زرد حاکمیت

اداریہ جدوجہد

اندھی طاقت کے بڑے زعم ہوتے ہیں۔ افراد جب اقتدار کی انتہاؤں پر ہوتے ہیں تو ان کی نفسیات میں یہ غلط فہمی سرایت کر جاتی ہے کہ وہی عقل کُل ہیں۔ ان کی دانش کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کے تجزیوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان کی پرکھ اور حکمت عملی لازوال ہے۔ بڑھتے بڑھتے دماغ اتنا موٹا ہونے لگتا ہے کہ وہ خود پرستی اور ’خبط عظمت‘ کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خود کو سپر مین سمجھنے لگتے ہیں۔ پچھلی صدی میں ہمیں ہٹلر، سٹالن، مسولینی اور ماؤ جیسی مثالیں ملتی ہیں کہ بے پناہ طاقت اور اقتدار کے عروج پر یہ شخصیات اپنا ذہنی توازن ہی کھو بیٹھیں۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایسے مجنونانہ فیصلے کرنے لگیں اور ایسے بے سروپا احکامات جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا کہ ان کے قریب ترین حواریوں نے ہی انہیں موت کے قریب کر دیا۔ کیونکہ جس نظام کے بلبوتے پر حاصل کردہ طاقت نے ان کا ذہنی توازن بگاڑا تھا ان کا خاتمہ اسی کے دوام کا تقاضا بن گیا تھا۔
عمران خان کا اگرچہ ان شخصیات کی عملداری، اختیارات اور طاقت سے دور دور تک کوئی موازنہ نہیں ہے لیکن عقل کُل ہونے کا زعم اسے پھر بھی بہت ہے۔ چاہے اس کی روحانی کمزوری کا یہ عالم ہی کیوں نہ ہو کہ ایک سابقہ ماڈل اور حالیہ پیرنی سے نکاح کے بغیر وزیر اعظم نہ بن سکنے کا پختہ یقین رکھتا ہو۔ شادی بھی ہوگئی اور بنانے والوں نے خان صاحب کو وزیر اعظم بھی بنا دیا۔ لیکن موصوف سے کہیں زیادہ سنجیدہ زعم کی بیماری انہیں کٹھ پتلی حکومت دینے والوں کو لاحق ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس کے عہدے سے روانہ کرنے کی جلدی اس کے حواریوں کو اسی طرح ہے جیسے سٹالن کی جلد موت کی خواہش اس کے ’امور داخلہ‘ کے سربراہ لیورنٹی بیریا کو تھی۔ لیکن طاقت کے اِس ’ نیکسس‘ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اندر سے یہ کس قدر پھوکٹ ہے۔ بحران زدہ معیشت، بدعنوان سیاست اور کالے دھن کی سرایت زدہ ریاست کے بلبوتے پر حاصل کردہ طاقت پہ اعتماد اور اعتبار بذات خود کج فہمی اور تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہونے کی علامت ہے۔ معاشرے پر مسلط طاقت کے یہ خود ساختہ سرچشمے آج کل یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ اپنے تابع کر لیا ہے۔ سب کنٹرول میں ہے۔ مخالف سیاسی دھڑوں کو کرپشن میں اندر کروا دیا ہے اور ایک کاغذی ٹائیگر کو حکمران بنا کے ایسے اپنا مطیع کر لیا ہے جیسے گھروں سے باہر بڑے بڑے شیر اندر بیگمات کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ تیسری سیاسی قوت کے بدعنوان لیڈروں نے غریبوں اور محنت کشوں کی نمائندگی کو اپنی ہتک سمجھتے ہوئے سرمائے کی جمہوریت کے علمبردار ہونے کا ناٹک دو نسلوں سے جاری رکھا ہوا ہے۔ کرپشن اور جرائم میں وہ اس قدر ملوث ہیں کہ ریاست ان کو باآسانی بلیک میل کر کے کوئی بھی کردار ادا کروا سکتی ہے۔ اب ایسے لگتا ہے کہ زرداری اینڈ کمپنی کو ریاستی جبر کا شکار اور مظلوم ظاہر کر کے حزب اختلاف کی قیادت کا کردار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔
سرمائے کی سیاست کے اِس کاروبار میں صنعت اور کاروبار کی طرح ریاست کے کاسہ لیس ہوئے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ محنت کشوں کی کوئی چھوٹی ملک گیر تحریک چلے بھی گیارہ سال ہو چکے ہیں۔ نیچے ایک جمود اور سکوت طاری ہے۔ اوپر حکمرانوں کی سفاک لڑائیاں جاری ہیں جنہیں نیچے مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے گماشتے ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں۔ تاہم محنت کش عوام صدمے کا شکار اور خاموش ضرور ہیں لیکن اندھے اور بہرے نہیں ہوئے۔ ان کو عارضی طور پر حکمرانوں کی اس نورا کشتی میں الجھایا تو جا سکتا ہے لیکن ان کے شعور کو کبھی اس حاکمیت کا تابع نہیں کیا جاسکتا۔ مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، بھوک اور محرومی ان کی زندگیوں کو پے درپے زخموں کی طرح مسلسل درد دے رہے ہیں۔ یہ کرب برداشت کی حدوں کو چیر کے ایک سماجی بغاوت کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ ڈوریاں ہلانے والوں کے خیال میں سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ لیکن بہت کچھ شاید خراب ہونے کو ہے۔
فیض صاحب نے لکھا تھا

