چالیس سال کی تاریکی
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔
ضیاالحق نے یہ مذہبی نعرہ دیا تھا کہ ’’بات اب تک بنی ہوئی ہے۔‘‘ بات بنی نہیں ہوئی ہے بلکہ بہت بگڑ چکی ہے اور مزید بگڑتی جارہی ہے۔
قلیل آبادیوں کو بڑے پیمانے کی مراعات دے کر عرب ممالک کی 2011ء کی عوامی تحریکوں سے بچ جانے والی خلیجی بادشاہتیں اب پرانے طریقوں سے نہیں چل سکتیں۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
ایک سوشلسٹ سماج میں ہی جعلی سرحدوں کو مٹایا جائے گا اور ہر دوسرے شعبے کی طرح کھیل کو بھی سرمائے اور منافع کے چنگل سے آزاد کروا کے معراج تک پہنچایا جائے گا۔
لیبر کی نوجوانوں اور عام طور پر مایوس لوگوں کو زندہ اور پرجوش کرنے میں کامیابی نے ہی الیکشن میں لیبر کے حق میں پھانسہ پلٹ دیا۔
قطری بادشاہت اس چھوٹے سے ملک کو خطے میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور درحقیقت خلیجی ممالک میں سعودی عرب کی تھانیداری کو چیلنج کر رہی ہے۔
اگر بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے تو گلی سڑی اور بوسیدہ ٹرانسمشن لائنیں اور ڈسٹریبیوشن انفراسٹرکچر اس اضافی پیداوار کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔
پیداوار، رسد اور مالیات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کئے بغیر حالیہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔
بلکہ پہلے سے دست و گریباں ’قومی اتحادی حکومت‘ کی صفوں میں مزید چپقلش بڑھے گی، کیونکہ اب اس لوٹ مار کے بازار میں ایک اور حصہ دار کا اضافہ ہوا ہے۔
بجٹ بظاہر تو سال میں ایک دفعہ جون کے مہینے میں پیش ہوتا ہے لیکن اصل میں ہر ماہ نئے ٹیکسوں کی صورت میں پورا سال محنت کشوں اور عوام کی زندگیوں کی تلخیاں بڑھتی رہتی ہیں۔
ڈار صاحب نے اس ملک کی کل معیشت کے صرف 27 فیصد کا بجٹ ہی پیش کیا ہے۔
ان دوروں میں واضح طور پر مذہبی منافرت کی پالیسی کے احیا کا عنصر شامل تھا اگرچہ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اور امن کے نام پر ہوا۔
ملاں اشرافیہ کی اِس رجعتی مذہبی آمریت میں انتخابات صرف سماجی دباؤ اور بغاوت کو تحلیل کرنے کی حد تک ہی ’جمہوری‘ ہوتے ہیں۔