اداریہ جدوجہد: ہم کون ہیں؟
ہر عہد میں انسانوں کی انفرادی اور سماجی سوچ اور نفسیات مختلف ہوا کرتی ہے۔ ہر دور کے عروج وزوال میں انکی اپنی شناخت ان کے اپنے شعور میں بھی بدلتی رہتی ہے۔
ہر عہد میں انسانوں کی انفرادی اور سماجی سوچ اور نفسیات مختلف ہوا کرتی ہے۔ ہر دور کے عروج وزوال میں انکی اپنی شناخت ان کے اپنے شعور میں بھی بدلتی رہتی ہے۔
11 ستمبر 2001 ء کے بعد کے گیارہ سال گزر جانے کے باوجود اس دہشت گردی کے واقعے کا حقیقی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے مفکروں اور تجریہ کاروں نے سیاق وسباق سے عاری سازشوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی لا محدود من گھڑت تھیوریا […]
اگر پاکستان کے مالکان کی آزادی کی 65 سالہ تاریخ ہے تو اس ملک کے محنت کش محکوموں کی بغاوت اور جدوجہدِ آزادی کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آج ایک اور جشنِ آزادی یہاں کے 20 کروڑ انسانوں کی محرومیوں اور بربادیوں کے ماتم پر منایا جا رہا ہے۔
ملتان میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب مخالف جماعتیں اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی کمی کا واویلا کر رہی ہیں۔
آج سے35سال قبل اس ملک کی تاریخ کا بدترین شب خون مارا گیا تھا۔4اور5جولائی 1977ء کی درمیانی رات کی تاریکی میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا ایک فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹ کر ایک وحشت ناک مارشل لا مسلط کردیا گیا تھا۔
حکمران طبقات صرف ریاستی طاقت کے زور پر حکمرانی نہیں کرسکتے۔ بلکہ ریاستی تشدد ان کا آخری حربہ ہوتا ہے کیونکہ محنت کش جب ریاست کو شکست دے دیتے ہیں تو پھر انقلاب کو روکا نہیں جاسکتا۔
اس کرہ ارض پر حصول زر کے لیے ایک حشر بپا ہے۔ ایک طبقہ دولت کے انبار اور اثاثوں کے لاامتناعی اضافے کی اندھی دوڑ میں ہر قدر‘ ہر انسانی احساس اور معاشرتی زندگی کی تہذیب کو روندتا چلا جارہا ہے۔
وقت اور زمانے چلتے رہتے ہیں رکتے نہیں!لیکن سماجوں کے ارتقا کا عمل ایک سمت اور ایک رفتار میں نہیں چلتا۔
جہاں غربت‘ مہنگائی ‘بیروزگاری اور سماجی ذلت کے مسائل کے تابڑ توڑ حملوں سے محنت کش عوام مجروح ‘ ہلکان اور گھائل ہورہے ہیں وہاں نان ایشوز کی معاشرتی نفسیات پر بھرمار ان زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
اس ملک کے حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ ریاست کے ہر ادارے کا تقدس عوام پر مسلط ہے اور اس پر بات کرنا بھی توہین کے قوانین کے تحت ایک جرم بن جاتا ہے۔غریب اگر دولت کی عدالت کا حکم نہ مانیں تو توہینِ عدالت لگ جاتی ہے۔
دسمبر 2007ء کے اس خونی اور منحوس دن ظاہری طور پر عوام کی ایک مقبول لیڈر بے نظیر بھٹوکا وحشیانہ قتل ہوا تھا۔
تحریر : لال خان :- 30نومبر 1967ء کو جب لاہورمیں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پاکستان پیپلزپارٹی کوجنم دینے والا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا تھا تو اس میں300 کے قریب مندوبین شریک تھے۔