زرد پتوں کا بن‘ جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن‘ جو میر ا دیس ہے

اس برباد دیس پر آج ایک زرد حاکمیت مسلط ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں آمریت ہے۔ تحریک انصاف کی شکل میں ایسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے جو کالے دھن کے بیوپاریوں اور نودولتیوں پر مبنی ہے۔ یہ عوام پر جو عذاب نازل کر رہے ہیں انہیں اقتدار دینے والے اس کے خلاف اٹھنے والی ہر احتجاجی آواز کو دبانے کی واردات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ زرد حاکمیت زہریلی بھی ہے اور بیمار بھی۔ یہ اندر سے کھوکھلی ہے۔ اس کے داخلی تضادات بھی بڑھ رہے ہیں اور اس کی پراکسیاں بھی وفاداریاں بدل رہی ہیں۔ لیکن ایک بات جو عام لوگ ٹھیک سے سمجھ رہے ہیں کہ حکمران طبقات کی یہ سیاست دھوکہ دہی اور مکاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ جمہوریت ایک فریب ہے۔ آئین ایک بے معنی دستاویز ہے۔ انصاف دولت کی لونڈی ہے۔ لیکن یہ عیاریاں اور مکاریاں حکمرانوں کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری کی علامات ہیں۔
درد کی اس انجمن میں درد اٹھانے والے طبقے کا رشتہ اور تعلق بھی پنپ رہا ہے۔ درد دینے والوں کی نااہلی اور بدحواسی بھی ان کے سامنے ہے۔ ایک دفعہ اس طبقے کے لوگوں کو اپنی جڑت کی طاقت کا ادراک ہوگیا ہے تو یہ زرد حاکمیت طبقاتی جدوجہد کے طوفان کا ایک تھپڑا بھی برداشت نہیں کر سکے گی۔ مسئلہ اب حکمران طبقات کی اصلیت اور ان کے اداروں کے کردار کی وضاحت کا نہیں۔ یہ نظام خود اپنی مکروہ حقیقت کو ہر روز ظاہر کر رہا ہے۔ ضرورت اس کے خلاف لڑنے کے حوصلے اور ہمت کو وقت اور حالات کی جکڑ سے آزاد کروانے کی ہے۔ اس جکڑ کو توڑنے کے لئے کب سے مظلوموں کی روحیں اور احساس تڑپ رہے ہیں!