تحریر: خکولا
13 اپریل 2017ء کو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ایک ہونہار اور انقلابی نوجوان مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں مذہبی جنونیوں کے ایک ہجوم نے انتہائی وحشیانہ اور بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا۔ مشال خان بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھا اور اس نے یونیورسٹی میں انتظامیہ کی کرپشن اور طلبہ کے ساتھ بے انصافی کے خلاف جدوجہد شروع کر رکھی تھے۔ اِس حوالے سے اُس نے مقامی ٹیلیوژن چینلوں کو انٹرویو بھی دئیے تھے جو آن ریکارڈ ہیں۔ یہی وجوہات تھیں کہ جن کی بنیاد پر مشال خان کے خلاف زہریلی مہم چلائی گئی اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا گیا۔ یہ سب کچھ ایسے ماحول میں ہو رہا تھا کہ جب عدلیہ جیسے ریاستی اداروں کی جانب سے بھی توہین مذہب کے ایشو کو اپنے مفادات کے تحت ابھارا جا رہا تھا۔ بعد میں حکومت کی تفتیشی ٹیم نے بھی مشال خان پر لگنے والے تمام الزامات کو بالکل بے بنیاد قرار دیا۔ مشال خان کے قتل میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پختون ایس ایف کے کارکنا ن پیش پیش تھے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے میڈیا میں اس بات کا اقرار کیا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ، جن کی کرپشن کے خلاف مشال خان نے آواز بلند کی تھی، کے تعاون سے ہی مشال خان کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔
مشال خان کا قتل بظاہر ایک واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ دہائیوں پر مبنی کئی واقعات اور تاریخی عمل کا تسلسل اور ناگزیر نتیجہ تھا۔ جس طرح سے یہاں 1980ء کے بعد ریاستی سرپرستی میں مذہبی بنیاد پرستی کو ہوا دی گئی، رجعتی مواد کو نصابوں میں ٹھونسا گیا، میڈیا کے ذریعے یہ زہر سماج میں گھولا گیا اور طلبہ یونین پر پابندی لگا کر تعمیری بحث اور سیاسی سرگرمی کے تمام مواقع نوجوانوں سے چھین لئے گئے اس کے بعد تعلیمی اداروں میں عدم برداشت اور وحشیانہ رجعت کا پنپنا بے سبب نہیں لگنا چاہئے۔ جب بھی کوئی نظام اپنے زوال کی طرف چلا جاتا ہے تو انقلابی تحریکوں کی عدم موجودگی میں سماج میں ایک گھٹن اور تعفن جنم لیتا ہے۔ مروجہ سیاست عام لوگوں سے کٹ جاتی ہے۔ اِس سیاسی خلا میں سوچیں پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ رجعتی رجحانات حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت اُس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک کوئی بڑی انقلابی تحریک پورے سماجی شعور کو جھنجوڑ کے نہ رکھ دے۔ پاکستان میں یہ صورتحال 2007-08ء کے جمہوری ردِ انقلاب کے بعد کئی سالوں تک حاوی نظر آتی ہے جو اب بدلتی معلوم ہوتی ہے۔
مشال خان نے جن مسائل کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی وہ اِس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے ناگزیر مضمرات تھے۔ وہ ایک نظریاتی نوجوان تھا جو انقلابی سوشلزم کے نظریات کی طرف متوجہ تھا اور اُس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہی اُس کی ریڈیکلائزیشن کے عمل کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ پوری دنیا نے اُس کے کمرے میں کارل مارکس اور چے گویرا کے پوسٹر دیواروں پر آویزاں دیکھے۔ سرمایہ دارانہ نظام جب بحران کا شکار ہوتا ہے تو اپنی شرح منافع برقرار رکھنے کے لئے حکمران طبقات وحشی ہو کر انسانوں کی بنیادی ضروریات جیسے تعلیم اور علاج پر جھپٹنے لگتے ہیں۔ ایک طرف ان شعبوں کی نجکاری کر کے انہیں منافع خوری کا ذریعہ بنایا جاتا ہے تو دوسری طرف ان پر حکومتی اخراجات میں بھی کٹوتیاں کی جانے لگتی ہیں۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا بجٹ دنیا میں کم ترین ہے۔ لیکن پھر اِس قلیل بجٹ میں بھی بھاری کرپشن کی جاتی ہے اور بدعنوانی کا یہ عمل اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک جاتا ہے۔ اس وقت بالخصوص یونیورسٹیوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور ساتھ ہی فیسوں میں مسلسل اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ کرپشن اِسی نظام کی ناگزیر پیداوار ہے جس کی بنیاد ہی استحصال، لوٹ مار اور مقابلہ بازی ہے۔
