اکہتر سال میں تیسرا ’نیا پاکستان‘
تحریک انصاف کی نامرادی کا آغاز برسراقتدار آنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔
تحریک انصاف کی نامرادی کا آغاز برسراقتدار آنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی قیادت اپنے مذموم مقاصد کے لئے دولت و اقتدار کے لالچ میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو کے عدالتی قتل کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کر رہی ہے۔
نوجوان انقلابیوں کے لیے فرانس کے 1968ء کے انقلاب سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
مروجہ نظریات اور رجحانات نے مارکس کو مسلسل اور بے رحم جدوجہد کرنے اور بعض اوقات انتہائی وحشیانہ اور ننگ انسانیت ذاتی حملوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور کیا۔
ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود مارکس نے ایک فاقہ مست انقلابی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔
یہ یومِ مئی غیر معمولی حالات میں منایا جا رہا ہے۔ اس نظام کی معیشت، سیاست اور ریاست کے بڑھتے ہوئے تضادات محنت کش طبقے کی توجہ کے متقاضی ہیں۔
27 اَپریل 1978ء کو برپا ہونے والا افغان ثور انقلاب وہ واقعہ تھا کہ آج چالیس سال بعد بھی اس کے اثرات پورے خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔
طلبہ کے انقلابی کردار اور مداخلت نے برصغیر کی انقلابی تحریکوں کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھٹو کی زندگی اور موت کا سبق یہ ہے معروضی صورتحال کے ساتھ افراد بھی بدلتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی حرارت میں ریڈیکل بھی ہو جاتے ہیں۔
’’اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں دوبارہ اسی راستے پر چلوں گا کیونکہ زندگی میں سماج کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا عظیم مقصد ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
تنگ نظر شعور، چھوٹی سوچ اور سطحی فکر صرف وقتی کیفیات اور ظاہریت تک محدود ہوتی ہے۔
پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں منوبھائی کا ناقابل فراموش کردار ہے جو کالم نگاری، اردو ادب، ٹی وی ڈرامے اورشاعری میں ان کے بے مثال کردار سے بھی زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