بٹوارے کی آزادی کے 70 سال!

تحریر: لال خان، ترجمہ: حسن جان

اس سال پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات 14 اور 15 اگست کو اپنی ’آزادی‘ کیسترویں کی سالگرہ کے لیے پرتعیش تقریبات منعقد کریں گے۔ تاہم جو کچھ اگست 47ء میں ہوا تھا وہ بیسویں صدی کا سب سے خونریز قتل عام تھا۔ بعض آزاد تحقیقات کی طرف سے جنوب ایشیائی برصغیر کی تقسیم کے بعد مذہبی جنونیت کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد ستائیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ دو کروڑ سے زائد افراد کو اپنے آبائی گھروں اور علاقوں سے جبریہجرت پر مجبور کیا گیا جہاں وہ صدیوں سے رہ رہے تھے۔ انہیں ریڈکلف (ایک برطانوی افسر، جو اس سے پہلے کبھی برصغیر نہیں آیاتھا) کی برصغیر کو تقسیم اور معصوموں کا خون بہانے کے لیے کھینچی گئی مصنوعی لکیر کے دونوں اطراف ایک نامعلوم منزل کی تلاش میں خطرناک سفرپر مجبور کیا گیا۔
لیپیئر اور کولینز نے اپنی کتاب’’Freedom at Midnight‘‘میں بٹوارے کی فرقہ وارانہ درندگی کی منظر کشی کی ہے۔ ایک جگہ وہ اس پاگل پن کا شکار عورتوں کی حالت زار بیان کرتے ہیں، ’’اگر کوئی عورت سکھ یا ہندو ہوتی تو اس کے اغوا کے بعد تبدیلیِ مذہب کی تقریب ہوتی تاکہ نیلامی میں ملی اس ملکیت کو اس کے مسلمان مالک کے حرم کے قابل بنایا جاسکے۔ سکھوں کے دسویں گرو ’گوبند سنگھ ‘نے اپنے پیروکاروں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ خصوصاً جنسی تعلقات قائم کرنے سے منع کیا تھا۔ نتیجتاً سکھوں میں ایک تاثر ابھرا تھا کہ مسلمان عورتیں مخصوص جنسی صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہیں۔ پنجاب میں ہونے والے واقعات کے زیر اثر سکھوں نے اپنے گرو کی تعلیمات کو فراموش کردیا۔ اس جنونیت میں وہ ہر جگہ مسلمان عورتوں پر جھپٹ پڑے اور پنجاب کے اس حصے میں حتیٰ کہ مسلمان لڑکیوں کی اغوا کاری کا ایک کاروبار وجود میںآگیا۔ ‘‘
یہ ایک مجرمانہ بٹوارہ تھا جسے برطانوی سامراجیوں نے مقامی حکمران ٹولوں اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر سرانجام دیا۔ ہندوستان میں برطانوی راج کی نوآبادیاتی حکمرانی دو سو سال سے زائد عرصے تک چلی اورجب اپنے تاریخی زوال کی وجہ سے انہیں یہاں سے نکلنا پڑا تو انہوں نے جاتے ہوئے قدیم رومی بادشاہوں کی ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی پالیسی کو لاگو کیا۔ برطانوی سامراجی اس بات پر مصر تھے کہ ہندوستان کو متحد نہیں چھوڑنا۔ ونسٹن چرچل نے ہندو مسلم تضاد کو ہندوستان میں برطانوی راج کا پشتہ قرار دیا تھا۔ ا س کے بقول’’ اگر یہ تضاد حل ہوجائے تو یہ متحد ہوکر ہمیں باہر کا راستہ دکھائیں گے۔ ‘‘ ہندو اور مسلمان اشرافیہ اور گماشتہ سرمایہ دار طبقے کا کردار بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں تھا جنہیں ان کے برطانوی آقاؤں نے ’قومی بورژوازی‘ کے طور پر تخلیق کیا تھا۔ لیون ٹراٹسکی نے انتہائی مہارت سے اس مقامی حکمران طبقے کے حقیقی کردار کو واضح کیا تھا جن کا سب سے نامور لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی تھا۔ ٹراٹسکی نے 1939ء میں لکھا تھا، ’’ہندوستانی بورژوازی ایک انقلابی جدوجہد کی قیادت کرنے کی اہل نہیں ہے۔ وہ برطانوی سرمایہ داری کے ساتھ جڑی ہوئی اور اس پر منحصر ہے۔ انہیں اپنی جائیدادوں کی فکر ہے۔ وہ عوام سے ڈرتے ہیں۔ وہ برطانوی سامراج کے ساتھ کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بورژوازی کا پیامبر اور رہنما گاندھی ہے۔ جو ایک جعلی لیڈر اور جھوٹا پیغمبر ہے۔ غلامی کا دہرا طوق۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہندوستان کے عوام گاندھی، سٹالنسٹوں اور ان کے دوستوں کی پیروی کرتے ہیں تو جنگ کا ناگزیر نتیجہ یہی ہوگا۔‘‘
