انصاف کے لرزتے مندر!

اداریہ جدوجہد

آج کل انصاف کے ایوانوں میں جوناٹک چل رہے ہیں وہ فلم اور تھیٹر کو بھی مات دے گئے ہیں۔ لیکن کچھ ڈرامہ سیریز کی طرح یہ طوالت ہی اختیارکرتے چلے جا رہے ہیں۔ تاہم انکی بوریت اتنی زیادہ ہے کہ عام انسان اِن سے سخت بیزار ہیں۔ جے آئی ٹی کی نئی قسط کو بہت سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میاں صاحب کے فرزند کی تصویر اسی سنسنی میں اضافے کے لیے ریلیز کی گئی تھی۔ لیکن میاں صاحب کی اپنی پیشی اور اسکے بعد کا خطاب موصوف کو ولن سے ہیرو بنانے کی چال لگتا ہے۔
یہ ایسے ناٹک محسوس ہوتے ہیں جن کا کوئی اختتام، کوئی انجام ہی نہ ہو۔ اور اگر کوئی انجام ہوگا بھی تو عوام ان ڈراموں سے اتنے اکتا چکے ہوں گے کہ ان کے اثرات بے معنی سے ہوجائیں گے۔ کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے اور بالخصوص پاکستان جیسے پسماندہ سماجوں میں عدل و انصاف کے ادارے بنیادی طور پر حکمرانوں نے اپنے آپسی تنازعات کو ایسے گھن چکروں اور بھول بھلیوں کی ڈگر پر گامزن کرنے کے لئے تشکیل دئیے ہوتے ہیں جن کی کوئی منزل نہ ہو۔ یہ راستہ واپس وہیں پہنچتا ہے جہاں سے شروع ہوا ہوتا ہے۔ اگر انصاف کے دیوتاؤں کے ڈائیلاگ اور بڑھکیں سنی جائیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مقدس لوگ نہ جانے کیسی دیومالائی قوتوں کے مالک ہیں اور ان کا قہروغضب یہاں ہر مجرم، ہر کرپٹ سیاست دان اور حکمران کو نشٹ کر دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ جیسے اعلیٰ ریاستی اداروں کا زیادہ تر استعمال اس وقت ہوتا ہے جب حکمران طبقات اور ریاستی دھڑوں میں کشیدگی شدید ہو جاتی ہے اور سماج میں سے ابھرنے والے دباؤ اور بے چینی کی تپش اس جبر کے نظام کو کسی معاشرتی جمود کی کیفیت میں بھی کھوکھلا کرتی جا رہی ہوتی ہے۔ پچھلے طویل عرصہ سے عدلیہ کی یہ بے جا اور تندوتیز حرکت درحقیقت نظام کے گہرے بحران اور خلفشار کی غمازی کر رہی ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے جب محنت کش عوام خود ابھی تاریخ کے میدان میں نہیں اترے ہوتے لیکن معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں شورش، انتشار اور بے چینی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پورا ریاستی ڈھانچہ ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ آج پاکستان اسی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ جہاں عام انسانوں کی غربت اور ذلت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ لوگ بہت برداشت کررہے ہیں، لیکن برداشت کرنے سے اذیت کم نہیں ہوتی۔ جہاں تعلیم اور علاج کا نجکاری کے ذریعے جنازہ نکلا جا رہا ہو۔ انتہائی بنیادی ضروریات زندگی کی دسترس ایک خواب بن جائے۔ زندگی تلخی کا شکار ہو۔ معاشی حملوں کے زخموں پر دہشت گردی اور جرائم کا زہریلا نمک چھڑکا جا رہا ہو۔ جہاں امیر امیر تر اور غریب افلاس کی گہرائیوں میں غرق ہورہے ہوں۔ جہاں بیمار ہونا، انصاف کا طلبگار ہونا، محنت کش اور غریب ہونا خود ایک جرم بن جائے۔ یہی آج اِس سماج کی کیفیت ہے۔
اعلیٰ عدالتوں میں حکمرانوں کے آپسی مقدمات اتنے الجھ گئے ہیں کہ فیصلے ٹالنے پڑ گئے ہیں۔ اِس عدلیہ کی حقیقت یہ ہے کہ نسلیں گزر جاتی ہیں لیکن مقدمات ختم نہیں ہوتے۔ انصاف اِس طبقاتی سماج کی سب سے مہنگی اجناس میں سے ایک ہے۔ تاریخ پہ تاریخ پڑتی جاتی ہے اور طاقتور ان تاریخوں میں طوالت کروا کے اپنے جبر، جرائم اور دھونس کو برقرار رکھتے ہیں۔ غریبوں کے پا س روٹی کے پیسے نہیں ہیں، وہ اس مسلسل مہنگے ہوتے ہوئے انصاف کو بھلا کیسے حاصل کریں گے؟ لیکن یہ بھی جمہوریت اور ’’آزادی‘‘ کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ آزاد صحافت کی طرح یہ آزاد عدلیہ بھی حکمرانوں کے تنازعوں کو لٹکاتی ہے۔ غریبوں، محنت کشوں اور ناداروں کے لیے یہی نظامِ عدل اتنی ناانصافی اور اذیت ناک سزا بن جاتا ہے کہ ان کی زندگی کا بچا کھچا چین بھی چھین لیتا ہے۔ پیسے کے اس اندھے کھلواڑ اور غارت گری سے برباد ہوتے ہوئے معاشرے میں حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کی دولت اِسی بربادی سے وابستہ ہے۔ نواز شریف اور عمران خان، دونوں نے اپنے اثاثوں کا جو قلیل سا حصہ ڈکلیئر کیا ہے اُس کے مطابق بھی دونوں ارب پتی ہیں۔ زرداری کی دولت کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ملک ریاض غریبوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر جدید کالونیاں بنانے کی جارحیت سفاکی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملاؤں کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ جرنیلوں کو یہاں کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا۔ اور یہ سب کے سب آج ’’کرپشن‘‘ کے خلاف مدعی بھی بنے ہوئے ہیں اور منصف بھی۔ لیکن اگر اِن محروم اور استحصال زدہ محنت کش عوام کی رگوں او ر شریانوں میں اِن حکمرانوں کے خلاف طیش اور بغاوت کی شورش شدت ختیار کرگئی ہے تو ایک وقت میں یہ بھڑک کر گلیوں، بازاروں، فیکٹریوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں بھی انقلاب بن کر امڈ آئے گی۔ ایسے انقلابی طوفان کے آگے بڑی سے بڑی طاقت بھی بند نہیں باندھ سکتی۔ یہ نہ صرف ان حکمران طبقات کی دولت بلکہ انکے اداروں کو بھی غرق کردیں گے اور انقلابی سوشلزم کے وار سے اِس نظام کا صفایا کرکے انسانی آزادی و نجات کی راہ ہموار کریں گے۔