سرمایہ داری اور جنسی جرائم

تحریر: سیفی

معاشرتی بگاڑ، گراوٹ اور جرائم کی بنیادی وجہ مروجہ نظام کی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی ہوتی ہے۔ بنیادی ضروریات کا مطلب محض روٹی اور پانی بھی نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ آج تک کی نسل انسان کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں جو سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی پائی اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر سہولت و ضرورت پر انسانوں کا مشترکہ حق ہے۔ جس میں جدید سائنسی علوم کی تعلیم، صحت بخش خوراک، مناسب رہائش جس میں موسمی اعتبار سے ٹھنڈ اور گرمائش کی سہولیات موجود ہوں، باعزت روزگار، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا آزادانہ استعمال، بولنے کی آزادی وغیرہ شامل ہیں۔ مروجہ سماجی ڈھانچوں میں جنسی ضروریات کی تسکین بھی وسائل کی متقاضی ہے جو ہر کسی کو میسر نہیں ہیں۔ ان ضروریات سے محرومی اور معاشی اونچ نیچ جہاں ہر طرح کے سماج دشمن رویوں کو جنم دیتی ہے وہاں وحشیانہ حد تک بیمار لوگ دل دہلا دینے والے جرائم کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔
حال ہی میں ہمیں قصور میں 7 سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کا دلسوز واقعہ دیکھنے کو ملا ہے۔ کئی دنوں کی تفتیش کے بعد حکمرانوں نے زینب کے ہمسائے اور قاتل ’عمران نقشبندی‘ کی گرفتاری کا اعلان بھی کر دیا اور اس سے پہلے ہونے والے اس قسم کے سات جرائم اور اموات کا ذمہ دار بھی اسی کو بتایا گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قاتل نے اس سفاک واقعے کے بعد ایک مذہبی تقریب میں بھی شرکت کی۔ یہ ان رجعتی عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے جو ایسی درندگی کی وجہ الہامی اقدار سے دوری گردانتے ہیں۔ لیکن اس قدر سفاک نوعیت کا نہ تو یہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی سرمایہ داری کی تنزلی میں آخری۔ اس قسم کے واقعات آئے روز گلی محلوں میں دیکھنے ملتے ہیں جن پر عزت کی مہر لگا کے چپ سادھ لی جاتی ہیں۔ اسی ایک ہفتے کے اندر ہی پختونخواہ میں اسی قسم کی درندگی کے واقعات دیکھے گئے ۔ لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے حالیہ واقعات جب منظر عام پر آئے ہیں تو انہیں بھی ایک طرف سیاسی اشرافیہ نے اپنی سیاست چمکانے اور الزام تراشی کے لئے استعمال کیا ہے تو دوسری طرف میڈیا نے ہر طرح کی سنسنی پھیلا کر ریٹنگ بڑھائی ہے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جو اِس نظام کے رکھوالوں کے مکروہ کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہاں کی نام نہاد ’سول سوسائٹی‘ اور این جی اوز بھی اپنے کاروبار چمکانے کے لئے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میڈیا بلادکار کی شکار ان معصوم بچیوں کا ہر 5 منٹ بعد بریکنگ نیوز کی شکل میں پھر بلادکار پہ بلادکار کرتا ہے۔
یہ درست ہے کہ بچوں کو سکولوں میں سیکس ایجوکیشن دی جا نی چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں ڈھائی کروڑ بچے خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سکولوں سے باہر ہوں اور 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو وہاں سیکس ایجوکیشن بہت آگے کا سوال بن جاتا ہے۔ ویسے بھی یہاں بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ سکولوں ، مدرسوں اور گلی محلوں میں ہی ہیں۔ پھر اگر بچے غیر محفوط ہیں تو پھر بڑوں کی عزتیں کہاں محفوظ ہیں ۔ یہاں فیکٹریوں سے لے کر جاگیروں اور دفاتر تک ہر روز کی مرد و زن کی عصمتیں نوکری بچانے میں لٹتی ہیں۔
جنسی آزدی ایک حق ہے لیکن اس حق کو آئینی بنا دینے سے بھی سماج کی رگوں میں سرایت شدہ گھٹن اور رجعت کے زہر کا خاتمہ اس وقت تک مشکل ہے جب تک ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے سماج کی بنیادی ساخت کو یکسر تبدیل نہ کر دیا جائے۔ بھارت میں لِو اِن ریلیشنشپ (Live In Relationship) یعنی ایک لڑکا اور لڑکی باقاعدہ شادی شدہ ہوئے بغیر بھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود دہلی کو دنیا کے ’ریپ کیپیٹل‘ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ 2016ء کی ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر روز 106 بلادکار کے واقعات دیکھنے کو ملے، جن میں بیشتر 12 سال کی عمر کی بچیاں شکار ہوئیں، 94.6 فیصد واقعات میں مجرم قریبی رشتے دار اور ہمسائے ہی پائے گئے۔ ڈان کی جنوری 2018ء کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر روز 49 بچوں کا بلادکار ہوتا ہے جبکہ 28 بچے قتل کر دیے جاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں بھی تمام تر قانون سازیوں کے باوجود بلاد کار ختم نہیں ہوئے۔ امریکہ میں ہر 98 سیکنڈ میں کوئی انسان اس درندگی کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح رپورٹوں کے برعکس کہیں زیادہ ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان قاتلوں میں ماں، باپ، بہن، بھائی ہی ملوث ہوتے ہیں۔ سماجی گھٹن اور بے حسی کا اندازہ یہیں سے لگا یا جا سکتا ہے کہ کیسے کوئی اپنے بچوں کو جھوٹی عزت کے نام پر سفاکی سے قتل کر سکتا ہے۔ کراچی جیسے صنعتی شہروں سے لیکر قبائلی علاقوں تک کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔
