بجٹ کیا ہے؟

تحریر: ظفراللہ

پاکستان کی وزارت خزانہ ہر سال پارلیمنٹ میں ایک بجٹ پیش کرتی ہے۔ جس میں آنے والے ایک سال کے لیے آمدنی اور اخراجات کے اندازوں پر مشتمل ایک میزانیہ تیار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بینکاروں، تاجروں، بڑ ے سرمایہ داروں اور بروکروں کو چھوڑ کر عوام کی وسیع اکثریت کا اس بجٹ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا، ماسوائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بڑھوتری کی خوشخبری کے، لیکن سماج کی بالائی پرتوں کے لیے اس بجٹ میں بہت کچھ پوشیدہ ہوتا ہے۔
ایک سرمایہ دارانہ ریاست بنیادی طور پر سرمایہ داروں کے کاروباری معاملات چلانے کے لیے ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کا کام کرتی ہے۔ اسی لیے سرمایہ دارانہ بجٹ اپنی اساس میں سرمایہ داروں کے کاروباری معاملات اور مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ ویسے بھی طویل عرصے سے عام عوام نے بجٹ میں دلچسپی لینا تک چھوڑ دی ہے کیونکہ اب بجٹ بظاہر تو سال میں ایک دفعہ جون کے مہینے میں پیش ہوتا ہے لیکن اصل میں ہر ماہ نئے ٹیکسوں کی صورت میں پورا سال محنت کشوں اور عوام کی زندگیوں کی تلخیاں بڑھتی رہتی ہیں۔
سالانہ ریاستی بجٹ آنے والے ایک سال میں ہونے والے ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات اور انکی تکمیل کے لیے ممکنہ آمدنی کے مختلف ذرائع کا خلاصہ ہوتا ہے۔ اگر آمدنی کے ذرائع اخراجات سے زیادہ ہوں تو اسے’ سرپلس بجٹ‘ کہتے ہیں اور اگر اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوں تواسے خسارے کا بجٹ کہا جا تا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے سارے بجٹ خسارے کے بجٹ ہیں۔

خسارے کا بجٹ
خسارے کا بجٹ مختلف کیفیتوں میں مختلف اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خسارے کا بجٹ ہر وقت منفی معنوں میں استعمال ہو۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ریاست ترقیاتی کاموں اور پیداواری ذرائع پر بے پناہ سرمایہ خرچ کرے جو کہ اس کی ممکنہ ریاستی آمدن سے زیادہ ہو۔ اس صورت میں اسے مختلف ذرائع سے پیسے کا انتظام کرنا پڑتا ہے تاکہ اس خسارے کا خاتمہ کیا جائے۔ اس صورتحال میں خسارے کا بجٹ ایک مثبت اقدام شمار ہوتا ہے لیکن اگر آمدن سے زیادہ اخراجات غیر ترقیاتی کاموں اور ریاستی انتظامی امور پر خرچ ہورہے ہوں، جن کاسماج کی ممکنہ ترقی سے کوئی تعلق نہ ہو، تو اس صورت میں وہ بجٹ نہ صرف بوجھ ہوتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو قرضوں کی بیڑیوں میں جکڑ دیتا ہے۔ خسارے کے بجٹ کی یہ شکل ہمیں پاکستان میں مختلف ادوار میں نظر آتی ہے۔
خسارے کے بجٹ میں اہم فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ اس خسارے کو کس طریقے سے پورا کیا جائے۔ عمومی طور پر ا س خسارے کو اندرونی وبیرونی قرضوں اور نوٹ چھاپ کر پورا کیا جاتاہے۔ اندورنی طور پر ریاست اسٹیٹ بینک، نجی کمرشل بینکوں اور قومی بچت کی سکیموں وغیرہ سے قرض لے کر اس خسارے کو پورا کرتی ہے اور اس مد میں ہر سال کثیر رقم سود کی ادائیگی کے لیے رکھی جاتی ہے۔

