سعودی قطر تنازعہ : پس منظر اور مضمرات

تحریر: لال خان

قطر اور خلیج تعاون کونسل کے دوسرے ممالک کے درمیان سفارتی جھگڑے نے خطے کے بحران کو شدید تر کردیا ہے۔ 5 جون کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اعلان کیا کہ وہ قطر کے ساتھ نہ صرف سفارتی تعلقات بلکہ فضائی، سمندری اور زمینی رابطے بھی منقطع کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب قطر کی مشرق وسطیٰ کے ساتھ واحد زمینی سرحد کو بند کرنا ہے۔ خلیجی تعاون کونسل کا بظاہر گماشتہ اور غیر متعلقہ اتحاد اب ٹوٹ کر خطرناک مضمرات پیدا کر رہا ہے۔ ایرانی ملاں اشرافیہ اور سعودی بادشاہت کے درمیان بڑھتی ہوئی رقابت پہلے سے بحران کی زد میں آئے خلیج فارس کو ایک اور شدید بحران میں دھکیل رہی ہے، جس کا بہت کم لوگوں کو پہلے سے اندازہ تھا۔
2014ء میں انہی خلیجی ریاستوں نے سعودی عرب کی قیادت میں عارضی طور پر اپنے سفیروں کو قطر سے واپس بلا لیا تھا۔ لیکن اس بار بیان کی گئیں مبہم اور منافقانہ وجوہات کی بنا پر قطر کے خلاف شدید انتقامی اقدامات کیے گئے ہیں۔ قطر کے بازاروں میں خریداروں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے کیونکہ قطر کی 40 فیصد غذائی ضروریات کی اشیا زمینی راستوں سے سعودی عرب کے ذریعے آتی ہیں۔ قطری شہریوں کو فوراً سعودی عرب سے نکلنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ یمن مین حوثیوں کے خلاف لڑنے والی اتحادی فوج (جس کی سربراہی سعودی وزیر دفاع اور موجودہ سعودی بادشاہ کا ہردلعزیز بیٹا محمد بن سلمان کر رہا ہے)میں شامل قطر کے ایک ہزار فوجیوں کو اس اتحاد سے نکال دیا گیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی نے قطر پر ’’خطے کو غیر مستحکم کرنے والی اخوان المسلمین، داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی حمایت اور اپنے میڈیا کے ذریعے ان تنظیموں کی اقدار کی تشہیر‘‘ کا الزام لگایا ہے۔ سعودی عرب نے الزام عائد کیا ہے کہ قطر بحرین اور سعودی صوبے قطیف میں ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوںیا ان کے امیر شہریوں کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت اور پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مصر نے فوراً سعودی عرب کی تقلید کرتے ہوئے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کردیئے۔ سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت، اماراتی حمایت یافتہ مشرقی لیبیا کی حکومت نے بھی ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ موریطانیہ نے بھی سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا اور اُردن نے بھی قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات نچلی سطح پر لانے کا اعلان کیا۔
قطری بادشاہت اس چھوٹے سے ملک کو خطے میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور درحقیقت خلیجی ممالک میں سعودی عرب کی تھانیداری کو چیلنج کر رہی ہے۔ یہ قدرتی گیس برآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جو 2022ء میں فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرے گا۔ خلیجی ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور خطے میں اثر و رسوخ کی لڑائی زیادہ تر متحارب فرقہ وارانہ گروہوں کی حمایت کے ذریعے لڑئی جاتی ہے، جو خطے میں ان ممالک کی پراکسی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ سالوں سے سعودی اور اماراتی حکمران قطر پر چھ قومی خلیجی تعاون کونسل سے روگردانی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ قطر کا الجزیرہ نیوز چینل عالمی سطح پر نام کما چکا ہے اور قطری مفادات کے تحت مصر اور خلیجی ممالک میں باغیوں کے خیالات کی تشہیر کرتا ہے، لیکن قطر میں موجود سیاسی مخالفین کی آوازوں کو دباتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا بحری بیڑا بھی قطر میں ہے۔ قطری حکمران زمینی حملے کے خلاف اسے اپنے بہترین دفاع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
خلیجی تعاون کونسل میں قطر، کویت اور عمان وہ تین ممالک ہیں جنہوں نے ایران کے ساتھ ابھی تک تعلقات استوار رکھے ہیں۔ یہ چیز سعودی عرب جیسی دوسری بادشاہتوں کو مشتعل کرتی ہے جو ایرانی ملاؤں کے ساتھ بظاہر مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر حالت جنگ میں ہیں۔ قطری حکمران نے حالیہ دنوں میں ایران کے خلاف سعودی عرب کے نئے طاقتور شہزادے کے سخت مؤقف پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ قطری بادشاہت کی جانب سے اخوان المسلمین کو بھاری مالی امداد دی جاتی رہی ہے، جو 2011ء میں مصر میں انقلابی تحریک کی پسپائی کے نتیجے میں اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم جب مصر میں دوسری انقلابی تحریک نے مرسی کی اخوانی حکومت کو اکھاڑا تو فوج نے سعودی حمایت سے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنرل فتح السیسی کے آنے اور اخوانیوں کے اقتدار سے باہر ہوجانے کے بعد قطر نے مصر کے لیے 8 اَرب ڈالر کی امداد روک دی تھی۔ لیکن سعودی عرب نے السیسی کی حکومت کو سہارا دینے کے لیے 12 اَرب ڈالر کی خطیر رقم دی۔ یوں مصر میں قطر اور سعودی عرب آپس میں جنرل سیسی اور اخوان المسلمین کے ذریعے برسرپیکار ہیں۔ اِسی قسم کی صورتحال شام میں بھی موجود ہے، جہاں دونوں اطراف مختلف پراکسی جہادی گروہوں کی ڈوریاں ہلا رہی ہیں۔
امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں سعودی عرب کا زیادہ حمایتی بنتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرونی دورے کے لیے سعودی عرب کو چنا۔ سعودیوں نے ٹرمپ کا پرتعیش استقبال کیا اور اس کی تقریر سنوانے کے لیے 55 اسلامی ممالک کے سربراہان کو بھی مدعو کر ڈالا۔ امریکی ملٹری کمپلیکس کو اسلحے کے بھاری ٹھیکے دیئے گئے۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے مشیر غالباً اماراتی حکمرانوں کی اس کوشش کے حق میں ہیں کہ امریکہ اپنے فوجی اڈے کو قطر سے متحدہ عرب امارات منتقل کرے۔
اس صورت حال میں قطری حکمران ترکی کی طرف اپنے جھکاؤ میں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ اردگان اخوانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور اُس نے پچھلے سال قطر میں فوجی اڈہ بھی قائم کیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حالیہ صورتحال کے تناظر میں ترکی اپنے فوجی دستے قطر میں تعینات کر رہا ہے۔الجزیرہ کے مطابق ترکی کا یہ فیصلہ ’’سعودی مخالف نہیں تاہم قطر کے حق میں ضرور ہے۔‘‘ تاہم اردگان کی کوشش ہو گی آل سعود کے ساتھ کھلے تنازعے سے بچے ۔
ایرانی پارلیمنٹ اور امام خمینی کے مزار پر دہشت گردی کا حالیہ حملہ اِس بحران کی شدت کو مزید بھڑکانے کا باعث بنا ہے۔اسی طرح حالیہ جھگڑے کی ایک اہم وجہ جنوب فارس کی گیس فیلڈ بھی ہے جسے ایران اور قطر مشترکہ طور پر چلاتے ہیں اور جس میں تقریباً 43 ٹریلین کیوبک میٹر گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ ایران کا قطر کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ بھی ہے جس کے تحت سعودی حملے کی صورت میں ایران قطر کا دفاع کرے گا۔ خلیجی ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد ایرانی حکام نے قطر کو غذائی اجناس کی سپلائی کی پیش کش کی ہے۔ سعودی اتحاد کے اِس جارحانہ مؤقف کے نتیجے میں قطر ایرانی اتحاد کے مزید قریب ہوگا۔ اس سے خلیج فارس کے دونوں جانب واقع دو فرقہ وارانہ تھیوکریٹک طاقتوں کے درمیان فوجی ٹکراؤ کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس طرح کی جنگ کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں تیز اضافہ ہوگا جو عالمی سرمایہ داری کے بحران میں مزید شدت لائے گا۔
امیر کویت شیخ صباح منگل کو سعودی عرب کے مختصر دورے کے بعد واپس آگیا ۔ اس دورے میں اس نے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ بحران کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کی۔ لگتا ہے یہ ’امن کی کوشش‘ ناکام ہوچکی ہے۔ واشنگٹن کی بیوروکریسی نے ٹرمپ کی قطر مخالف بیان بازی کو لگام دیا ہے اور جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ تاہم یہ ایک پیچیدہ اور پرانا جھگڑا ہے جو تباہ کن فوجی ٹکراؤ میں بدل سکتا ہے۔ امریکی سامراج کے سنجیدہ پالیسی ساز یقیناً ایسا نہیں چاہیں گے۔
یہ شدید ہوتا ہوا سفارتی اور عسکری بحران اس شدید معاشی بحران کی وجہ سے ہے جس نے تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خلیجی ریاستوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ غیر مستحکم حکومتیں ہیں اور اندرونی عوامی بغاوتوں سے ان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ سعودی عرب جیسی بادشاہتیں اب عوام کو مزید مراعات نہیں دے سکتیں اور ان کی افرادی قوت کی اکثریت تارکین وطن مزدوروں پر مشتمل ہے جو غیر انسانی حالات میں کام کرتے ہیں۔ اب جبکہ تعمیرات اور دوسرے منصوبوں کی فنڈنگ ختم ہورہی ہے تو ان مزدوروں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ان ظالم بادشاہوں کی نئی نسل اپنے پاگل پن میں خطے میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے بیرونی جنگوں کو ہوا دے رہی ہے اور پراکسی گروہوں کے ذریعے بربادی پھیلا رہی ہے۔ وفاداریاں بدل رہی ہیں اور سفارتکاری کے اس کھیل میں دھوکہ بازی عام ہے۔ سامراجیوں نے پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ کو ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا جن کی آبادیاں انتہائی قلیل جبکہ ان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ یورپی اور امریکی سامراجیوں نے ان خلیجی ریاستوں پر مختلف حکمران خاندانوں کو مسلط کرکے اپنی لوٹ مار کی، لیکن آج یہ ریاستیں ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں۔ 2011ء کے عرب انقلابات نے ان حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی کی رجعت کو ان ہی حکومتوں نے سامراجی حمایت سے پروان چڑھایا تھا۔ آج یہ دہشت گرد اپنے آقاؤں کو ہی کاٹ رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف قابو سے باہر ہو جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شور ہے وہاں کئی دہشت گردی گروہوں کی پس پردہ پشت پناہی بھی ہے۔ لیکن موجودہ حالات اپنے الٹ میں بدل سکتے ہیں۔ عرب عوام پھر اٹھیں گے۔ وہ بہت سے اسباق سیکھ چکے ہیں۔ نئی عوامی بغاوت کو ان رجعتی شیخوں کی ریاستوں کو اکھاڑتے ہوئے سامراجیوں کی لگائی گئی مصنوعی لکیروں کو مٹاکر مشرق وسطیٰ کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑنا ہوگا۔