گاندھی نے شاطرانہ انداز میں مذہبی تعصبات اور جنونیت کو سیاستسے جوڑا اور تفریق اور نفرت کے جذبات کو ہوا دی۔ گاندھی سے پہلے سیاست میں ہندوبنیادپرست تنظیمیں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ اس کی پوشیدہ اشتعال انگیزی سے مذہبی جنونیت نے ’بین الامذاہب ہم آہنگی‘ کے نام پر سیاست میں جگہ بنائی۔ ہندو مہا سبھا اور راشٹریا سویم سیوک سنگھ جیسی تنظیموں نے اسی دور میں ایک ہندو قوم کے نظریے کو پروان چڑھایا تھا۔ طبقاتی جدوجہد کی پسپائی بالخصوص 1946ء کی بغاوت اور عام ہڑتال کی ناکامی کے بعد سماج میں مذہبی انتہاپسندی کے رجحانات پیدا ہوئے۔
تحریک آزادی میں مسلمان سیاسی ٹولوں کا کردار گاندھی سے کم رجعتی نہیں تھا۔ طبقاتی کشمکش کی پسپائی سے سیاست میں مذہبیت چھا گئی۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جناح نے گاندھی کو سیاست میں مذہب کو لانے کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ جناح کو پاکستان کا بانی تصور کیا جاتا ہے جو اس کے سیکولر نعروں کے برعکس اپنی بنیادوں میں ایک مذہبی ریاست تھی۔ 28 جنوری 1933ء میں جناح نے پاکستان کے خیال کا مذاق اڑایا اور اسے ’’ایک ناممکن خواب‘‘ قرار دیا۔ ایک دہائی بعد وہ ایک ایسی جماعت کی سربراہی کررہا تھا جو الیکشن جیتنے کے لیے مذہبی تعصب کا استعمال کر رہی تھی۔
اس جنونیت کو اتنی ہوا دی گئی کہ بٹوارے کے دوران اثاثوں کی تقسیم اور زیادہ سے زیادہ مال ہتھیانے کی لالچ نے ایک بیہودہ ترین شکل اختیار کر لی۔ مسلمان انتہاپسند تاج محل کو توڑ کر اسے پاکستان لے جانا چاہتے تھے کیونکہ اسے ایک مغل بادشاہ نے تعمیر کیا تھا۔ ہندو انتہاپسند چاہتے تھے کہ دریائے سندھ پر ان کا قبضہ ہو کیونکہ ان کے مطابق مقدس ویدوں کو دو ہزار سال پہلے اسی دریا کے کنارے لکھا گیا تھا۔
آخری تجزیے میں یہ آزادی سامراجی حکمرانی کے خلاف لڑ کر حاصل نہیں کی گئی بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ڈر سے مقامی اشرافیہ کے سیاسی ٹولوں کے سامراج کیساتھ معاہدوں اور بوسیدہ سمجھوتوں کے ذریعے حاصل کی گئی۔ بٹوارہ درحقیقت ایک رد انقلاب تھا۔ اس خونی تقسیم سے ایک سال پہلے برطانوی راج کے خلاف برصغیر میں ایک انقلابی تحریک چلی تھی۔ جس کا آغاز رائل انڈین نیوی کے سپاہیوں کی بغاوت سے ہوا تھا جسے عام طور پر انڈین نیوی کی 1946ء کی بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے جب 18 فروری کو HMIS تلوار کے 1100 سپاہیوں نے کام روک دیا اور علی الصبح ہی ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
سپاہیوں نے متفقہ طور پر سگنل مین ایم ایس خان، پیٹی افسر ٹیلی گرافسٹ مدن سنگھ اور سگنلر بیدی بسنت سنگھ، جو بالترتیب مسلمان، ہندو اور سکھ تھے،کو اپنے نمائندگان کے طور پر منتخب کیا اور شعوری طور پر برطانوی سامراج اور ان کے نوآبادیاتی گماشتوں کی پھیلائے ہوئے مذہبی تعصبات کو مسترد کردیا۔ ہڑتال بمبئی کی بندرگاہ سے شروع ہوئی اور جنگل میں آگ کی طرح کراچی، مدراس، وشاکھا پٹنم، کلکتہ، دہلی، کوچین، جام نگر اور جزائرِ انڈمان کی فوجی تنصیبات تک پھیل گئی اور حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ میں بحرین اور عدن کے ساحلوں تک جا پہنچی۔ گاندھی نے کھلم کھلا اس ہڑتال کی مذمت کی اور جناح نے اسے غیر آئینی قرار دیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ تحریک کے انقلابی کردار سے خوفزدہ تھے اور انہیں ڈر تھا کہ تحریک آزادی میں ان کے بوئے ہوئے مذہبی تعصبات کو طبقاتی جدوجہد چیر دے گی۔ انہوں نے ہر طرح سے اس بغاوت کو کچلنے کی سازش کی۔
