پیپلز پارٹی: بھٹو اور زرداری؟

تحریر: لال خان

کتاب لکھنے میں ملالہ یوسف زئی کی معاونت کرنے والی مصنفہ کرسٹینا لیمب نے1989ء میں پاکستان کے بارے میں گہرے تجزیئے پر مشتمل ایک مشہور کتاب ’’Wating For Allah‘‘ ( اللہ کا انتظار) لکھی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر بھٹو اپنی قبر سے نکل کر واپس اس ملک کی حکومت اور سیاست آن کر دیکھے تو وہ پیپلز پارٹی کو پہنچاننے سے انکار کردے گا۔ آج 2017ء میں اسی پیپلز پارٹی کی حالتِ زار کا اندازہ کرسٹینا لیمب کے 1989ء کے تبصرے سے لگایا جا سکتا ہے۔
اگر ہم1967ء او ر2017ء کی پیپلز پارٹی کا تقابلی جائزہ لیں تو ایسے میں بھٹو اگر آج آ جائے تو صدمے سے نڈھال ہو کر رہ جائے۔ یہاں صرف کچھ نکات پیش نظر ہیں جن میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کے بارے میں (B) سے تذکرہ ہے جبکہ زرداری کی پیپلز پارٹی کے فضائل (Z) سے شروع ہونے والے جملوں میں بیان کیے گئے ہیں۔
(B) 30 نومبر 1967ء کو جس پیپلز پارٹی کا جنم ہوا تھا وہ ایک نئی پارٹی تھی۔ نہ اسکے پاس کوئی میراث تھی، نہ دولت اور نہ ہی ریاستی پشت پناہی۔
(Z) موجودہ قیادت نے اس میراث کا بے دریغ استعمال کیا اور تین مرتبہ اقتدار حاصل کرنے اور مزے لوٹنے کے بعد اس میراث کو قریب المرگ کر دیا ہے۔
(B ) پیپلز پارٹی کا جنم ایک نظریاتی سیاست اور پروگرام پر مبنی تھا۔ انقلابی سوشلزم کے منشور نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بنا دیا تھا۔
(Z) انقلابی سوشلزم کو اس بے دردی سے مسترد اور مجروع کیا گیا کہ اب یہ قیادت اپنے آپ کو ’’مارکسسٹ‘‘ بھی کہنا شروع کر دے تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ راتوں رات بننے والی سب سے بڑی پارٹی آج ایک صوبے تک ریاستی اور سامراجی صوابدید سے حکومت چلا رہی ہے۔ یہ اب میڈیا کے تمام ترزور لگانے پر تیسرے چوتھے یا پانچویں نمبرپرووٹ لیتی ہے اور اس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں۔
(B) پیپلز پارٹی کی سیاست سوشلزم اور محنت کشوں کی جمہوریت پر مبنی تھی۔ سوشلزم کے بغیر جمہوریت کو بنیادی دستاویزات مسترد کرتی ہیں۔
(Z) اب تمام زور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی سیاست پر لگایا جا رہا ہے جس سے نظام زر کو تحفظ ’’جمہوری‘‘ واردات سے دلوایا جاسکے۔
(B) پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسیاں تمام بھاری صنعت، بینکوں اور دوسرے اہم اداروں کی نیشنلائزیشن اور سامراجی شکنجے سے معیشت کو آزاد کروانے پر مبنی تھیں۔
(Z) موجودہ قیادت کی پالیسیاں ایک زہریلی اور پرفریب نجکاری ‘پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP) پر مبنی ہیں۔ یہ پالیسیاں برطانوی محنت کشوں پر جارحیت کرنے والی سامراجی ڈائن مارگریٹ تھیچر کی نظریاتی پیروی پر مبنی ہیں۔
(B) پیپلز پارٹی نے زرعی اصلاحات اور جاگیرداروں وڈیروں کی زمینیں ضبط کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
(Z) اب سرکاری زمینیں بھی (جہاں یہ Z پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی ہے) جاگیرداروں،ریاستی اشرافیہ، لینڈ مافیا اور پراپرٹی ٹائیکونوں کو کوڑیوں کے بھاؤلٹا ئی جا رہی ہیں۔
