چالیس سال کی تاریکی

تحریر: لال خان

4 جولائی 1977ء کو گزرے چالیس برس بیت چکے لیکن آ ج بھی ا س ر ا ت ہو نے و ا لے فو جی کُو کے ز خم رس رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت پاکستانی تاریخ کی سب سے ظالم حکومت تھی جس کے ہاتھوں سماج کو جبر، دہشت گردی، غربت، بیماری، ذلت، مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تشدد میں جھونک دیا گیا۔ فوجی جرنیلوں نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف، گرفتار اور پھر 4 اپریل 1979ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ لیکن پس پردہ اس سب کے پیچھے امریکی سامراج کا ہاتھ تھا اور انہوں نے ہی اسلامی بنیاد پرست جنرل ضیا کو اس کام کے لیے تیار کیا تھا۔
پاکستان کے محروم طبقات پر ظلم و بربریت کے اَن دیکھے پہاڑ تو ڑ دیے گئے۔ ہزاروں کو سر عام کوڑے مارے گئے اور سینکڑوں تختہ دار پر جھولے او ر ریاست کے بدنا م زمانہ زندانوں میں تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ اس کا نشانہ زیادہ تر بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے جیالے، ٹریڈ یونین کارکنان، محنت کش، غریب کسان، محروم قومیتیں، خواتین، مذہبی اقلیتیں اور سماج کے دوسرے محکوم حصے بنے۔ 1978ء میں ملتان میں کالونی ٹیکسٹائل مل میں محنت کشوں کے قتل عام سے لے کر 1983ء میں سندھ میں ہونے والی عوامی بغاوت میں کسانوں اور نوجوانوں کے قتل عام تک ظلم و ستم کی کئی داستانیں رقم کی گئیں۔
در حقیقت یہ ظلم اور جبر پاکستانی حکمران طبقات کا ملک کے محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں سے انتقام تھا کہ جنہوں نے تقریباً ایک دہائی قبل اس استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کرنے کی جرات کی تھی اور ملکیت، دولت، زمین اور ذرائع پیداوار کے رشتوں کو چیلنج کیا تھا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں بھٹو کی جانب سے کی جانے والی نیشنلائزیشن نے حکمران اشرافیہ کے کچھ حصوں پر ضرب لگائی تھی جس کی پاداش میں اس کا عدالتی قتل کیا گیا۔ کال کوٹھڑی سے بھٹونے لکھا کہ ’’ میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلاہوں کہ میں نے دومتضاد مفادات کے حامل طبقات میں آبرو مندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، مگر موجودہ فوجی بغاوت ثابت کرتی ہے کہ متضاد طبقات میں مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ اس ملک میں ایک طبقاتی کشمکش ناگزیر ہے، جس میں کوئی ایک طبقہ ہی فتح یاب ہوگا۔ ‘‘
ضیا حکومت اور اس کی کارندہ فاشسٹ رجحانات رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے قدامت پرست جبر نے فن، ادب، موسیقی، ثقافت، سینما اور بحیثیت مجموعی سماجی زندگی کا دم گھونٹ دیا۔ صنعتکار اور زمین دار جشن منا رہے تھے۔ انہیں نہ صرف بھٹوکی طرف سے قومی تحویل میں لی گئی صنعتیں بمعہ تلافی واپس مل گئیں بلکہ فوجی آمریت نے محنت کشوں کو کچلنے کی خاطر سفاک سرمایہ دارانہ قوانین بھی لاگو کیے۔ اوریہ سب اسلام کے نام پر کیا گیا۔
امریکی اور یورپی سامراج اس ظالمانہ آمریت کی حمایت میں تھے اور ان عوام دشمن پالیسیوں سے فائدے اٹھا رہے تھے۔ آج ان کی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے بھاشن، منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا سب سے بڑا جرم افغانستان اور اس خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ضیا حکومت کی سرپرستی میں اسلامی بنیاد پرستوں کی دہشت گردی کو فروغ دینا تھا۔ بائیں بازو اور انقلابی قوتوں کے خلاف اس نام نہاد جہاد میں جماعت اسلامی آمریت کی معاون تھی۔ وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی مخبری کرتے اور ان کی گرفتاری، تشدد اور قتل میں شریکِ جرم تھے۔
ضیا نے پیٹی بورژوازی (درمیانے طبقے) اور سماج کے پسماندہ حصوں کی حمایت حاصل کر نے کے لیے سماج میں اسلام کے نفاذ کو ماشل لا کا جواز بنایا اور انتہائی سفاکی سے پاکستان کو زمانہ قدیم کی ایک مذہبی ریاست بنانے کی کوشش کی۔ 1981ء میں اس نے کہا کہ ’’پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اسرائیل سے یہودیت کو نکال دیا جائے تو وہ ریت کے گھروندے کی طرح گر جائے گا۔ پاکستان سے اسلام کو نکال کر سیکولر ریاست بنا دیا جائے، تو یہ بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘ مغربی سامراجی ضیا کی اِن رجعتی وارداتوں میں اس کے ساتھ تھے۔