غیر رسمی معیشت
بجٹ میں جب ایک کثیر رقم ترقیاتی کاموں مثلاًسڑکوں، اسکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں وغیرہ کی تعمیر اور دوسرے صنعتی اور فزیکل انفراسڑکچر کی تعمیر پہ خرچ کی جاتی ہے تویہ ایک مثبت اقدام ہوتاہے اور معاشرہ اگرچہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہی سہی لیکن ترقی کے مراحل طے کرتا ہے۔ پھر ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لیا جاتا ہے یا پھر آمدن کے ذرائع میں اضافہ کیا جاتاہے۔ ریاستی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس کا ایک مضبوط اور مربوط نظام ہوتا ہے۔ جس سے ریاست اپنے ان اخراجات کو پورا کرتی ہے۔ ٹیکس وصولی کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی پر استوار کیے بغیر ٹیکس وصولی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح معیشت کے بہت سے شعبے، افراد اور مختلف نوعیت کے کاروبار غیر رسمی معیشت کا حصہ بن جاتے ہیں جو کہ ٹیکس وصولی کی ان ریاستی دستاویزات میں شامل نہیں ہوتی۔ غیر رسمی معیشت کا حجم جتنا بڑا ہوتا جاتا ہے اتنی ہی ریاستی آمدنی کم اور معاشی منصوبہ بندی کمزورہوتی جاتی ہے۔ یہ غیر رسمی معیشت قانونی اور غیر قانونی، دونوں طرح کے کا روباروں پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ غیر رسمی قانونی معیشت سے مراد ایسی معیشت جو کہ اپنی نوعیت میں قانونی طور پر جائز ہوتی ہے لیکن سرکاری کاغذات میں اسکا شمار نہیں ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ ٹیکسوں کی ادائیگی سے فرار ہوتاہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کی ٹیکنالوجی اور سنٹرل ڈیٹابیس کی عدم موجودگی کی وجہ سے 80 فیصد چھوٹا اور درمیانے درجے کا کاروبار ٹیکس نیٹ میں نہیں آتا اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر ٹیکس نیٹ اور ریاستی آمدنی میں بڑھوتری ناممکن ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اُس جدید ٹیکنالوجی اور سنٹرل ڈیٹابیس کے لیے جو وسائل، سرمایہ، ریاستی جکڑ اور نیت درکار ہے وہ اس پاکستانی سرمایہ داری کے بس سے باہر ہے۔ بلوم برگ کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق ایسی غیر رسمی قانونی معیشت کل معیشت کے 36 فیصد پر مشتمل ہے، اگرچہ اِس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اِسی طرح اِس غیر رسمی معیشت کا ایک غیرقانونی حصہ بھی ہے جو منشیات، اسمگلنگ، چوربازاری، رشوت اور کرپشن وغیرہ سمیت غیرقانونی سرگرمیوں کے پیسے پر مشتمل ہے۔ وہ معیشت کا حصہ تو ہے لیکن کسی قسم کے اعداد وشمار میں یکسر شامل نہیں۔ ان دونوں غیر سرکاری معیشتوں کا حجم بعض ذرائع کے مطابق معیشت کے 70 فیصد سے زائد پر مشتمل ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے جسم پر ایک پھوڑا ہو اور اس پھوڑے کا حجم اتنا بڑا ہوجائے کہ اس کی سرجری کے لئے پورے جسم کو کاٹنا پڑے۔ اسی لیے اس غیر سرکاری یا کالے دھن کی معیشت کو کنٹرول یا ختم کرنے کا مطلب موجودہ معیشت کے تین چوتھائی حصے کو ختم کرناہے۔ جس سے یہ معیشت دھڑام سے گر سکتی ہے۔ اس کالے دھن کی معیشت نے جتنا روزگار اور معاشی استحکام کوبڑھایا ہوا ہے اس کے خاتمے سے پاکستانی معیشت براعظم افریقہ کے کسی قحط زدہ ملک کے برابر چلی جائے گی۔
سرمایہ داری میں یہ معیشت نہ ہی کنٹرول ہو سکتی ہے اورنہ ہی اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف حکومتیں اس کالے دھن کی معیشت کو زیادہ تر پراپرٹی اور اسٹاک مارکیٹ میں استعمال کرتی ہیں۔ اس پر ریاعتیں دینے اور اس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے رعایتی پیکج پر مشتمل ایمنسٹی اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں جس سے پھر حکمران طبقے کے لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں جو اس کالے دھن کا حصہ ہیں۔
ایسی معیشت کا بجٹ کوئی حکومت کیسے بنا سکتی ہے! اس کیفیت میں حقیقی اعداد و شمار کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ ڈیٹا ہی موجود نہیں۔ پاکستان کی دستاویزی معیشت تقریباً313 ارب ڈالر ہے اور تقریباً 214 ارب ڈالر کی غیر دستاویزی معیشت ہے۔ جو کالے دھن پر مشتمل ہے۔ حکومتیں جو بجٹ بناتی ہیں وہ سفید معیشت کو ذہن میں رکھ کر بناتی ہیں جوکہ حقیقت کی غمازی نہیں کرتا۔

