پیپلز پارٹی کے پچاس سال: گولڈن جوبلی یا برسی؟
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔
آج پچاسویں سالگرہ پر اِس بنیادی پروگرام سے پارٹی قیادت کے کھلے انحراف کو سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ غور و خوض کی ضرورت نہیں ہے۔
ایشیائی خطوں خصوصاً برصغیر میں کلاسیکی شکل میں غلام داری اور جاگیرداری کبھی بھی وجود نہیں رکھتی تھی۔
سوویت طلبہ بیرون ممالک سے آنے والے طلبہ سے پوچھتے کہ آپ کی حکومت تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپکو کتنے پیسے دیتی ہے۔
انقلابِ روس انسانیت کی عظیم تاریخی جست تھی جس نے تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لئے موڑ دیا۔ اس کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ پورے کرہ ارض پر حکمران طبقات کے تخت لرزنے لگے۔
تحریر: لال خان کتاب لکھنے میں ملالہ یوسف زئی کی معاونت کرنے والی مصنفہ کرسٹینا لیمب نے1989ء میں پاکستان کے بارے میں گہرے تجزیئے پر مشتمل ایک مشہور کتاب ’’Wating For Allah‘‘ ( اللہ کا انتظار) لکھی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر بھٹو اپنی قبر […]
اس کی شہادت کے پچاس سال بعد بھی اس کی جدوجہد نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے اور کئی اسباق سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کی یادیں آج بھی محروم اور محکوم طبقات کی امیدوں اور ارمانوں کو جلا بخشتی ہیں۔
آخری تجزیے میں یہ آزادی سامراجی حکمرانی کے خلاف لڑ کر حاصل نہیں کی گئی بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ڈر سے مقامی اشرافیہ کے سیاسی ٹولوں کے سامراج کیساتھ معاہدوں اور بوسیدہ سمجھوتوں کے ذریعے حاصل کی گئی۔
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔
’’مارکسزم ناقابل شکست ہے کیونکہ یہ سچ ہے۔‘‘
موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانا، ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
اپنی تمام تر خامیوں اور اندرونی تنظیمی مسائل اور جھگڑوں کے باوجود یہ انقلاب سماج کے لیے آگے کی جانب ایک عظیم قدم تھا۔
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔
موجودہ حکمران طبقات، اُن کے ادارے اور سماجی و معاشی نظام اس فسطائیت اور جنونیت کو روکنے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ تو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس میں شریک ہیں۔