استحصالی معیشت کی شعبدہ بازیاں

تحریر: لال خان

تحریک انصاف کی حکومت کے ’پہلے سو دن‘ کے دکھائے گئے خواب ایک مکروہ فریب ثابت ہورہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی یہ بات کہ ’’فوج حکومت کے ساتھ ہے اور ہم نے نو دنوں میں وہ کچھ کیا ہے جو کوئی حکومت پانچ سال میں نہ کر سکی‘‘ حکومت کے پروپیگنڈا گُرو کی حماقت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس بیان سے رعونت اور اکڑکی بو آتی ہے۔ سرکاری گاڑیوں کی فروخت، سرکاری ریسٹ ہاؤسز اور عمارات کی نیلامی، سادگی اور کفایت شعاری کے ڈھونگ اور دیگر شعبدہ بازیوں میں کروڑوں محروم لوگوں کو قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ عوام کو حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں سب سے پہلے اپنی زندگیوں میں آنے والی مثبت یا منفی تبدیلیوں سے سروکار ہوا کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کے سخت شرائط والے قرضے لینے میں فی الوقت دکھاوے کی ہچکچاہٹ اور پارلیمنٹ سے منظوری لینے کی بات بھی ڈھونگ ہے۔ ویسے ان حالات میں جو بھی قرضہ دے گا اس کی شرائط آئی ایم ایف سے کچھ مختلف نہیں ہوں گی۔ ان شرائط کے بوجھ سے سرمایہ داروں کی عیاشیوں اور لوٹ مار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو اپنی دولت میں مزید اضافے کے لیے ہی اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں یا اپنے سیاسی نمائندوں کو بھیجتے ہیں۔ اس ملک کے کروڑوں غریبوں کے حالات زندگی بہرحال مزید تلخ ہو جائیں گے۔
سامراجی اداروں کی سخت شرائط کو پورا کرنے کے لیے عوام پرجو وحشیانہ معاشی حملے کئے جا چکے ہیں اور جن مزید عوام دشمن اقدامات کی تیاریاں جاری ہیں انہیں نوازشریف کی حکومت نے بڑی عیاری سے ملتوی کئے رکھا تھا۔ انہوں نے آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے عوام پر یہ بوجھ ڈالنے میں تاخیر کی لیکن جلد یا بدیر ناگزیر طور پر انہیں بھی یہ سب کرنا ہی تھا جو اب کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ اَرب پتیوں کیساتھ اپنے آغاز سے ہی ایک سرمایہ دارانہ پارٹی ہے۔ اب یہ جارحانہ انداز میں اقتدار بخشنے والی قوتوں اور حکمران طبقات کے اعتماد پر پورا اترنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کے شدید بحران کی اس کیفیت میں محنت کش اور غریب طبقات کا خون نچوڑ کر ہی سامراجی مالیاتی اداروں اور مقامی بدعنوان اور رجعتی حکمران طبقات کی نہ ختم ہونے والی دولت کی ہوس کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سابقہ ملازم کو وزیر خزانہ لگایا گیا ہے اور نیولبرل معاشیات کے پرانے جگادریوں پر مشتمل ’ای سی سی‘ تشکیل دی گئی ہے۔ ’نیا پاکستان‘ تخلیق کرنے والی اِس ٹیم میں عاطف میاں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو عالمی سطح پر سرمایہ داری کے معیشت دانوں میں مشہور نام ہے۔ عاطف میاں اور عامر صوفی، جو امریکہ میں پرنسٹن اور شکاگو یونیورسٹی کے دو مشہور معیشت دان ہیں، نے سرمایہ داری کے بحرانات کے حوالے سے اپنی کتاب ’’House of Debt‘‘میں جو کینشین نسخہ پیش کیا ہے وہ 1970ء کی دہائی میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں ناکام ہو چکا ہے۔ دراصل اس کتاب میں قرضوں، بالخصوص عام لوگوں کے قرضوں (Household Debt) کو سرمایہ داری کے بحران کی وجہ قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ قرضے اس بحران کی علامات میں سے ایک ہیں، نہ کہ اس کی بنیادی وجہ۔ اصل وجوہات، جن میں سے سرفہرست ہے شرح منافع میں گراوٹ کا رجحان ہے، کو وہ ہوشیاری سے نظرانداز کرجاتے ہیں۔ یہ نام نہاد ’اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی‘ بس عوام پر وحشیانہ حملوں اور کٹوتیوں کو زیادہ پیچیدہ اور پرفریب انداز میں پیش ہی کر سکتی ہے۔