امیروں کا بجٹ
بجٹ میں کل آمدنی کا 50 سے 60 فیصد سے زائد حصہ صرف دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلاجاتاہے۔ اگلے سال 2017-18ء کے بجٹ میں 2100 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں اور950 ا رب روپے دفاع کے لیے۔ جبکہ کل بجٹ 4317 ارب روپے کا ہوگا۔ باقی رقم قرضوں، سود کی ادائیگی اور حکومتی اخراجات میں خرچ ہوگی۔ اس میں سے بھی کثیر رقم نوکر شاہی ڈھانچے، افسروں کی عیاشیوں اور دفاترکی آرائش و تزئین پر خرچ ہوتی ہے اور بہت ہی قلیل حصہ چھوٹے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی شکل میں دیا جاتاہے۔
ہمیشہ بجٹ سے پہلے فوج اور ریاستی ایجنسیاں سول حکومت سے مصنوعی طور پر تنازعہ پیدا کر کے بزور قوت دفاعی اخراجات میں دیو ہیکل اضافہ کرواتی ہیں۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیں توہر بجٹ سے پہلے سول اور فوجی اشرافیہ کے درمیان مصنوعی تلخی نظر آتی ہے جو بے سبب نہیں ہوتی … المیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں نہ صرف اس دیوہیکل بجٹ پر خاموشی اختیار کرتی ہیں بلکہ’ ملکی سلامتی‘ کے لیے اس میں اضافے کو ناگزیر سمجھتی ہیں۔
کتنا بڑا جرم ہے کہ انسانی بربادی اور تباہی کے آلات پر کھربوں روپے خرچ کرکے غریب عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑاجاتاہے اورخود ٹیکس دینے والے عوام غربت اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نہ وہ علاج کرواسکتے ہیں نہ ہی بچوں کو تعلیم دلواسکتے ہیں۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے صحت پر جی ڈی پی کا صرف 0.8 فیصد اور تعلیم پر 2 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ 80 فیصد آبادی علاج کی جدید سہولیات سے محروم ہے اور ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر۔ 90 فیصد آبادی جو پانی پیتی ہے وہ کسی نہ کسی درجے پر مضر صحت ہے۔ غلیظ پانی جان لیوا بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی صورتحال یہ ہے کہ جگہ جگہ گلیوں میں سیوریج کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے گٹر ابل رہے ہیں۔ وہی عوام اپنے پیسوں سے ٹیکس کی ادائیگی کرکے حکمران طبقات کی اِن جونکوں کو پالتی ہے اور باقی آنے والی نسلوں کو قرضوں کی مد میں گروی رکھا جاتا ہے۔
اسی بجٹ کی سب سے پوشیدہ چیزیں جو عام عوام کی سمجھ سے باہر ہوتی ہیں وہ سرمایہ داروں کو مختلف مدوں میں دی جانیوالی مراعات ہیں۔ یہ مراعات ٹیکسوں کی چھوٹ، مختلفSROs اور تجارتی اور کاروباری سبسڈیز ہیں۔ یہ مراعات اور رعایات کاروبارکی بڑھوتری اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کے لیے دی جاتی ہیں تاکہ اس سے ’’معاشی سرگرمی کوفروغ‘‘ حاصل ہو اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔ درحقیقت بجٹ پیش کرنے کا یہی حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے حالیہ دورہ چین میں عالمی سرمایہ داروں سے خطاب کے دوران واضح طور پر کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے فضا سازگار ہے، یعنی 100فیصد منافع واپس اپنے ملک لے جانے کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ اتنے ڈھیلے ڈھالے قوانین شوکت عزیز کے دور میں بھی بنائے گئے تھے جن کامقصد ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کو تیز ترین منافع کماکے واپس سرمایہ لگانے کی سہولت دی جائے۔

ترقیاتی بجٹ
بجٹ میں عام عوام اور درمیانے طبقے کے دانشوروں کو ایک اور دھوکہ دیا جاتا ہے جسے (PSDP) یعنی ’ بیسک سیکٹر ڈویلپمنٹ‘ پروگرام کا نام دیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا دھوکہ جو اس میں دیا جاتا ہے وہ یہ کہ پچھلے سالوں کی غیر خرچ شدہ رقم کو اگلے سال منتقل کیا جاتا ہے اور بہت بڑا اضافہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو رقم خر چ کی جاتی ہے وہ زیادہ تر سڑکیں بنانے اور مرمت کرنے میں خرچ کی جاتی ہے۔ زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی علاج، صاف پانی، سکول اور پبلک ٹرانسپورٹ جیسے شعبو ں پر اونٹ کے منہ میں زیرے جتنی رقم رکھی جاتی ہے۔ میٹرو بس اور اورینج ٹرین جیسے منصوبوں پرکھربوں روپے صرف کمیشن کھانے یا اپنی ہی فرنٹل کمپنیوں سے مال بنانے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ترجیحی طور پر میٹرو بس وغیرہ صاف پانی، علاج اور تعلیم کے بعد آتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس میں نمائش ہے اس لیے ان منصوبوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اورینج ٹرین کے لیے جو رقم رکھی گئی ہے، جو صرف ایک شہر لاہور میں 26کلومیٹر پر مشتمل ہے، وہ پورے پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ دراصل حکمران اس سماج کی ترقی اور بڑھوتری کی ہلکی سی خواہش سے بھی مایوس ہو گئے ہیں کیونکہ سماج کے بنیادی شعبوں کی بہتری کے لیے جتنی رقم اور جتنی اکھاڑ پچھاڑ درکار ہے وہ یہاں کی سرمایہ داری کے بس سے باہر کی بات ہے۔

