تحریر: لال خان
حالیہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے عمل میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شدت سے شخصی، ذاتی اور سطحی ایشوز ہی زیر بحث رہے ہیں۔ میڈیا میں بھی اسی عہد کی کیفیت کی عکاسی ہورہی ہے۔ اصل سلگتے ہوئے عوامی مسائل سے فرار اختیار کرنے کے لئے شخصیات اور ذاتیات کواتنا ابھار دیا جاتا ہے کہ خلقت کے دکھ، درد اور محرومیوں کے کسی حقیقی حل کے بارے میں زیادہ سوال نہ اٹھائے جائیں۔ عوام کی سوچ کو ظاہریت پرستی کی مصنوعی فلم میں الجھا دیا جاتا ہے۔ پسماندہ معاشروں میں ریاستی وغیر ریاستی ادارے اور ذرائع ابلاغ شخصیات کو مبالغے کی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ عوام کو فریب دینے کے لئے طرح طرح کے روپے دھارے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال سماجی ٹھہراؤ کے ادوار میں اس نہج پر پہنچ جاتی ہے کہ فلاں دکھوں اور ذلتوں کا نجات دہندہ بن کر آئے گا اور کسی دیو مالائی کردار کی طرح جادو کی چھڑی سے عوام کے سارے رنج وغم دور کردے گا۔ جب سیاست سے نظریات اور معاشی و سماجی بحران کے حل کا سائنسی لائحہ عمل ہی غائب ہو جائے تو پھراس سیاست میں ان مفروضوں کا بھاری کرداربنایا جاتا ہے کہ کون شخصیت دیانتدار اور ’’صادق وامین‘‘ ہے، کون بہادر اور نڈر ہے، کون زیادہ نیک و پرہیزگار اور مخیر ہے وغیرہ۔ یہاں تک کہ بعض منفی رحجانات کے حامل ایشوزکو عظمت و بڑائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً خواتین کی جانب مردانگی(Masculine) کے رویوں کو بڑے دلیرانہ انداز میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ’’مردانگی‘‘ پر مبنی پرکشش شخصیات گھڑی جاتی ہیں اور ان رویوں کی مذمت کرنے کی بجائے انکے کردار کے براہ راست یا بالواسطہ گن گائے جاتے ہیں۔
پسماندہ ثقافتوں میں یہ رحجانات کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں سیاستدانوں میں یہ ایک کلیدی ہنر بن جاتا ہے کہ انکی اصل شخصیت کچھ بھی ہو وہ عاجزی، انکساری، سادگی اور غریب ہونے کا ڈھونگ مہارت سے ادا کرتے ہیں۔ یہ ناٹک کا ر‘ میک اپ کے ماہرین، شخصی اظہاروں کے مطابق لباس کی طرز، مقام اور وقت کا تعین اور موقع کی مناسبت سے روپ استوار کروانے کے تجربات رکھتے ہیں۔ اسکی ایک اہم مثال بیسویں صدی کے آغاز کی دہائیوں میں منموہن داس گاندھی کی ملتی ہے۔ گاندھی نے ’لنکن ان‘ لند ن سے بیرسٹری کی تھی اور جنوبی افریقہ میں ایک مہنگا وکیل تھا۔ اس کا لباس اور عادات و اطوار انگریزوں سے مختلف نہیں تھے۔ ہندوستان میں چلنے والی جراتمدانہ اور لڑاکا تحریکوں کوعدم مزاحمتی انداز میں ٹھنڈا کرنے کی واردات سے گاندھی نے یہاں سیاست کی شروعات کی۔ بھگت سنگھ کی گاندھی سے شدید حقارت کی وجہ بھی جلد ہی گاندھی کا کردار بے نقاب ہونا تھا۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے فوراً بعد ہی گاندھی کا برطانوی راج کے وائسرائے لارڈ اروِن سے معاہدہو گیا تھا۔ گاندھی ریل کے جس تھرڈکلاس ڈبے میں سفر کرتا تھا وہ دراصل فرسٹ کلاس سیلون ہوتا تھا۔ ڈبے سے فرسٹ کلاس مٹا کر تھرڈ کلاس لکھوا دیا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ دہلی کے جس سفید سنگ مرمر کے بِرلا محل میں رہتا تھا وہاں اسکی بکری کی گندگی زیادہ دکھائی جاتی تھا۔ لیکن گاندھی کو کانگریس کی ہی ایک ریڈیکل اور دلیرخاتون لیڈر اور شاعرہ سروجنی نائیڈو نے پوری مرکزی کمیٹی میں بے نقاب کیا تھا۔ اس اجلاس میں سروجنی نائیڈو نے کہا کہ ’’اب تک میں گاندھی کو ’مِکی ماؤس‘ کہتی رہی ہوں اور یہ ہنستا رہا ہے۔ لیکن آج یہ نہیں ہنسے گا۔‘‘ سروجنی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سوال کیا کہ ’’کیا اس کمیٹی کے ممبران نے کبھی یہ سوچا ہے کہ گاندھی کو غریب اور نادار پیش کرنے میں پارٹی کو کتنی بھاری رقوم خرچ کرنی پڑتی ہیں۔ پارٹی فنڈز اسکے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘ اس خطاب کے بعد گاندھی مسکرایا نہیں، اس کا چہرہ لٹ گیا تھا۔