24 فروری 1946ء کو سیاہ پرچم لہرا کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا گیا۔ اپنی آخری نشست میں ہڑتالی کمیٹی نے ایک قرارداد پاس کی جس کا متن تھا کہ ’’ہماری بغاوت ہمارے لوگوں کی زندگی میں ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ پہلی دفعہ باوردی اور بغیر وردی کے مزدوروں کا خون ایک ہی مقصد کے لیے بہا ہے۔ ہم باوردی مزدور اس بات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ ہمارے پرولتاری بہن بھائی بھی اس بات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ آنے والی نسلیں اپنے اسباق سیکھتے ہوئے اس مقصد کی تکمیل کریں گی جسے ہم مکمل نہ کرسکے۔ محنت کش عوام زندہ باد! انقلاب زندہ باد!‘‘
درحقیقت برطانوی سامراج کو دہائیوں کی ہڑتالوں، عوامی مظاہروں اور بھگت سنگھ اور ہندوستان سوشلسٹ ریولوشنری یسوسی ایشن (HSRA) کے ساتھیوں کی مسلح جدوجہدوں کی وجہ سے مجبوراً ہندوستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ کلکتہ سے لے کر کراچی، دہلی اور کولمبو تک پولیس، ایئر فورس اور فوج میں بغاوتیں ہورہی تھیں۔ صنعتی ہڑتالیں بمبئی، کلکتہ، اللہ آباد، دہلی، مدراس، کراچی اور متعدد دوسرے بڑے شہروں میں پھیل گئیں تھیں۔ یہ بغاوتیں جبر، گرفتاریوں، تشدد اور حتیٰ کہ گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود جاری تھیں۔ ہندوستان کے نومولود پرولتاریہ نے تحریک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
نیوی کی بغاوت کی مرکزی ہڑتالی کمیٹی کے نائب صدر مدن سنگھ نے سالوں بعد چندی گڑھ کے اخبار ’دی ٹریبیون‘ کوانٹرویو دیتے ہوئے اُس وقت کے برصغیر ہندوستان میں پھیلی انقلابی کیفیت کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ ’’بغاوت پھوٹ پڑنے کے بعد ہمارا پہلا کام بی۔ سی۔ دت کو آزاد کرانا تھا جو جنرل اوچنلک کے دورے کے وقت گرفتار ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم نے بُچر جزیرے (بمبئی پریزیڈنسی کا ساراگولہ بارود یہیں ہوتا تھا) اور پونہ کے قریب کِرکی پر قبضہ کیا۔ ہماری پھرتی کی وجہ سے ستر کشتیاں اور بیس سمندری تنصیبات ہمارے کنٹرول میں تھیں۔ ہم نے سویلین ٹیلی فون ایکسچینج، کیبل نیٹ ورک اور سب سے بڑھ کِرکی میں ٹرانسمیشن سینٹر پر بھی قبضہ کرلیا جو ہندوستان کی حکومت اور برطانیہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھا۔‘‘
پی وی چکرورتی نے مارچ 1976ء میں لکھا: ’’جب میں 1956ء میں مغربی بنگال کا گورنر تھا، لارڈ کلیمنٹ ایٹلی، جو بعد از جنگ برطانیہ کا وزیر اعظم تھا ، راج بھون کلکتہ میں رہ رہا تھا۔ میں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اس سے سوال کیا: ’’گاندھی کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘ 1947ء سے بہت پہلے ختم ہوچکی تھی اور ہندوستان میں اس وقت ایسی کوئی تحریک نہیں تھی کہ برطانیہ فوری طور پر ہندوستان کو چھوڑ دے۔ پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ جواب میں ایٹلی نے بہت سی بغاوتوں بشمول آئی این اے (ڈاکٹر سبھاش چندربوس کی باغی فوج) اور رائل انڈین نیوی کی بغاوت کا ذکر کیا جس نے برطانیہ کو یہ باور کرایا کہ اب وہ مزید ہندوستانی فوج پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ جب اس سے یہ سوال کیا کہ گاندھی کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا ان کے فیصلے پر کتنا اثر تھا تو کلیمنٹ ایٹلی نے حقارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’نہایت قلیل‘‘۔
