ان کو ایسی قوتوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے جنکے صفائے کی بات کی جاتی ہے۔
جیسے جیسے یہ نظام معاشی بحران میں مزید دھنستا جا رہا ہے اور بڑھتی ہوئی محرومی اور ذلت کے ساتھ سماجی بوسیدگی زیادہ ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے غیرت کے نام پر قتل کے جرائم کی وحشت بھی بڑھ رہی ہے۔
یہ درمیانے طبقے کا رجحان درحقیقت مقابلے اور نابرابری پر مبنی زوال پذیر نظام کی تلخ حقیقتوں سے فرار کا راستہ ہے۔
پاکستان میں 70 سال بعد بھی ایک جدید قومی ریاست اور یکجا ’’پاکستانیت‘‘ پر مبنی سماجی و اقتصادی اور تاریخی اعتبار سے ایک قوت تشکیل نہیں پاسکی۔
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
ضیاالحق نے یہ مذہبی نعرہ دیا تھا کہ ’’بات اب تک بنی ہوئی ہے۔‘‘ بات بنی نہیں ہوئی ہے بلکہ بہت بگڑ چکی ہے اور مزید بگڑتی جارہی ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
ایک سوشلسٹ سماج میں ہی جعلی سرحدوں کو مٹایا جائے گا اور ہر دوسرے شعبے کی طرح کھیل کو بھی سرمائے اور منافع کے چنگل سے آزاد کروا کے معراج تک پہنچایا جائے گا۔
اگر کسی ایک شعبے میں ہی زبان تبدیل کرنی ہو تو اس کے لیے بھی بے پناہ اخراجات، محنت اور وسیع کام درکار ہے۔