5 جولائی کا شب خون: جبر مسلسل کے چالیس سال

تحریر: غفران احد

آج سے چالیس سال قبل 4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی شب کو جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر پاکستان کے محنت کش طبقہ کے خلاف شب خون مارا تھا۔ جس کو امریکی سامراج اور پاکستانی حکمران طبقات کے ’قومی اتحاد‘ (PNA) کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اس کے بعد سے ریاست نے 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے تمام ترقی پسند حاصلات اور اثاثہ جات کو زیر عتاب لا کر معاشرہ میں مذہبی انتہا پسندی کو ابھارا اور دانش و حکمت کو پاتال میں دھکیلتے ہوئے اس وحشی آمریت نے ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کر دیں۔ تحریک نظام مصطفی میں مذہب کا سہارا لے کر اس رجعتی آمریت کو مسلط کرنے کیلئے معاشرے کی پسماندہ پرتوں کی حمایت حاصل کی گئی۔ سرمایہ داری کے تحفظ اور سامراجی مفادات کی حفاظت کے لئے پورے خطے میں ظلم و جبر اور استحصال کا ایک وحشت ناک کھلواڑ شروع کیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جس میں امریکی سامراج زیادہ واضح اور مکمل طور پر پاکستان کا آقا بن کر سامنے آیا اور اس نے پاکستان کی ریاست کو افغانستان میں ثور انقلاب کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ اس عہد ظلمت کی تمام تر وحشت و درندگی کو پاکستان اور افغانستان کے محکوم عوام پچھلے چالیس سالوں سے آج تک مسلسل برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔
ضیائی آمریت نے گیارہ سالہ عہد ظلمت میں پاکستان کے محنت کش طبقہ کی جڑت اور یکجہتی کو توڑنے کیلئے برطانوی سامراج کا آزمودہ فارمولا ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ استعمال کیا اورمعاشرے میں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور قومی تعصبات کو ابھا را۔ افغان ڈالر جہاد کے ذریعے سماج میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی ایسی بنیادیں ڈالیں گئیں کہ جس سے آج تک پورا خطہ تاراج ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت 5 جولائی 1977ء کو محض جمہوریت پر آمریت کا شب خون قرار دیتی ہے اور اس کی ذمہ داری امریکی وزیر خارجہ’ ہنری کسنجر‘ پر ڈالتی ہے، جس نے بھٹو کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اس المیہ کی کسی حد تک کی ذمہ دار تھی۔ 20 دسمبر 1971ء کو قائد عوام واشنگٹن اور نیو یارک کی یاترا کے بعد جب سول مارشل لاایڈمنسٹریٹر کے طور پر حلف اٹھا رہے تھے تو سامراجی منصوبے کے مطابق فوج کو اس کی مقبولیت سمیت بحال کرنا اور سماج میں اس کی ساکھ کو دوبارہ معتبر بنانا طے ہو چکا تھا، جوکہ ایک پیچیدہ عمل تھا اور بھٹو جیسا ہر دلعزیز لیڈر ہی یہ کارنامہ سرانجام دے سکتا تھا۔ بھٹو نے معاشی اصلاحات کے ساتھ فوج کو بھی دوبارہ پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔ فوج کا مورال بلند کرنے کیلئے 1974ء میں بلوچستان میں آپریشن کیا گیا اور اسی طرح ریاست کو موقع فراہم کیا گیا کہ اپنی طاقت کو دوبارہ سمیٹ کرعوام سے انقلابی سرکشی کا انتقام لے سکے۔ جب ضیائی آمریت نے بھٹو کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پابند سلال کیا تو بیگم نصرت بھٹو سے ایک ملاقات کے دوران چیئر مین بھٹو شدید غصہ کے عالم میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں پر عدم سر گرمی کی وجہ سے برس رہے تھے۔ اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو نے ایک تاریخی جملے سے جواب دیا کہ ’’بھٹو صاحب! آپ نے پیچھے پیپلز پارٹی چھوڑ رکھی ہے‘ کوئی بالشویک پارٹی نہیں!‘‘
