صیہونی ریاست کے انتخابات
اس انتخابی مہم میں نیتن یاہو کا سب سے سرگرم کارکن خود ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔
اس انتخابی مہم میں نیتن یاہو کا سب سے سرگرم کارکن خود ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔
قاضی فائز عیسیٰ جیسے نسبتاً سنجیدہ جج نے یہ انتہائی ریڈیکل فیصلہ اس نظام کے خلاف نہیں بلکہ اسے ٹھیک کرنے کے لئے دیا ہے۔
یہ زرد حاکمیت زہریلی بھی ہے اور بیمار بھی۔
وہاں مقدس سمجھے جانے والے اداروں کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ قانون کے اندھے پن اور نام نہاد غیر جانب داری کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔
یوں تو پورے برصغیر میں سرمایہ داری کا طرز ارتقا بہت ناہموار اور متضاد کردار کا حامل تھا لیکن فاٹا جیسے علاقوں میں یہ کیفیت اپنی انتہائی شکلوں میں ملتی ہے۔
یسی اپوزیشن، یکطرفہ صحافت اور عدالت بھلا کیسے کسی اعتبار یا احترام کے قابل رہے گی۔
اگر پاکستان کی سیاسی اشرافیہ چور ہے تو ان چوروں کو ریاستی مور پڑے ہوئے ہیں۔
پیسے کی اِس سیاست میں پارٹیوں کے نام اور نشان مختلف ہیں۔ لیکن پروگرام سب کا جارحانہ سرمایہ داری پر ہی مبنی ہیں۔
کائنات اور تاریخ کا یہ اصول اور قانون ہے کہ ہر چیز مسلسل تغیر اور تبدیلی کا شکار رہتی ہے۔
اعلیٰ عدالتوں میں حکمرانوں کے آپسی مقدمات اتنے الجھ گئے ہیں کہ فیصلے ٹالنے پڑ گئے ہیں۔
اگر کسی دہشت گرد ریاست کی مذمت نہیں کی گئی تو وہ اسرائیل کی صیہونی ریاست ہے، جس کے ساتھ سعودی عرب اور دوسرے حکمرانوں نے پس پردہ معاونت کی حامی بھری ہے۔
اہم حقیقت یہ ہے کہ سرمائے کا یہ نظام ہی ’’صادق اور امین‘‘ ہونے کی ہر گنجائش کو ختم کرڈالتا ہے۔ یہاں نیچے سے اوپر تک جھوٹ اور فریب ناگزیر ضروریات بن جاتے ہیں۔
وہ بنیاد ی طور پر جماعت اسلامی کے سکول کا تربیت یافتہ ہے، پھر وہ نواز شریف اور وہاں سے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت سے خوب فیضیاب ہوا۔
میڈیا کے مالکان اور اینکر حضرات طالبان اور دہشت گرد سرداروں کی طرح لالچ میں وفاداریاں بھی مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ اب ان کو صرف کرائے پر ہی لیا جاسکتا ہے، خریدا نہیں جاسکتا۔
محنت کش عوام اس تماشے سے اکتا بھی گئے ہیں اور سخت بیزار بھی ہیں۔ میڈیا اسے چلائے جا رہا ہے۔ حکمران الزام تراشیوں کی بھرمار سے اپنے ہی طبقے کو بے نقاب کررہے ہیں۔