ماضی کے بادشاہو ں کی طرح ریاستی طاقت اور مذہبی جنون نے ضیا کو پاگل کر دیا اور وہ اپنے سامراجی آقاؤں سے سرکشی کرنے لگا۔ اس کا طاقت کا یہ نشہ امریکیوں کے لیے وبال جان بننے لگا۔ اعلیٰ جرنیلوں، امریکی سفارتکاروں اور فوجی اہلکاروں سے بھرے سی ون تھرٹی طیارے کے ’حادثے‘ نے سامراجیوں کی ضرورت پوری کر دی۔
آج چالیس برس بعد بھی ضیا کی مہلک وراثت ریاست، سماج، اخلاقیات اور سیاست پر حاوی ہے۔ اس کا متعارف کروایا ہوا کلاشنکوف کلچر، منشیات کی سمگلنگ اور استعمال، دہشت گردی، رجعتی سماجی رویے، خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، مذہبی اور فرقہ وارنہ منافرتیں سماج میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ضیا کے بر سر اقتدار آنے پر پاکستان میں ’متوازی‘ یا کالی معیشت کا حجم صرف5 فیصد تھا۔ آج یہ73 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ منشیات کے تاجروں، دہشت گرد ملاؤں، پراپرٹی ڈیلر سیٹھوں، ریاستی اداروں کے حکام، سیاست دانوں اور نو دولتی سرمایہ داروں کی بے پناہ دولت ہی وہ کالا دھن ہے جو ایک ناسور کی طرح پاکستان کی معیشت اور سماج کو کھائے جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں، ریاستی ادارے، مافیا نیٹ ورک اور مذہبی فرقہ وارنہ جھتے سب اس سے کنٹرول ہوتے ہیں اور اشرافیہ مذہب کے نام پر پرہیز گاری کے لائسنس اور تحفظ حاصل کرلیتی ہے۔
سارے ملک اور بالخصوص پاکستانی پرولتاریہ کے گڑھ کراچی میں ایم کیو ایم جیسی نسلی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کو محنت کشوں کی طبقاتی جڑت توڑنے کے لیے پروان چڑھایا گیا۔ تمام مسلم لیگی لیڈر ضیا کے بغل بچے تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ضیا کے کئی سیاسی خدمتگار مثلاً رحمان ملک اور یوسف رضا گیلانی وغیرہ آج پیپلز پارٹی کے نامور لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال محض افراد کا نہیں، بلکہ اس جابر حکمران کی پالیساں آج بھی سماج کو برباد کر رہی ہیں۔ قانونِ توہین، حدود آرڈیننس اور دیگر ایسے قوانین کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں پر جبر جاری ہے۔ بعد کی کوئی بھی نام نہاد جمہوری حکومت ان قوانین کو ختم نہیں کر سکی اور نہ ہی وہ اس سماجی و معاشی نظام میں رہتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت پسند 73ء کے آئین کا ورد تو کرتے ہیں لیکن ضیا کی جانب سے اس میں کی گئی تبدیلیوں پر خاموش ہیں۔
افغانستان کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے ضیا الحق کی مذہبی دہشت گردی کو امریکی سامراج اور خلیجی بادشاہتوں کی پشت پناہی اور مالی معاونت حاصل تھی۔ آج چالیس سال بعدبنیاد پرست دہشت گردی کا یہ دیو ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بربادی پھیلا رہا ہے اور اب کئی دوسرے خطوں تک پہنچ رہا ہے۔ ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے اور اس رجعت اور بربادی کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے پر جبر، طبقاتی جڑت کو تقسیم اور سرمائے کی حکومت کے خلاف ہونے والی طبقاتی جدوجہد کو تشدد کے ذریعے کچلنا ہے۔ آج بھی حکمران طبقہ محنت کش عوام کو مجبور اور محکوم رکھنے کے لیے انہی طریقوں کا استعمال کر رہا ہے۔
ضیا کی موت کے بعد طبقاتی جدوجہد کو زائل اور بے سمت کرنے کے لیے پیسے کی جمہوریت کو استعمال کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا کردارکسی سے کم نہیں۔ فرسودہ پاکستانی سرمایہ داری نے ایک کہنہ پرست ریاست تشکیل دی ہے جس میں ضیا کی باقیات اور میراث جاری و ساری ہیں۔ سماجی، معاشی، ثقافتی اور اخلاقی رجعت اس کی پیداوار ہیں۔ اس نظام کا خاتمہ اور اسے تبدیل کیے بغیر اس جبر سے سماج کی نجات ممکن نہیں ہے۔ چار دہائیوں سے جاری یہ بھیانک خواب اب صرف سوشلسٹ انقلاب کے سرخ سویرے سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