بالادستی

تحریر: لال خان

بالآخر نواز شریف اور مریم واپس بھی آگئے اور جیل بھی چلے گئے۔ لیکن اس ملک کی مروجہ سیاست میں تصادم اور تفریق اتنی زہریلی ہوچکی ہے کہ ان کے حریف‘ رینجرز کے مسلح اہلکاروں سے ان کے پرخچے اڑوانے کے لئے تڑپ رہے تھے۔ کارپوریٹ میڈیا کی اکثریت کا ردِ عمل انتہائی زہریلا تھا۔ یہاں آج کل کے سرکاری سیاستدانوں کے چند سو کے جلسوں کو کیمروں کے کمال سے ہزاروں لاکھوں کا بنا کے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن نواز لیگ کی ریلیوں کا کم و بیش مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔ لیکن میاں صاحب بھی شاید اس سب کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ اس سے ہٹ کر ان نعروں کو سننا چاہتے تھے جو ائیرپورٹ پر ان کے استقبال کے لئے آنے والوں نے لگانے تھے۔ لیکن وہاں تو صرف سناٹا تھا۔ لاہور میں کافی بڑی تعداد میں لوگ نواز لیگ کی ریلی میں آئے لیکن شہباز شریف نے انہیں گورنر ہاؤس تک لے جانے پر ہی تکیہ کیا۔ اب یہ کون جانے کہ یہ شہباز شریف کی اپنی حکمت عملی کا نتیجہ تھا یا پھر کسی ڈیل کے تحت طے شدہ تھا۔ لیکن نواز شریف کے آنے سے تین چار دن قبل مریم نواز نے جو بیان دیا کہ پاکستان میں مسلم لیگ کی قیادت استقبال کے لیے کچھ زیادہ پرجوش نہیں ہے، وہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ مریم نے دوسری اور تیسری سطح کے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے براہِ راست اس ریلی کو منظم کرنے کے لئے رابطے بھی کئے۔ یوں ان کے لئے ائیر پورٹ کا سناٹا زیادہ غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ بات اب مزید واضح ہوگئی ہے کہ شہباز شریف کم ازکم پنجاب میں حکومت کے حصول کے لئے پرامید ہیں اور اسکے لئے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا رہے ہیں۔ تاہم پچھلے کچھ ہفتوں میں نواز شریف کی غیر موجودگی سے شہباز شریف کو کم از کم یہ اندازہ تو ہوگیا ہو گا کہ مسلم لیگ کی مقبولیت بڑی حد تک نواز شریف (اور حالیہ عرصے میں مریم) کی شخصیت سے وابستہ ہے۔ اس میں مریم کا کردار بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن شہباز شریف کی سوچ سٹیٹس کو‘ کو قائم رکھنے پر مبنی ہے۔ اسی لیے انہوں نے استقبالیہ ریلی کو ایک انتخابی جلسے اور ووٹوں کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ دوسری جانب مسلم لیگ کوئی روایتی عوامی پارٹی بھی نہیں۔ بلکہ اس کا خمیر ہی سرمایہ دارانہ سیاست سے اٹھا تھا۔ لیکن پھر اس نظام کا انتشار اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں میں تضادات ایسے تصادم کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ مسلم لیگ نے کبھی کوئی سنجیدہ عوامی تحریک نہیں چلائی۔ لیکن جب معاشروں میں کوئی وسیع عوامی تحریکیں نہ بھی چل رہی ہوں تو بھی ایک بحران زدہ نظام جو ناگزیر سماجی اور اقتصادی زخم عوام پر لگاتا ہے اس سے معاشرتی بے چینی مختلف شکلوں میں ابھر کر عدم استحکام کو جنم دیتی ہے۔جس سے ناگزیر طور پر حکمران طبقات اور ان کے اداروں میں دراڑیں بھی پڑتی ہیں۔ آج یہ کیفیت اپنی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہے۔
عوامی اور ترقی پسندانہ نقطہ نظر سے نوا ز شریف کا ماضی قطعاً درخشاں نہیں ہے۔ بلکہ ضیا الحق کے ابتدائی احسانات سے لے کر اتفاق فونڈری اور دوسری صنعتوں میں شریف خاندان نے مزدوروں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں۔ نواز لیگ نجکاری اور دوسری مزدور دشمن پالیسیوں کی علمبردار پارٹی رہی ہے۔ لیکن آج کا نواز شریف اسی حاکمیت سے برسرپیکار ہے جس نے اس کو ابتدا میں پروان چڑھایا تھا۔ لیکن نواز شریف کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اسکے مدمقابل عمران خان سے لے کر پیپلزپارٹی تک ’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘ بنے ہوئے ہیں۔ بالخصوص عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے سب سے رجعتی حصوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ایسے میں نواز شریف کی یہ مزاحمت اس خلا کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے جو عوام میں کسی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہے۔