5 جولائی 1977ء کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے جتنی بھی ریڈیکل اصلاحات کیوں نہ کی جائیں ان کی حدود ہوتی ہیں اور انتخابات ہر گز انقلا بات کے متبادل نہیں ہوسکتے۔  پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں محنت کش طبقات کے لئے جہاں ملکی تاریخ کی سب سے ریڈیکل اصلاحات کیں وہاں ایک بالشویک پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ داری کا خاتمہ نہ ہوسکا اور اشرافیہ کی ریاست کو جڑوں سے اکھاڑ کر مزدور جمہوریت پر مبنی ریاست استوار نہیں ہوسکی۔ یہی وہ سب سے اہم عنصر تھا جو پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کی تنزلی اور ضیا کی درندہ صفت آمریت کے تسلط کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔ لوئی ڈی سینٹ جسٹ جو انقلاب فرانس کا رہنما اور نیشنل کنونشن کاصدر تھا، نے پھانسی سے کچھ دیر قبل الوداعی جملہ کہا تھا ’’جو انقلاب کو نامکمل اور ادھورا چھوڑتے ہیں‘وہ اپنی قبر خود ہی کھودتے ہیں۔‘‘
1968-69ء کی تحریک کے شہ زور گھوڑے پر بیٹھ کر پیپلزپارٹی کی جمہوری قیادت نے اپنا تاریخی فریضہ مکمل نہیں کیااور نہ ہی مکمل کرنے کی اہلیت رکھتی تھی۔ لیکن اس نے سامراج اور اس ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پرکاری ضربیں ضرور لگائیں تھیں۔ عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔ ضیائی آمریت کی طرف سے ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف 7 نومبر 1968ء سے لے کر 26 مارچ 1969ء تک 139 دنوں کی مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کی بغاوت اور سرکشی کا محور ہونے کی فرد جرم عائد کی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس فرد جرم کا اپنی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں اعتراف کیا ہے جو کہ چیئر مین بھٹو کی آخری وصیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اپنی زندگی اور موت کے فیصلہ کن اسباق جو بھٹو نے مستقبل کی نسلوں اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے چھوڑے تھے اس میں لکھا ہے کہ ’’میں اس آزمائش کی گھڑی میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کیلئے متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان آبرومندانہ مصالحت اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوکشش کی۔ اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانہ راستہ، قابل مقبول حل یا مصالحت محض یو ٹوپیا ( دیوانے کا خواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا۔‘‘
لیکن المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے بھٹو کی آخری وصیت سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ 1988ء اور 1993ء کی بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومتوں میں یا پھر 2008ء کی زرداری حکومت میں نہ توجنرل ضیا کے گیارہ سالہ دورِ اقتدار کے کالے قوانین اور رجعتی اقدامات کا خاتمہ ممکن ہوسکا اور نہ ہی محنت کشوں کا روٹی، کپڑے اور مکان کا مسئلہ حل ہوسکا۔ آج بھی ریاست کے مختلف اداروں کے اندر جنرل ضیا زندہ ہے اور اس کی با قیات نہ صرف ریاستی اداروں، سیاست اور سماج میں موجود ہیں بلکہ یوسف رضا گیلانی، منظور وٹو، ر حمان ملک اور دیگرکی شکل میں پیپلز پارٹی کے اندر بھی اگلی نشستوں پر براجمان ہیں۔ ایسی بد عنوان قیادت سے غیر طبقاتی سماج کی تشکیل تو درکنار، بوژوار جمہوریت کے فرائض کی تکمیل کی توقع بھی احمقوں کی جنت میں رہنے کی مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ مسلسل گہری ہوتی ہوئی زوال پذیری کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ اس کی قیادت نے اپنے دور اقتدار میں محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے ساتھ انقلابی جڑت استوارکرنے کی بجائے سامراجی آقاؤں اور ملکی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ملا وملٹری کے ساتھ مفاہمت کرکے اپنے پاؤں پرخود ہی کلہاڑی ماری ہے۔
محنت کش اگر چہ خاموش ہیں لیکن مرے نہیں ہیں۔ وہ دوبارہ اُٹھیں گے اور ایک نئے عزم کے ساتھ اس جبر اور وحشت کے خلاف تاریخ کے میدان میں ایک بار پھر اُتریں گے۔ ان کی یاداشتوں میں ان ساتھ ہواہر ظلم، جبراور دھوکہ محفوظ ہے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ اس بار 1968-69ء سے بلند پیمانے پرتحریک بر پا کرکے اس فرسودہ اور تاریخی طور پر متروک سرمایہ دارانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر ہی ان سے انتقام لے گا۔