(B) علاج اور تعلیم مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا اور اسکا نجی شعبے میں منافع خوری کے لیے استعمال بند کروانا ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیاتھا۔
(Z) بعد کی پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں تعلیم اور علاج کی نجکاری کا سلسلہ تیز ہوگیا اور بجٹ میں دونوں شعبوں کے لئے جی ڈی پی کے 4 فیصد سے بھی کم مختص کیا گیا۔
(B) لیبر پالیسی میں مزدوروں کو سب سے زیادہ مراعات دینے کی پالیسیوں کا اعلان کیا گیا۔ محنت کشوں کو علاج اور انکے بچوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ یونینوں کی بحالی اور دوسرے حقوق کی فراہمی کے لئے بنیادی منشور میں واضح لائحہ عمل پیش کیا گیا تھا۔
(Z) پی ٹی سی ایل سے لے کر دوسرے کئی شعبوں میں مزدوروں کو نجکاری کے ذریعے برباد کیا گیا۔ آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں کی پالیسیاں لاگو کرکے محنت کشوں کے نہ صرف حقوق چھینے گئے بلک مستقل ملازمتوں کی بجائے ٹھیکیداری کے تحت بغیر کسی سہولت کے دیہاڑی دار مزدور بنا دیا گیا۔
(B) پیپلز پارٹی اپنے جنم سے ہی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کی دشمن پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔ موجودہ نظام کے خلاف مسلسل مزاحمت کرنے کی جدوجہد شروع کی گئی۔
(Z) امریکی سامراج کی گماشتگی اختیار کی گئی اور جمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں کے مفادات کو مسلط کیا گیا۔ مزاحمت کی بجائے اداروں اور نظام سے مفاہمت اور پارٹی کو آلہ کار بنانے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔
(B) پیپلز پارٹی کے لیڈر ٹریڈ یونینوں اور مزدوروں کی محفلوں میں جا کر تقریریں کرتے، ان کی سخت سے سخت تنقید سنتے اور ان کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہڑتال میں مزدوروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے تھے۔
(Z) موجودہ پارٹی کے لیڈر چیمبر آف کامرس اور سرمایہ داروں کی تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ انہی کے مطالبات کے تحت پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کراچی بلدیہ ٹاؤن کی آگ میں مرنے والے سینکڑوں مزدوروں کے قاتل سرمایہ داروں پر کیس ختم کروا کر کے ان کو بری کروایا۔
(B) پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے مختلف رہنماؤں میں ایک غیرت، نظریاتی کمٹمنٹ اور قیادت کے سامنے ہر غیر انقلابی پالیسی پر بے خوف تنقید کرنے اور اس کو روک دینے کی جرات ہوا کرتی تھی۔
(Z) اب نام نہاد بائیں بازو کے لیڈر قیادت کاسہ لیسی اور ان کی مجرمانہ وارداتوں اور مزدور دشمن پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے خو د نودولیتے بن گئے ہیں۔
(B) تمام کارپوریٹ ذرائع ابلاغ پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ جنم کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے پاس میڈیا کی اس دیوہیکل یلغار کے خلاف صرف ایک جریدہ’’نصرت‘‘ اور بعد میں ایک دوسرا جریدہ ’’مساوات‘‘ ہی تھا۔ لیکن عوام کو اس کی انقلابی پکار کو سمجھنے سے میڈیا بھی نہیں روک سکتا تھا۔ یوں پارٹی کی مقبولیت کو میڈیا کا غلیظ ترین پراپیگنڈہ بھی کوئی آنچ نہیں پہنچا سکا تھا۔
