اداریہ جدوجہد: ہم کون ہیں؟

ہر عہد میں انسانوں کی انفرادی اور سماجی سوچ اور نفسیات مختلف ہوا کرتی ہے۔ ہر دور کے عروج وزوال میں انکی اپنی شناخت ان کے اپنے شعور میں بھی بدلتی رہتی ہے۔ تاریخ کے کسی ایک ہی معاشی وسماجی نظام میں انسان اپنی پہچان بھی بدلتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام سے قبل کے ادوار کے ہزاروں سالوں میں انسانوں کی تفریق اور پہچان عمومی طور پر مذہبی بنیادوں پر تھی۔ وہ اپنے آپ کو مذہبی امتوں کے جزوکے طور پر جانتے اور پہچانتے تھے۔لیکن انہی ادوار میں ذات پات‘نسل‘ رنگ‘قبیلوں‘ فرقوں‘برادریوں اور دوسری بہت سی اقسام کی تقسیم تفریق اور پہچانیں بھی موجود تھیں۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں صنعتی انقلاب نے جس نئی قوم اور قومی ریاست کو تشکیل دیا اس نے کم از کم ان معاشروں میں ماضی کی ان تفریقوں اور شناختوں کو بہت حد تک مٹا دیا تھا۔ لیکن پاکستان جیسے معاشرے جہاں کی بوسیدہ سرمایہ داری، صنعتی انقلاب کو برپا اور مکمل نہیں کرسکی تھی وہاں ماضی کے یہ تمام تعصبات اور انسانوں میں تقسیم وتفریق نہ صرف موجودرہی بلکہ اس نظام کے بے ڈھنگے ارتقا کی طرح ان تفریقوں نے مذہبی فرقہ واریت سے لے کر برادریوں اور ذاتوں کی مزید بگڑی ہوئی اور مسخ شدہ شکلیں اختیار کرلیں ہیں۔ لیکن یہ تمام تعصبات اور تعریفیں صرف ان ادوار میں حاوی ہوتی ہیں جب سماج ایک جمود ایک ٹھہراؤ کا شکار ہوتا ہے۔ جب بھی محنت کش طبقہ تحریکوں میں اترتا ہے اس کی شناخت اور پہچان بدل جاتی ہے۔ سماجی مرتبوں کے اثرات الٹ جاتے ہیں۔ فلم‘ ادب اور فن میں محنت عظمت بن جاتی ہے اور امارت ایک ذلت ایک شرمساری بن جاتی ہے۔ عام حالات میں لوگ اپنی امارت‘ اپنے خاندان اور اپنی جائیداد کے بلبوتے پر سماجی برتری کے گھمنڈ کا شکار ہو کر اپنی حیثیت اور شناخت کو آویزاں کرتے ہیں۔لیکن انقلابی صورتحال میںیہ سب جدلیاتی طور پر اپنی نفی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
آج سرمایہ دارانہ معیشت اوراجارہ داریاں نہ صرف ماضی کی ان تفریقوں کو پامال کرچکی ہیں بلکہ قومی ریاست کے کنٹرول اور حدود کو توڑ کر آگے بڑھ گئی ہیں۔ لیکن ان ذرائع پر چونکہ آج بھی نجی ملکیت کی جکڑموجود ہے تو اس کو قائم رکھنے کے لیے اس کے خلاف بغاوتوں کو کچلنے اور طبقاتی جدوجہد میں دراڑیں ڈالنے کے لیے جہاں عالمی طور پر سامراج ہر طرح سے قومی شناخت اور ریاست کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کررہاہے وہاں اس کو پرولتاریہ کو مزید مجروح اور خوف زدہ کرنے کے لیے پرانے تفرقوں اور شناختوں کونئی دشمنیوں اور تضادات میں الجھانے کاحربہ بھی استعمال کرناپڑرہا ہے۔ اسی واردات کے لیے انہوں نے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا ’’نظریہ‘‘ ایجاد کرکے اس کو پوری شدت سے مسلط کروانے کاعمل شروع کیا ہوا ہے۔ عرب انقلاب کے بکھر جانے اور 2011ء میں دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکوں کے وقتی طور پر زائل ہونے کی صورت میں ایک طرف تو نیم مایوسی اور بددلی کی کیفیت نے سماجی پراگندی کو کسی حد تک جنم دیا ہے جبکہ دوسری جانب ایک شدید بحران کی شکار عالمی سرمایہ داری نے انقلابات کو مذہبی تعصبات ابھار کرردانقلاب میں تبدیل کرنے کاسلسلہ شروع کررکھا ہے۔ حالیہ فلم جو نہایت ہی بے ہودہ اور مکروہ تھی اس کو بنانے اور تشہیر کروانے کے پاگل پن کے اندربھی کوئی چال تھی۔ پاکستان میں30افراد مارے گئے وہ غم وغصہ جو غربت‘مہنگائی‘ بیروزگاری‘ذلت‘ دہشت گردی اور ریاستی جبر کے خلاف نکلنا تھا وہ ایک لایعنی فلم کے خلاف نکلوایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ 1968-69ء کے انقلاب کے دوران جب ریلیوں اور جلوسوں میں لوگ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ایک تبدیلی‘ایک عظیم مقصد کے لیے قدم کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھ رہے ہوتے تھے تو ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا جو ہاتھ انہوں نے تھاما ہو ا ہے وہ کسی ہندو کا ہے یا مسلمان کا‘ کسی عورت کا ہے یا کسی مرد کا‘کسی پنجابی کا ہے یا کسی بلوچی کا‘ کسی آفریدی کا ہے یا کسی راجپوت کا۔ کیونکہ ایک بڑے مقصد کی جدوجہد میں چھوٹے اور گھٹیا تعصبات غائب ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ انسان کی اپنی پہچان اور شناخت بدل جاتی ہے۔ وہ محنت اور سرمائے کی جنگ میں پرولتاریہ کی بین الاقوامی فوج کے سپاہی کی شناخت بن جاتی ہے جن کا مقصد مسائل‘ جستجو اور منزل ایک ہوتے ہیں۔ مذہب اور دوسرے ماضی کے ہزار وں سال پرانے تضادات کو آج اجاگر اس لیے کیا جارہا ہے چونکہ موجودہ نظام اس سماج کو ترقی دینے اور اسکے ارتقاکو جاری رکھنے سے معذور ہوچکا ہے۔ ماضی کے اندھیروں کی نحیف آوازوں کا شور زیادہ اس لیے آتا ہے کیونکہ معاشرے میں سماجی جمود کا ایک ہولناک سناٹا ہے۔ لیکن یہ زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں۔ جب یہ ٹوٹے گا تو حشر ہوگا۔ سوچیں بدلیں گی‘ شناخت بدلے گی اور حوصلے اور جراتیں جاگیں گی۔ آج کے انسان کو جب اپنی آج کی شناخت کا ادراک ہوگا تو پھر اجتماعی طبقاتی جنگ ان کوسوشلسٹ فتح سے ہمکنار کرکے رہے گی۔