مشال خان کیس کے فیصلے اور بعد کی پیش رفت نے اِس ملک کے عدالتی نظام کی حقیقت کو بھی خوب بے نقاب کیا ہے۔ واقعے کی بے شمار ویڈیوز موجود ہیں جن میں درجنوں لوگوں کے ہجوم کو اِس وحشیانہ اقدام میں شریک دیکھا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کی عدالت کے پہلے فیصلے میں ایک مجرم کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید جبکہ 25 دوسروں کو تین تین سال قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ واقعے میں شریک 26 لوگوں کو ’’باعزت بری‘‘ کر دیا گیا۔ مشال خان کے خاندان نے اِس فیصلے پر عدم اطمینان کا واضح اظہار کیا۔ مشال کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جانے والا قتل تھا۔ وہ سب مشال کو قتل کرنے آئے تھے۔ پھر اُن میں سے کئی لوگوں کو کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟‘‘اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’دن دہاڑے قتل ہوا ہے پھر بھی ہمیں انصاف نہیں دیا جا رہا ہے۔ ‘‘ مشال خان کے خاندان نے اِس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی لیکن بعد میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے تین تین سال کی سزا پانے والے5 2 مجرموں کی بھی فوری رہائی کا حکم جاری کر دیا۔ اِس سے قبل جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی جانب سے 8 فروری کو رشکئی انٹر چینج پر دہشت گردی کی عدالت سے رہائی پانے والے مجرموں کا باقاعدہ ’’استقبال‘‘ کیا گیا اور انہیں ’’غازی‘‘ اور ’’ہیرو‘‘ قرار دیا گیا۔ ملاؤں نے انہیں ہار پہنائے اور کندھوں پر اٹھایا۔ اس موقع پر رہائی پانے والے مجرموں نے نہ صرف سرِ عام اپنے جرم کا اعتراف کیا بلکہ اس پر فخر کا اظہار بھی کیا اور آئندہ بھی ایسا کرنے کا اعادہ کیا۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر عام لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرنے والی ’نیشنل ایکشن پلان‘ سرکار تماشا دیکھتی رہی اور بات بات پر سوموٹو ایکشن لینے والی اعلیٰ عدلیہ بھی خاموش رہی۔ لیکن اس سارے عمل سے اِن بنیاد پرستوں کے ساتھ ساتھ اقتدار اور عدل کے اِن ایوانوں کا مکروہ کردار بھی کھل کر عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے سامنے آیا ہے۔
مشال خان کے قتل سے ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ انسان کا عزم اور نظریات کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں جب آپ کسی تنظیم اور جامع حکمت عملی کے بغیر جدوجہد کرتے ہیں تو دشمن کے لئے آپ کو نشانہ بنانا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن مشال جیسے ہزاروں نوجوانوں کو ایک انقلابی قوت کا حصہ بنانے کا فریضہ یہاں کے انقلابیوں پر ہی عائد ہوتا ہے جس کے لئے مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ ایک انقلابی تنظیم ہی ہو تی ہے جو فرد کی انفرادی خصوصیات کو نکھارتی ہے اورانہیں ایک کُل کے ساتھ جوڑ کر اجتماعی قوت میں ڈھال دیتی ہے۔ اِس کی نسبت اکیلا فرد آخر کار تھک جاتا ہے، مایوس ہو جاتا ہے یا پھر کچل دیا جاتا ہے۔ اس واقعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بالادست طبقات مذہب کا استعمال کس قدر زہریلے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ ایک طبقاتی سماج میں حکمران طبقات کی جانب سے مذہب کے تشریح اسی طرح سے کی جاتی ہے کہ جو اُن کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہے۔
ہم سمجھتے ہے کہ مشال خان ایک انقلابی مقصد کے لئے غریب طلبہ کی لڑائی لڑ رہا تھا جس کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا۔ لیکن اس واقعے کے بعد پورے ملک میں عوام کا جو ردِ عمل سامنے آیا اس کی مثال بھی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ردِ عمل ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر گیا جس میں بالخصوص طلبہ پیش پیش تھے۔ یہ تحریک مقداری حوالے سے تو بظاہر اتنی بڑی نہیں تھی لیکن ہر ذی شعور انسان میں شدید غم و غصہ موجود تھا اور پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اِس واقعے سے بنیاد پرستی اپنی ظاہری وحشت اور غلبے کے باوجود اندر سے زیادہ کھوکھلی ہوئی ہے اور اس کی حمایت مزید گری ہے۔ ملائیت سے عام لوگوں کی نفرت اور بیزاری میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں بنیاد پرستی کی طرف رجحان رکھنے والے بہت سے نوجوان بھی اپنی نظریاتی وابستگی سے متنفر ہو کر دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
13 اپریل کو مشال خان کی پہلی برسی منائی جائے گی۔ اس موقع پر انقلابی طلبہ محاذ (RSF) سمیت ترقی پسند طلبہ تنظیمیں پورے ملک میں سیمیناروں کا انعقاد کریں گی۔ مشال خان کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی کیونکہ وہ جدوجہد کا استعارہ بن چکا ہے۔ وہ استحصالی، جابر اور رجعتی قوتوں کے خلاف طبقاتی لڑائی کا شہید ہے۔ مشال خان کے قاتلوں کو یقیناًقرار واقعی سزا ملنی چاہئے لیکن مشال خان کو انصاف صرف اسی صورت میں ملے گا جب اس کی جدوجہد کو پھیلاتے اور بڑھاتے ہوئے اس پورے سرمایہ دارانہ نظام کو جلا کے راکھ کر دیا جائے گا۔ یہی مشال خان کے قتل کا حقیقی انتقام ہو گا۔