تاہم ماسکو میں موجود سٹالنسٹ کامنٹرن اور اس کی گماشتہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مجرمانہ کردار نے عوامی انقلابی تحریک کو ایک انقلابی قیادت اور حکمت عملی سے محروم کیا۔ پہلے تو انہوں نے فاشزم کے خلاف لڑنے کے نام پر دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی سامراجیوں کی حمایت کی اور اس کے بعد انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کی ان کے بقول ’ترقی پسند بورژوازی‘ کے ساتھ’عوامی محاذ‘ بنانے کی تباہ کن پالیسی اپنائی جس نے انقلاب کو کچل دیا اور بٹوارے کی ہولناکیوں کا باعث بنی۔ بٹوارے کے المیے میں انہیں ان کے اس تاریخی مجرمانہ کردار سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جس نے اس وقت سے نسل انسانی کے پانچویں حصے کے لیے جبر، محرومی، غربت، بربادی اور بڑھتی ہوئی ذلتوں کو جنم دیا ہے۔
جنوب ایشیائی برصغیر دنیا کی سب سے قدیم تہذیب ’وادی سندھ کی تہذیب‘ کا گہوارہ ہے۔ اس میراث اور بعد کے نسبتاً خوشحال سماجوں نے مختلف شعبوں سائنس، ثقافت اور آرٹ میں انسانی علم میں ترقی کے عمل کو جلا بخشی۔ ادبی تاریخ میں شاعری اور نثر کی عظیم تخلیقات نے جنم لیا۔ قدیم عہد میں جنوب ایشیائی برصغیر کو اپنی جدید معیشت اور زراعت کی وجہ سے ایسی سرزمین کا نام دیا گیا کہ جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ سلطنت روم کے زوال کے بعد جب یورپ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا تو برصغیر کی معیشت، سماج، آرٹ اور ثقافت بام عروج پر تھیں۔ تین ہزار سالوں میں یہاں متعدد حملے ہوئے لیکن تمام حملہ آور قبائل اور فوجیں یہاں کی پیشرفتہ ثقافت اور زمین کی زرخیزی میں جذب ہوگئے۔ برطانوی وہ پہلے حملہ آور تھے جو اس میں جذب نہیں ہوسکے۔
لیکن یہاں کے دولتمند شاہی خاندانوں کی قدامت پسندی اور جمود کی وجہ سے ہندوستان کی ترقی رک گئی اوریہ پچھلے ہزاریے کے دوسرے حصے میں یورپ سے پیچھے رہ گیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد مغرب نے جدید سائنسی، عسکری اورتکنیکی صلاحیتیں، پیداوار اور آلات ایجاد کیے۔ اس سے مغرب کو وہ برتری حاصل ہوئی جس سے وہ یہاں کی متروک تکنیک، ریاست اور سماجی ساخت پر حاوی ہوگیا۔ برطانوی نوآبادکاری سے لوٹ مار نے نئی شکل اختیار کر لی جس سے یہاں کی مقامی صنعت، معیشت اور ثقافت برباد ہوگئی اور خطے کی دولت کو سامراجی لوٹ کر لے گئے۔
اس جھوٹی آزادی کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر عوام آج بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ برصغیر کے رجعتی حکمران طبقات آج بھی مذہبی اور قومی نفرتوں کی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس نے 1947ء کی خونی تقسیم کو جنم دیا۔ ریاستوں کی عسکری اور سویلین بیوروکریسی اس نام نہاد دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے ان سماجوں کے وسائل کو لوٹ رہی ہے۔ سرمایہ دار اور زمیندار اشرافیہ کی باقیات دولت کی ہوس میں بے تحاشا استحصال کر رہے ہیں۔ اسلامی اور ہندوبنیادپرستی کے ان داتا اس لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے فرقہ واریت کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ کالے سرمائے کے مالکان دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت سے کمائی گئی مجرمانہ دولت سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
