استحصالی معیشت کی شعبدہ بازیاں
نودولتیوں کی اس حکومت کے ماہرین اور جگادری ان وارداتوں کو نئے نئے نام دیں گے۔
نودولتیوں کی اس حکومت کے ماہرین اور جگادری ان وارداتوں کو نئے نئے نام دیں گے۔
’’کارخانے کس طرح چلیں ننھے آقا! جبکہ ان کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوسکتا‘‘
صدام خاصخیلی نے عالمی و ملکی معیشت، سیاست، سفارت اور سرمایہ داری کے بحران کے ان تمام عوامل پر اثرات بیان کئے۔
مارکسی فلسفہ ایک بین الا قوامی مظہر ہے۔ یہ ساری دنیاکے محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد کے تجربے کانچوڑ ہے۔
اس کھیل کے پیچھے چھپی معاشی بنیادوں کو زیر بحث لایا جانا اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات ہی وقت کی ضرورت ہیں۔
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔
’’یہ مزدور تحریک کی طاقت تھی جس کے نتیجے میں سویڈن کی فلاحی ریاست وجود میں آئی۔‘‘
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نذیر عباسی ایک عظیم انقلابی تھا جس نے آمر جنرل ضیاالحق کی بدترین آمریت کے دوران بھی انقلاب کا علم اٹھائے رکھا۔
تمام مقررین نے حقیقی معاشی اور سماجی آزادی کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
بظاہر ان طلبہ مظاہروں کا مرکز و محور’روڈ سیفٹی‘ ہے لیکن درحقیقت یہ عوام بالخصوص نوجوانوں کا پورے نظام کے خلاف غم و غصہ کا اظہار ہے۔
لوگوں کی ٹولیاں الیکشن کے دن علی کو ووٹ ڈالنے ایسے آ رہی تھیں جیسے انقلابی سرکشی کا سماں ہو۔
پہلا سیشن ’سوشلزم کیا ہے؟‘ کے عنوان سے تھا جبکہ دوسرے سیشن میں خاموش پانی فلم دکھائی گئی۔
’جب تک جنتا بھوکی ہے یہ آزادی جھوٹی ہے‘ کے نعرے کے ساتھ مہنگائی ، بیروزگاری اور نجکاری کے خلاف گول باغ چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
سیفی، بابر پطرس، عمر شاہد، شمس اور دیگر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے تقسیم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد تیز کرنے پر زور دیا۔