عمران خان کے پاس نہ کوئی نظریہ ہے نہ لائحہ عمل ۔ بس ذاتی جاہ و جلال کیلئے وزیر اعظم بننے کے جنون اور ضد میں ایک زہریلی مہم چلا رہا ہے۔ وہ اس انتخابی معرکے میں دلیری کی نعرہ بازی کرتا پھر رہا ہے جس میں اس کا مخالف پابند سلاسل ہے۔ اسکے حمایتی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مقتدر قوتوں کے رحم وکرم کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ چند دنوں کے لئے میڈیا ’ہائپ‘ نہ دے تو تحریک انصاف لوگوں کی سوچ سے ہی محو ہو جائے۔ لیکن عمران خان کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو اکثریت دلوا بھی دی جاتی ہے تو مقتدر قوتیں اس کی غیر مستحکم نفسیاتی اور مزاجی کیفیت کی وجہ سے اسے اس کے خواب سے شاید محروم ہی رکھیں گی۔ دوسری طرف نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہا ۔ لیکن اس دوران وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ اس نظام میں ایک صحت مند پارلیمانی جمہوریت استوار کی جاسکتی ہے۔ لیکن تیسری بار رسوا کئے جانے پر وہ خاصا برہم ہوگیا۔ اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فارغ کرنے والی قوتوں سے اس حد تک ٹکرا گیا کہ خصوصاً پنجاب کے حکمران طبقات میں ایسی کوئی مثال ستر سال میں سامنے نہیں آئی۔ اس کا بنیادی گلہ یہ ہے کہ’ حکومت کسی کی ہوتی ہے اور حکمرانی کوئی اور ہی کرتا ہے۔‘ وہ اس کیفیت کو برداشت کرتا گیا لیکن پھر ایک وقت پر تنگ آکر حقیقی حکمرانوں سے ٹکرا گیا۔ لیکن نہ تو اس کی پارٹی ایسی لڑائیاں لڑنے کے لئے بنی تھی نہ ہی اس کا طبقہ ایسی جدوجہد کا متحمل ہوسکتا ہے۔ وہ جمہوریت کی بالادستی اور ووٹ کو عزت دینے کی باتیں کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کا اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ اس قابل ہے کہ یہاں مغربی طرز کی سرمایہ دارانہ جمہوریت پروان چڑھ سکے؟ اس ملک کا بحران زدہ نظام (جس کا نواز شریف کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے) اسے پھر اسی عدلیہ سے رہائی اور سیاسی عمل میں شراکت کے لئے رجوع کروائے گا۔ لیکن جن عدالتوں نے کوئی فیصلہ کر دیا ہو وہ بھلا ’ریویو‘ میں فیصلے کو کیسے بدل سکتی ہیں۔
نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور تمام سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں جمہوریت اور انتخابات میں سب سے زیادہ مالیاتی بدعنوانی اور ہیرا پھیری ہوتی ہے۔ اس نظامِ سرمایہ میں صرف سرمائے والے ہی سویلین اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور یہ پیسے انہوں نے اپنے خون پسینے سے نہیں کمائے ہوتے۔ جب کسی معاشی نظام کا بحران سنگین ہوجاتا ہے تو اس کو چلانے والے ادارے بھی منڈی کی جنس بن جاتے ہیں جنکی بولیاں لگتی ہیں۔ جس کے پاس زیادہ دولت ہوتی ہے وہ ان کو خرید بھی لیتا ہے۔ نوا ز شریف اور اس کے سیاسی پیروکاروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بیمار نظام میں ایک صحت مند جمہوری طرز حکومت کی یوٹوپیائی خواہش اور مانگ کر رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ’’روس کا سرمایہ دار طبقہ تاریخی طور پر اتنا تاخیرزدہ تھا کہ جمہوری نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ بالکل اسی طرح یہاں کا سرمایہ دار طبقہ تاریخی طور پر اتنا تاخیرزدہ، بدعنوان اور کمزور ہے کہ مقتدر قوتوں سے کبھی ٹکر لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
نواز شریف کے مخالف اقتدار کے انعام کے لئے للچا رہے ہیں۔ لیکن ایسے میں جو جمہوری حکومت آئے گی وہ پہلے سے زیادہ مفلوج، محدود اور غیر مستحکم ہوگی ۔ نواز شریف خود ان حقائق کو مانے نہ مانے لیکن اس کی حکومت سے سبکدوشی سارے زمانے کے سامنے عیاں کر رہی ہے کہ اس نظام میں جمہوریت امیروں کے لئے ایک نعرہ اور غریبوں کے لئے ایک فریب ہے۔ یہاں لبرل انٹیلی جینشیا کی جانب سے آزادی اظہار اور جمہوری حقوق کا مسئلہ زیادہ اٹھایا جاتا ہے لیکن غریب عوام کے معاشی اور سماجی حقوق کا ذکر نہیں ہوتا۔ اور جب لوگ بنیادی ضروریات سے محروم رہیں گے تو معاشرے کو کبھی استحکام اور آزادی حاصل نہیں ہو گی۔