حل کیا ہے؟
سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے درست کہا تھا کہ حکومت سرمایہ داروں کے بعد درمیانے طبقے کو مدنظر رکھ کر معاشی پالیساں بنارہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اِسی طبقے نے سرمایہ داروں کی منڈی تشکیل دینا ہوتی ہے۔ عوام کی وسیع اکثریت ویسے ہی اِس منڈی سے باہر ہو چکی ہے اور اُن کے لیے حکمرانوں کا کوئی پروگرام نہیں ہوتاہے اورنہ ہی ان کے نظام میں اتنی سکت ہے کہ غربت اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کو نکال سکے۔ اسی لیے حکمران طبقے وسیع اکثریت کے بارے میں منصوبہ بندی ہی نہیں کرتے۔ کیونکہ سماج کو یکساں بنیادوں پر ترقی دینے اور لوگوں کے معیارزندگی کو بلند سطح پر لانے کے لیے دیو ہیکل سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ اپنی تاریخی نااہلی کی وجہ سے صرف کرپشن، چوربازاری اور کالے دھن کے ذریعے ہی اپنی دولت میں اضافہ کرسکتا ہے۔ صحت مندانہ طریقوں سے ان کے لیے دولت کمانا نا ممکن ہے۔ اسی لیے وہ ٹیکس چوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ورنہ وہ درکار شرح منافع نہیں حاصل کر پاتے۔ اسی لیے حکمران طبقہ کوشش کے باوجود ٹیکس میں اضافہ نہیں کر سکتا اور پہلے سے ہی غریب ٹیکس گزاروں کا خون چوسنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ چونکہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ایک غیر مقدس اتحاد اور ملغوبے پر مشتمل ہے اس لیے جاگیر دار زراعت پر ٹیکس لگانے کی ہر کوشش کو بلیک میلنگ کے ذریعے ناکام بنا دیتے ہیں۔ دفاع اور سود کی ادائیگیوں میں کٹوتی کرنے کی ان کے پاس جرات نہیں ہے۔ تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ بھٹو دور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی وزارت خزانہ کے دور میں تعلیم اور صحت کی مد میں بھاری رقم بجٹ میں رکھی گئی تھی۔ بنیادی ضروریات کے ان شعبوں میں ریاستی اخراجات کے بغیر ایک صحت مند افرادی قوت پیدانہیں کی جاسکتی جو کہ ترقی کی ضامن ہو۔ دولت اس معاشرے میں وافر طور پر موجود ہے لیکن وہ نجی ملکیت کی قید میں ہے۔ جب تک سرمایہ داری ہے بجٹ بھی اسی طرح کے رہیں گے جن میں بالادست طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ آج بھی وسائل میں تیز ترین بڑھوتری کی جاسکتی ہے اور یہ وسیع دولت انسانی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ فوج کی بجائے عوامی ملیشیا بنانی پڑے گی تاکہ پوری عوام فوجی تربیت حاصل کرکے زمانہ امن میں صنعت زراعت اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں خدمات سر انجام دے اور صرف جنگ کی کیفیت میں وہ جنگی خدمات فراہم کرے۔ اسی طرح سامراجی قرضے ضبط کرتے ہوئے نجی صنعت اور ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں تبدیل کرکے انسانی ترقی کے لئے درکار وسائل میسر آ سکتے ہیں، جو کچھ سالوں میں اس سماج اور اس میں رہنے والوں کا مقدر تبدیل کردینگے۔ یہ امیروں کا نظام ہے اورانہی کابجٹ بنتاہے۔ ہمیں اپنا بجٹ بنانے کے لیے ان کے نظام کو اکھاڑ کر مزدور راج قائم کرنا پڑے گا۔ یہی نجات کا واحد راستہ ہے۔