احمد پور شرقیہ: حالات کے جبر کا سانحہ!

تحریر: لال خان
ویسے تو ہمارے جیسے معاشروں میں سانحے ا و ر تبا ہ کن حا د ثات ایک معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن ان حادثات کے معمول میں بھی ایسے واقعات اور سانحے ہوتے ہیں جو اپنی شدت اور دلخراش اذیت کی انتہاؤں سے اس معمول کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ احمدپور شرقیہ کے قریب ہونے والا فیول ٹینکر کا حادثہ جس میں200 کے قریب عام انسان جل کر مرگئے، ایک ایسا ہی معاشرے کے شعور کو جھنجوڑ دینے والا سانحہ تھا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ موجودہ عہد کے رحجانات، سیاست اور صحافت میں یہ بھی ایک معمول بن گیا ہے کہ ایسے دل سوز واقعات پر بہت ہی دکھ اور درد کا اظہار ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے معاشرے میں ایک صف ماتم بچھ جاتی ہے اور حکمران و سیاست دان اس کی اذیت ناک اعصابی تکلیف سے عوام میں مزید مایوسی اور دلبرداشتگی پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس مالیاتی سیاست کی حزب اختلاف حکومت کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ حکومت اس مخصوص سماجی و ریاستی شعبے کے نچلے اہل کاروں پر الزام دھر دیتی ہے اور ریاستی ادارے ایک دوسرے کو اور اشخاص کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اپوزیشن حکومت سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیتی ہے اور ہر حکومت حادثے کے شکار افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے مالیاتی امداد کے پیکج کا اعلان کردیتی ہے۔ کچھ دن یہ تکرار چلتی ہے پھر کوئی اور نان ایشو یا پھر اس سے بڑا حادثہ خبروں کی زینت بن جاتا ہے۔ لیکن ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تباہ کاریوں اور ایسے واقعات کی مقدار اور تواتر میں تیزی آتی جارہی ہے۔ کہیں سیلابوں سے بستیاں اجڑتی ہیں اور کہیں زلزلوں اور بمباریوں سے غریبوں کے گھروندے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ دہشت گردی کا معمول اتار چڑھاؤکے ساتھ جاری ہے۔ ٹریفک کے حادثات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکہ زنی اور جرائم بڑھ رہے ہیں۔ بھتہ خوری اور بچوں کے اغوا کی وارداتوں کے سلسلے بھی کبھی تیز اور عیاں ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔
لیکن اس عمومی تصویر کے مختلف خلیوں اور ملک گیر حادثات کے ان واقعات کی کڑیوں کوجوڑنے اور ایک وسیع اور گہرا تناظر تخلیق کرنے کی کاوشیں کم ہی ملتی ہیں جن سے ان حادثات کی وباکی جڑوں اور وجوہات کا کھوج لگایا جاسکے اور انکی اقتصادی، سماجی اور دوسری سائنسی وجوہات منظر عام پر لائی جاسکیں کہ ان ظلمتوں کا باہمی تعلق اور رشتہ معاشرے کے ارتقا کے ساتھ کیا ہے اوران میں اضافے کی وہ کونسی وجوہات ہیں جو اس نظام معیشت اور معاشرت کی تنزلی سے جڑی ہوئی ہیں اور اسی کا نتیجہ ہیں۔ عمومی طور پر مبلغ، تجزیہ کار اور یہاں کی تعلیم یافتہ اشرافیہ ایسے سانحوں کو بدنصیبی یا مقدر سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نہ تو کوئی آسمانی قہر ہے اور نہ ہی یہ ہمارے نصیبوں میں لکھا ہوا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرے اور ریاست کا ہر ادارہ اتنا گل سڑ چکا ہے کہ اس کے فرائض اور کارکردگی ادا کرنے کی صلاحیت بری طرح مجروح ہوچکی ہے۔ عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’ہر حادثہ پہلے سے چلی آرہی کسی گہری ضرورت کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ یہاں یہ کونسی طویل ضرورت تھی جس کی بنیاد پر یہ فیول ٹینکر الٹا، اس کو حادثہ پیش آیا، تیل بکھر گیا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں غریب ٹوٹ پڑے اور پھر آگ لگ گئی جس میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاں ہوا؟ اگر ہم غور کریں تو ٹرک کی بریکوں کی خرابی سے لے کر برن یونٹوں کی قلت تک ایسے حادثات کو روکنے کے لیے جن لوازمات کی ضرورت تھی یہ ریاست اور نظام انکو پورا کرنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ ’’حادثات کی یہ ضرورت‘‘ بڑھتی چلی جار ہی ہے۔ ان تمام شعبوں کو درکار وسائل، ٹریننگ، چیکنگ اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت اس حد تک بوسیدہ ہوچکی ہے کہ بس گزارا ہورہا ہے ساراملک ایک رِسک پر چل رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رِسک بڑھتا جارہا ہے۔ ضیاالحق نے یہ مذہبی نعرہ دیا تھا کہ ’’بات اب تک بنی ہوئی ہے۔‘‘ بات بنی نہیں ہوئی ہے بلکہ بہت بگڑ چکی ہے اور مزید بگڑتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کے لیے بگڑی ہوئی جو محروم اورمجبور ہیں، جن کی محنت کی کمائی کو ان سے لوٹ کر حکمرانوں کی تجوریاں بھرتی جا تی ہیں، سامراجیوں کی لوٹ کھسوٹ چلتی ہے اور کالے دھن کے نیک نام ان داتاؤں کی ڈاکہ زنی کی ہوس پوری ہوتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ان جھلس کر مرنے والے غریبوں پر بعض حلقوں اور مبلغین نے یہ دلسوز الزام عائد کیا ہے کہ تیل لوٹنے کے لالچ کی وجہ سے ان کوجل کر مرنے کے سزا ملی ہے۔ جس معاشرے میں مانگ اور محرومی ایک رستا ہوا کرب ناک زخم بن جائے وہاں یہ عام لوگ پائی پائی بچانے اور کہیں سے بھی اپنی ضروریات حاصل کرنے کے لیے اتنا مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ اس بہتے ہوئے تیل کی جانب بھی لپک جاتے ہیں جس کے پھٹنے سے انکی زندگیاں ختم ہونے کے خدشات بھی ہوتے ہیں۔ اس خلش اور تڑپ کو وہ حکمران کہاں محسوس کرسکتے ہیں جو بھوک کے درد اور افلاس کی نفسیات سے جنم لیتی ہے۔ وہ تمام دولت جو یہ معاشرہ پیدا کرتا ہے، اس نظام کے بحران سے وہ خود اس سے محروم ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس دولت کو مفت علاج اور تعلیم فراہم کرنے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، روٹی، روزی، پانی، بجلی اور دوسری معاشرتی ضروریات کی فراہمی کے لیے صرف ہونا چاہیے تھا، وہ ہمارے حکمرانوں اور انکے مختلف سامراجی آقاؤں کی ہوس کی بلی چڑھتی جارہی ہے۔ نہ صرف یہاں کے عام انسان اتھاہ غربت کی گہرائیوں میں گررہے ہیں بلکہ یہاں کے سماجی بہبود کے ادارے بھی اس سماجی دولت سے محروم ہو کر بکھر رہے ہیں۔ ان اداروں کو بدعنوانی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ان کی نجکاری کے معنی ان کو عوام کی سہولیات کی بجائے بالادست طبقات کے منافعوں کی زنجیروں میں جکڑ دیناہے۔ نجکاری براہ راست محرومی کو جنم دیتی ہے۔ ریاستی ہسپتالوں میں علاج کیسے ہوگا جب ریاست ہی لٹ رہی ہے۔ کرپشن معاشرے میں ایک امر بیل کی طرح پھیل گئی ہے اور پورے اقتصادی نظام میں اس طرح سرائیت کرچکی ہے جیسے کسی صحت مند جسم کے اعضا میں کینسر گھس جاتا ہے۔
ایسے میں سطحی تجزیے اور بھی پیش ہوسکتے ہیں، ان پر زیادہ تر گفتگو اور سیاسی وعدالتی تماشے تو ہوسکتے ہیں لیکن ان سے نہ مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی اس معاشرتی اور اقتصادی تنزلی کو روکاجاسکتا ہے جو سماج کو گھائل کررہی ہے۔ ا س نظام میں اب یہی ممکن ہے۔ ان غریبوں اور محنت کش طبقات کو یہاں صرف بربادیاں اور ذلتیں ہی ملتی ہیں، یہاں کی اخلاقیات اور اقدار کے ان داتا چاہے اس کو مقدر کا کھیل کہیں یا پھر بدنصیبی، یہ وہی ہوتا ہے جو ان کے سرمایہ دار جاگیردار مالکان اس حاکمیت اور نظام میں اپنا بنا تے ہیں اور غریبوں کا بگاڑتے ہیں۔ یہ چند خاندان پورے معاشرے کو لو ٹ رہے ہیں لیکن اس نظام زر کے خلاف کوئی فیصلہ کن لائحہ عمل دینے کے لیے موجودہ مروجہ سیاست تیار نہیں۔ کیونکہ مالیاتی جمہوریت میں سیاست زر کی لونڈی کے علاوہ اور ہوبھی کیا سکتی ہے! اس کا متبادل سماجی ومعاشی نظام لانا تو درکنار اس کا نام لینا بھی یہاں ممنوع ہے۔ لیکن جو اس معاشرے کو چلاتے ہیں اوراس کی دولت پیدا کرتے ہیں وہ اتنے بے خبر بھی نہیں ہیں۔ وہ یہ تمام ظلم واستحصال جہاں برداشت کررہے ہیں وہاں ان کی رگوں اور شریانوں میں بغاوت کا شور بھی زور پکڑ رہا ہے۔ آخر ان کو اپنا مقدر اپنے ہاتھ سے بنانا اور سنوارنا تو ہے!