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد عمران خان کی منظوری سے ہونے والا پہلا ’بے باک‘ اقدام گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں دو روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے جس سے صارفین پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اسی طرح چھوٹے اور غریب صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں 186 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ اوسط اضافہ 46 فیصد تک ہے۔ ٹول ٹیکس 10 فیصد بڑھا دیا گیا ہے، کھاد کی قیمتوں میں 200 سے 800 روپے تک کا اضافہ ہے، ایل پی جی فی کلو 70 روپے مہنگی کر دی گئی ہے، شناختی کارڈ فیس میں بھی ایک ہزار روپے اضافے کی خبرہے۔ دو سو اداروں کی نجکاری کا اعلان تو تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ یوٹیلیٹی سٹورز کا منصوبہ بھی بند کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف غریب صارفین متاثر ہوں گے بلکہ ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں محکمہ صحت کے ہزاروں ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ ان تمام اقدامات سے سماج کی محروم ترین پرتوں کی زندگیاں برباد ہوں گی۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے پر وزارت کے ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ’’ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ‘‘
1990ء کی دہائی کے وسط سے تمام حکومتوں کا اہم مسئلہ توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے رہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی گردشی قرضوں کے اِس نازک اور خطرناک معاملے کو کھوجنے کی جرأت نہیں کرتاکیونکہ اس سے آئی پی پیز کے بیرونی اور مقامی مالکان کی لوٹ مار سامنے آجائے گی۔ ان ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کے منافعوں کی اصل شرح کا کچھ پتا نہیں۔ یہ سیاسی اور ریاستی اشرافیہ آپس میں جتنا بھی لڑتی رہے، عام لوگوں کی قیمت پر ہوشربا منافعے کمانے والی اِن کمپنیوں سے لیے گئے کمیشن اور مراعات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔ مشہور زمانہ سوئس بینک کیس ایک مثال ہے جس میں 65 ملین ڈالر کمیشن کی رقم کو اس سرزمین کے سب سے بدعنوان شخص کے اکاؤنٹ میں منتقل کیاگیا تھا۔ یہ رقم دو دہائیوں سے زیادہ عرصے بعد بھی واپس نہیں لائی جا سکی۔ موصوف بعد ازاں تمام مقدمات سے بری قرار پائے۔
ایک اندازے کے مطابق 2015ء تک اِن آئی پی پیز کا مجموعی منافع اس رقم کے پانچ گنا سے تجاوز کر چکا تھا جس سے 1995ء میں انہوں نے یہ پلانٹ لگائے تھے۔ یعنی اگر توانائی کے شعبے کو ریاستی کنٹرول میں لے کر اس نجی لوٹ مار کو روکا جاتا اور نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی تو 2015ء تک بجلی کی پیداوار ان آئی پی پیز کی پیداوار سے پانچ گنا زیادہ ہوتی۔ عین ممکن ہے ان آئی پی پیز کے منافعے اس سے بھی کہیں زیادہ ہوں۔ گیس کے شعبے میں بھی اسی طرح کے غیرملکی اورمقامی نجی سرمایہ کار ہیں جن سے ’SSGPL‘ اور ’SNGPL‘ گیس خریدتے ہیں۔ اس نام نہاد نئے پاکستان کی حکومت بھی ان سرمایہ داروں کے اثاثوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکے گی۔ یہ اس نظام میں مقدس گائے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ماضی کی ہر حکومت کی طرح غریبوں پر بالواسطہ ٹیکس لگا لگا کر خسارے پورے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مہنگائی کے ایک نئے طوفان کی آمد ہے۔ مذکورہ بالا اقدامات کے پیش نظر آنے والے دنوں میں افراط زر شاید ڈبل ڈیجٹ تک چلا جائے۔ اس بحران زدہ سرمایہ داری کی حدود میں یہی ہوسکتا ہے۔ نودولتیوں کی اس حکومت کے ماہرین اور جگادری ان وارداتوں کو نئے نئے نام دیں گے۔ لیکن یہ شعبدہ بازیاں تیزی سے عیاں ہو رہی ہیں اور پی ٹی آئی سے وابستہ خوش فہمیاں بھی ختم ہو رہی ہیں۔
یہاں صرف محنت کشوں کی انقلابی حکومت ہی سامراجی اور مقامی سرمایہ داروں کے اثاثوں کو ضبط کرکے ہر شعبے میں منافع خوری اور لوٹ مار کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ان گردشی قرضوں کا خاتمہ اور عوام کی بجلی اور گیس تک مستقل اور سستی رسائی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب توانائی کے تمام پیداواری اثاثوں کو ریاستی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیا جائے۔ لیکن ایسے تاریخی اقدامات کے لئے سماج میں ایک گہری انقلابی تبدیلی درکار ہے جس کے تحت تمام تر پیداوار کا مقصد نجی منافع خوری کی بجائے اجتماعی ضروریات کی تکمیل بنایا جائے۔