(Z) اب سارا دارومدار میڈیا پر ہے۔ اس کے لیے بھاری رقوم صرف کی جاتی ہیں، انتہائی مہنگی اشتہاری کمپنیوں کوکرائے پر لے کر اپنی تشہیر کروائی جاتی ہے۔ میڈیا میں آنے کے لئے سرمایہ داری اور سرکاری سیاسی پوزیشنوں کی پیروی کی گفتگو کی جاتی ہے۔
(B) پارٹی چار آنے چندہ فی ممبر لیا کرتی تھی۔ پارٹی کے تمام مالیاتی وسائل غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے چندے سے آتے تھے۔ جلسوں اور انتخابات میں پارٹی کے کارکنان پوسٹر اور بینرز خود لگاتے تھے۔ ٹیکسیاں کرائے پر لے کر لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے ’’سماج کو بدل ڈالو‘‘ کے گیت عوام کو گلی گلی سناتے تھے اور سارے سیاسی کام خود انجام دیتے تھے۔ کسی لالچ کے بغیر سچے جذبوں اور انقلابی نظریات کے لئے اپنا سب کچھ وقف کرتے تھے۔
(Z) اب بڑے بڑے فنانسر ہیں۔ ان کے قلعہ نمامحلات میں پیپلز پارٹی کے’’جلسے‘‘ ہوتے ہیں۔ چار آنے کی ممبر شپ کی جگہ سرمایہ دار اور جاگیردار لاکھوں کی ممبر شپ کاپیاں خرید کر ان کو اپنے ملازمین اور مزارعوں کے ناموں سے بھر دیتے ہیں۔ انتخابی مہم اور سیاسی جلسے مختلف کمپنیوں کو ٹھیکے دے کر منعقد کروائے جاتے ہیں۔
(B) ایک طبقاتی جنگ کا نعرہ لگا کر میدان میں اترنے والی پارٹی حکمران طبقات اور ان کے سیاسی اور ریاستی نمائندوں سے مسلسل تصادم میں رہی۔ طبقاتی کشمکش کے ناقابلِ مصالحت ہونے کا عندیہ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی کوٹھری سے اپنی آخری تصنیف یا وصیت میں بھی دیا تھا۔
(Z) اب پارٹی کی پالیسی ہی مفاہمت اور مصالحت کی ہے۔ لیکن ابھرتے سورج کے ساتھ مل کر ہر زوال پذیر یا سرکاری عتاب کی شکار سیاسی قوت کے سامنے یہ بہت شیر بن جاتے ہیں۔
(B) بھٹو نے ضیا الحق کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا تھا وہ اپنے پیروں پر چل کر اپنے گلے میں پھندا ڈالنے گیا تھا۔
(Z) اب ضیا الحق کی باقیات پیپلز پارٹی پر براجمان ہیں۔ سب سے اہم فیصلے وہی کرتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ضیا الحق کے قوانین کو جاری رکھنے کا کھلواڑ جاری ہے۔
(B) پارٹی کی بنیادی دستاویزات،جن میں عوامی آئین کے حصول پر زور دیا گیا تھا، محنت کش عوام کو تعلیم و علاج کی مفت فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد کرنے پر مبنی تھیں۔
(Z) آئین کی ان عوام دوست شقوں کو لاگو کرنے کی بات متعدد پارلیمانوں میں موجود پیپلز پارٹی کے کسی ممبر کو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ پارٹی کی حکومت میں اِن بنیادی حقوق کے برخلاف پالیسیاں اپنائی گئیں۔ فوجی آمریتوں کی مختلف ترامیم کوختم کرنے کے خلاف سینٹ میں پیپلز پارٹی پورا زور لگا رہی ہے اور عوام کی بجائے امریکی سامراج، میڈیا اور ریاست کے ذریعے اقتدار کے حصول کی متمنی پارٹی بن گئی ہے۔
(B) بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔
(Z) زرداری کو تمام عدالتوں نے بردی کر دیا۔
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!