کوریوگرافروں کی چال ڈھال کی ہدایات، اشتہاری کمپنیوں کی تشہیر، کارپوریٹ میڈیا میں پرچار اور سماج کے ٹھیکیداروں کو قابو کر کے اپنی شرافت اور عظمتوں کی مہمات سے حاصل کردہ مقبولیت کے طلسم سے عوام کے شعور پر حاوی ہوجانے والے یہ لیڈران محنت کش عوام کی مزاحمتی جدوجہد اور بغاوتوں کو زائل کروانے کے کام آتے ہیں۔ مقبولیت کے تسلط سے وہ پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انکا حکم حرف آخر بن جاتا ہے۔ وہ پارٹیوں کے آگے جوابدہ نہیں ہوتے۔ پارٹیاں اقتدار کے لیے ان کی مرہون منت ہو جاتی ہیں اور پھر پوری کی پوری پارٹیاں محض ان کے جرائم کی پردہ پوشی اور ان کو سزاؤں سے بچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
آج کے ڈریس ڈیزائنر جہاں شوبز اور دوسرے شعبوں میں امرا کے لباسوں کو انکے کردار کے مطابق ڈیزائن کرتے ہیں سیاست میں بھی اسی طرح انکے بیرونی روپ تیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نریندرا مودی دن میں کم از کم چار مرتبہ مخصوص پبلک کے سامنے مخصوص لباس زیب تن کرتا ہے۔ اب جو صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں ‘بتایا یہ جا رہا ہے کہ ان کو یہ عہدہ دئیے جانے کا میرٹ ان کی پسماندگی اور غربت ہے۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں ! حالانکہ بلوچستان کے بارڈر پر انکا دیہات واقعی پسماندہ ہے لیکن انکے تونسہ، ملتان، ڈیرہ غازیخان اور لاہور والے گھروں میں کبھی بجلی جاتی ہی نہیں ہے۔ ائیرکنڈیشن کبھی بند نہیں ہوتے۔
اسی طرح امریکی سرمایہ داری کو ایک کامیاب ماڈل قرار دینے کے لئے دنیا بھر کے حکمران طبقات کے یہ جغادری بہت دہراتے کہ ابراھم لنکن ایک لوہار سے امریکہ کا صدر بن گیا۔ لیکن اگر یہی معیار ہے تو ہزاروں امریکی لوہار اس دور اور اسکے بعد کے ادوار میں اپنی محنت کے پھل سے محروم اورذلت و غربت کی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ مخصوص حوادث میں چند انفرادی شخصیات کا سماجی مفلسی اور محرومی میں سے ابھر کر’’ بڑا آدمی‘‘ بن جانا درحقیقت ایک سماجی ذلت کو انفرادی شخصیت تک محدود و مسددو کرنے کا طریقہ واردات بن گیا ہے۔ غربت محرومی اور ذلت صر ف انفرادی مسئلہ نہیں ہے یہ ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔ لیکن محنت کرنے والے طبقات جس محرومی استحصال اور ظلم کا شکار ہیں اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں آئی۔ عثمان بزدار، جس کے والد تین مرتبہ رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے، اپنے علاقے میں بزدار قبیلے کا سردار اور تمندار ہے۔ الیکشن کمیشن میں اسکے جمع کرائے گئے اثاثے 4 کروڑ کے قریب ہیں، حقیقی اثاثے یقیناًاس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ لیکن کیا عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے سے جنوبی پنجاب کی پسماندگی دور ہوجائے گی یا پھر سرائیکی وسیب میں قومی محرومی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ اس کا جواب صرف نفی میں ہے۔ جہاں محروم طبقات میں سے کسی کے سربراہ مملکت بن جانے سے مزدوروں اور دہقانوں کے دکھ درد دور نہیں ہوتے اسی طرح مظلوم قومیتوں کے سیاستدانوں کے وزیراعظم یا چیف آف آرمی سٹاف بن جانے سے ان کا قومی استحصال اور جبر ی محرومی ختم نہیں ہوتی۔ افراد اور انکے تشخص کو مبالغہ آرائی سے سنجیدہ مسائل اور پالیسیوں کے حل کے طور پر پیش کرنا محض دھوکہ اور فریب ہے۔ تعلیم، علاج، روزگار، بجلی، پانی اور نکاس اجتماعی ضروریات ہیں۔ یہ امیر علاقوں میں کہیں اعلیٰ معیار کی ہیں اور غریب بستیوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشی اقتصادی اور ریاستی نظام ہے جس میں ایک طبقہ امیر سے امیر تر ہورہا ہے اور محروم اور مفلس غربت کی کھائی میں گر رہے ہیں۔ نظاموں کو بدلنے سے ہی معاشرے اور انسانی زندگیاں نجات پاتی ہیں۔ آزادی حاصل کرتی ہیں۔ شخصیات اور چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام وہی رہتا ہے جہاں غربت، ذلت اور استحصال کو محنت کش اور محروم طبقات کا مقدر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک استحصالی نظام کے بنائے ہوئے اس مقدر کو اس نظام کے خلاف بغاوت کرنے والے محنت کش عوام ہی بدل سکتے ہیں۔