دوسری طرف نوجوان جوڑوں کی خودکشیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سوں کی نظر میں مروجہ سماجی اقدار میں اپنے احساسات کو امر کرنے کا یہی راستہ بچ جاتاہے۔ ان نوجوانوں کا حق ایک ساتھ مرنا نہیں بلکہ ایک ساتھ زندگی کے مسرت بھرے لمحے جینا ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری نے اس زندگی کو ہی اتنا اجیرن کر دیا ہے کہ موت کو گلے لگانا زیادہ آسودہ لگنا شروع ہو جاتا۔ یہاں جنسی ضروریات پر بات ایک جرم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جنسی ضروریات کی تکمیل کا جو ایک مستند ادارہ ’شادی ‘کی صورت میں موجود ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ سماج کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ اور منافقت کا شکار ہے۔ لیکن شادی بیاہ کے تانے بانے بھی معاشی استحکام سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں والدین کو سب سے بڑی پریشانی اولاد، بالخصوص لڑکیوں کی شادی کی ہی رہتی ہے۔ اب تو شادی کے لیے بینکوں نے قرض دینے کی تشہیر شروع کر دی ہے۔ کئی لڑکیاں ان اخراجات کی وجہ سے بن بیاہے عمر رسیدہ ہوتی جا رہی ہیں، جبکہ کئی اور اپنے سے دوگنی عمر کے شخص سے صرف پیسے کی وجہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا پسند کرتی ہیں ۔ یہی حال ہمیں نوجوان لڑکوں کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔ ان معاشی مسائل کی وجہ سے بہت سارے افراد پھر جنسی گھٹن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی جنسی گھٹن نفسیاتی بیماریوں اور ریپ وغیرہ کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے۔
دوسرے جرائم میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ قانون سازی بھی اپنے مفادات و ترجیحات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ جن سے جرائم کے تدارک کی بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مادی حالات انسانی شعور کو بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی نظام کی تنزلی سماج پر متضاد اثرات مرتب کرتی ہے۔ معاشرے جب آگے نہیں بڑھ پاتے تو ناگزیر تو پر تعفن زدہ ہو جاتے ہیں۔ شعور جو انسان کو تخلیق اور تعمیر کی معراج پر لے کر جاتا ہے اسی کی پستی اور پراگندگی اسے وحشی جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ یہی سب کچھ ہمیں ایسی درندگیوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کے مبلغین انفرادیت کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں لیکن پیداواری عمل سے بیگانہ انسان ناگزیر طورسماج سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جس قدر معاشی بحران میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر نفسا نفسی اور معاشرتی پراگندگی میں بھی اضافہ ہو تا ہے جس کی عکاسی سماج میں موجود ذہنی بیماریوں، گھریلو تشدد، منشیات کے استعمال، جنسی جنون، تنہائی اور خود کشیوں کی شرح میں مسلسل اضافے سے ہوتی ہے۔
حکمران طبقہ جرائم کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ایک طرف پولیس، عدلیہ، جیل اور تھانے وغیرہ اور دوسری طرف تعلیمی ادارے اور نصاب وغیرہ محنت کشوں کو حکمران طبقات کے تابع کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن جرائم کا ارتکاب معاشرے میں طاقتور کی طرف سے ہوتا ہے ان کو ہمیشہ نظر اندازکیا جاتا ہے مگر دوسری جانب چھوٹی چوریاں اور سٹریٹ کرائم جیسے جرائم پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں زیادہ سنگینی سے دکھایا جاتا ہے۔ پولیس اور اس جیسے دوسرے ادارے مختلف سماجی طبقات پر مختلف طریقے سے نظر رکھتے ہیں۔ طبقاتی قانون حکمرانوں کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے اور اس قانون کو جعلی جمہوریت کے پردے میں پارلیمنٹ سے منظور کروایا جاتا ہے۔ اس نظام میں سماجی فلاح و بہبود کی بجائے ذاتی مفادات کے تحفظ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اسے انسان کی فطری و جینیاتی صفت سمجھا جاتا ہے۔ یہ مقابلہ بازی کا نظام ہے۔ انفرادی کامیابی کے حق میں باہمی مفاد اور تعاون کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ نتیجتاً بیگانگی، غربت، مقابلہ بازی، لالچ اور عداوت ہی اس سماج میں جرائم کا سبب بنتے ہیں۔
لیکن طبقات پر مبنی یہ نظام نہ تو حتمی ہے اور نہ ہی انسانیت کا مقدر۔ یہ ساری ذلتیں اور محرومیاں مجتمع ہو رہی ہیں۔ بظاہر سکوت کے نیچے بھی بے چینی، اضطراب اور بغاوت پک رہی ہوتی ہے۔ بعض اوقات وقتی خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جب حالات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں تو پھر پلٹ کر جواب دینے کی خواہش بھی جاگتی ہے۔ ذلت اور استحصال کے مارے کروڑوں محنت کش انسانوں کا یہی وار اس نظام کے لئے سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں موت کا پروانہ ثابت ہوگا۔ سوشلزم ہی وہ سماج تعمیر کر سکتا ہے جہاں بیگانگی، ذاتی بقا کی جدوجہد، اونچ نیچ اور محرومیوں کا خاتمہ ہو اور ہر طرح کے جرائم قصہ ماضی بن جائیں۔