محنت کش عوام نسلوں سے اذیت میں ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق آج عوام کی صحت کی حالت 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت سے زیادہ خراب ہیں۔ اس خطے میں دنیا کی بیس فیصد آبادی بستی ہے لیکن سیارے کی 40 فیصد غربت بھی یہاں ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں لیکن ناکافی غذا کی وجہ سے 44 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما نامکمل ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات جدید صنعتی قومی ریاستیں بنانے کے فرائض میں ناکام ہوگئے ہیں۔ قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک بھی فریضہ مکمل نہیں ہوا۔ یہ دنیا کے اسلحے کے دس بڑے خریداروں میں شامل ہیں لیکن تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں بھی آگے ہیں۔ ہندوستان کی ’سب سے بڑی جمہوریت‘ میں ہندو بنیادپرست اقتدار میں ہیں اور پاکستان میں حکمران طبقات سیاہ رجعت کے ذریعے مذہب کے نام پر عوام پر جبر کر رہے ہیں۔ اس کی عسکری اسٹیبلشمنٹ اسی مذہبی تنگ نظری پر پلتی ہے۔
1577ء میں جب اکبر کے دور میں مغلوں کی حکومت اپنے عروج پر تھی، برصغیر ہندوستان مغرب میں کابل سے لے کر مشرق میں رنگون تک پھیلا ہوا تھا۔ اب سامراج نے برصغیر کو کاٹ کر الگ الگ ریاستیں تخلیق کر دی ہیں تاکہ سامراجی جبر اور لوٹ مار کو جاری رکھ سکیں۔ شمال میں برصغیر کو میکموہن لائن کے ذریعے چین اور تبت سے الگ کیا گیا۔ اس لائن کو ہنری مکموہن نے 1914ء میں کھینچا تھا۔ مغرب میں افغانستان کو نام نہاد ڈیورنڈ لائن کے ذریعے 1893ء میں تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح برما کو 1937ء میں برصغیر سے الگ کیا گیا۔ ریڈکلف لائن کے ذریعے نیپال، پنجاب اور بنگال کو کاٹ کر نئی ریاستیں تخلیق کی گئیں۔ ان تقسیمات نے اس یکجا ہندوستان کو ختم کردیا جو کبھی ہوا کرتا تھا، آج یہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیشن اور دوسری ریاستوں میں تبدیل ہوچکاہے۔ ان سامراجی لکیروں کے اندر وادی سندھ اور گنگا کی عظیم تہذیبیں گُھٹ کر برباد ہوگئی ہیں۔
آبادی کا وسیع حصہ غربت اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ صنعتی انفراسٹرکچر اور عوام کی حالت پر ایک سرسری نظر ہی حکمرانوں کی ترقی اور نمو کے دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ ریاستوں کی شکل میں وجود میں آئے لیکن دونوں ممالک کے حکمران طبقات آج تک عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکے۔ پورا برصغیر ایک بھونچال کی حالت میں ہے۔
ان ستر سالوں میں نوجوانوں اور محنت کش طبقات نے جابر ریاستوں اور سماجی معاشی نظام کے خلاف شاندار لڑائیاں لڑی ہیں۔ 1978ء میں افغانستان کے ثور انقلاب سے لے کر پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک تک‘ جب رائج الوقت ملکیتی رشتوں کو چیلنچ کیا گیا، سماج کو تبدیل کرنے کے لیے عوام نے اَن گنت لڑائیاں لڑیں اور تحریکیں چلائیں۔ افق پر مزید طوفانی واقعات ہونے ہیں۔ ایک نئی عوامی بغاوت ایک فتح مند سرکشی تک جاسکتی ہے۔ خطے کے کسی بھی ملک میں مزدوروں، نوجوانوں اور غریب کسانوں کی فتح ناگزیر طور پر پورے جنوب ایشیائی برصغیر میں انقلابی لہر کو پھیلا دے گی۔ انقلابات صرف معیشتوں اور ریاستوں کو تبدیل نہیں کرتے۔ یہ تاریخ کے دھارے اور بوسیدہ اور رجعتی سرمایہ دارانہ ریاستوں کے جغرافیوں کو بھی تبدیل کردیتے ہیں۔ اس خطے میں ایک انقلاب اٹھان سامراجیوں اور ان کے مقامی گماشتوں کی طرف سے کھینچی گئی مصنوعی سرحدوں کو پاش پاش کردے گی۔ عوامی تحریک کی یہ کامیابی اس مجرمانہ تقسیم کو بھی ختم کردے گی۔ یہ تاریخی جست ڈیڑھ اَرب انسانوں کو جنوبی ایشیا کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن میں متحد کرے گی۔