امریکہ شمالی کوریا تنازعہ
شمالی کوریا کے حکمران ’کم جونگ اُن‘ کی ایٹمی ہتھیاروں کی شیخیاں کچھ لوگوں کو شاید احمقانہ لگیں لیکن ’اس حماقت میں بھی ایک منطق ہے‘۔
شمالی کوریا کے حکمران ’کم جونگ اُن‘ کی ایٹمی ہتھیاروں کی شیخیاں کچھ لوگوں کو شاید احمقانہ لگیں لیکن ’اس حماقت میں بھی ایک منطق ہے‘۔
آخری تجزیے میں یہ آزادی سامراجی حکمرانی کے خلاف لڑ کر حاصل نہیں کی گئی بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ڈر سے مقامی اشرافیہ کے سیاسی ٹولوں کے سامراج کیساتھ معاہدوں اور بوسیدہ سمجھوتوں کے ذریعے حاصل کی گئی۔
اعلیٰ سیاست دان کا معیار زیادہ بلند پیمانے کا جگت باز ہونا رہ گیا ہے۔ ایک تماشا لگا ہواہے جس کے گرد ریٹنگ بنتی ہے اور ٹیلی ویژن چینلوں کے اداکاروں کو صحافی اور سیاستدان بنانے کے معیار طے کرتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے مغربی رہنماؤں کی جانب سے داعش کی فیصلہ کن شکست اور اس کی ’’کمر توڑنے‘‘ کی باتیں شاید قبل از وقت ہیں اور اس بات پر یقین کرنے والوں کو شدید مایوسی ہوگی۔
اگر اقتدار بدل کر اِس سارے انتشار کو سمیٹنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو یہ بحران کم نہیں ہو گا۔
گزشتہ ستر برسوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک سے یہی سبق ملتا ہے کہ اس جدوجہد کو انقلابی پیمانے پر طبقاتی جڑت کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
اس سیمینار میں ڈنمارک کے بائیں بازو کے نمائندگان اور ٹریڈ یونین رہنماﺅں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ضیاالحق نے یہ مذہبی نعرہ دیا تھا کہ ’’بات اب تک بنی ہوئی ہے۔‘‘ بات بنی نہیں ہوئی ہے بلکہ بہت بگڑ چکی ہے اور مزید بگڑتی جارہی ہے۔
قلیل آبادیوں کو بڑے پیمانے کی مراعات دے کر عرب ممالک کی 2011ء کی عوامی تحریکوں سے بچ جانے والی خلیجی بادشاہتیں اب پرانے طریقوں سے نہیں چل سکتیں۔
قطری بادشاہت اس چھوٹے سے ملک کو خطے میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور درحقیقت خلیجی ممالک میں سعودی عرب کی تھانیداری کو چیلنج کر رہی ہے۔
اگر بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے تو گلی سڑی اور بوسیدہ ٹرانسمشن لائنیں اور ڈسٹریبیوشن انفراسٹرکچر اس اضافی پیداوار کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔
ڈار صاحب نے اس ملک کی کل معیشت کے صرف 27 فیصد کا بجٹ ہی پیش کیا ہے۔
ان دوروں میں واضح طور پر مذہبی منافرت کی پالیسی کے احیا کا عنصر شامل تھا اگرچہ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اور امن کے نام پر ہوا۔
ملاں اشرافیہ کی اِس رجعتی مذہبی آمریت میں انتخابات صرف سماجی دباؤ اور بغاوت کو تحلیل کرنے کی حد تک ہی ’جمہوری‘ ہوتے ہیں۔