چور اور مور

اداریہ جدوجہد

اس وقت پاکستان میں نواز لیگ کی حکومت ہے اور نواز شریف ہی زیرِ عتاب ہے۔ جس حکومت کا بس کیبل آپریٹروں پر بھی نہیں چل سکتا اس کا اقتدار کیسا؟ ایسی جمہوریت کی اوقات کیا ہے؟ نواز شریف یہاں کے سرمایہ دار طبقات کا سیاسی نمائندہ رہا ہے۔ اس نظام کی عالمی اور مقامی مقتدر قوتوں کی روایتی تابعداری کے صلے میں اسے پچھلے انتخابات میں بھاری اکثریت دلوائی گئی تھی۔ لیکن اقتدار کے جاہ و جلال کا نشہ بعض اوقات وہ کچھ بھی کروا دیتا ہے کہ اگلے روز ان حرکات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ 28 جولائی کو نواز شریف کو جو ’ہینگ اوور‘بھگتنا پڑا اس سے دو ہی راستے نکلتے تھے۔ وہ موٹر وے یا ہوائی جہاز سے چپ چاپ لاہور چلا جاتا۔ یا پھر جی ٹی روڈ کا راستہ اپناتا۔ لیکن جی ٹی روڈ بھی ستر سال سے واہگہ بارڈر تک ہی جاتی ہے۔ اس لئے نواز شریف بھی پھنس کے رہ گیا ہے۔ اس بند گلی میں شور مچا رہا ہے۔ واویلا کر رہا ہے۔ لوگوں میں ہمیشہ ’مظلوم‘ کے لئے کچھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ خصوصاً پنجاب میں اس کی آہ و زاری سننے آ رہے ہیں۔ لیکن عوام اتنے بھولے بھی نہیں ہوتے۔ انہیں اس مالیاتی سیاست کی اصلیت خوب معلوم ہے۔ ریاست کے اداروں کو بھی وہ خوب جانتے ہیں اور جان رہے ہیں۔ اس سیاست میں مالیاتی سرمائے کی پارٹیاں حاوی ہیں۔ تحریک کے فقدان کی کیفیت میں اس نظام کی سیاست اور ذرائع ابلاغ کے ادارے محنت کشوں کی سیاست کو کبھی ابھرنے نہیں دیں گے۔ پی ٹی آئی اپنے جنم سے ہی مقتدر قوتوں کی پیداوار تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی نے حالیہ دنوں میں اتنی تیز دوڑ لگائی ہے کہ سامراجیوں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کی اطاعت میں سب کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ بے ضمیری اور کاسہ لیسی میں زرداری ٹولے کا آج کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ عوام کو اس سارے کھلواڑ کا ادراک ہے۔ یہاں کا حکمران طبقہ جہاں سات دہائیوں میں جدید صنعتی و سماجی انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کر سکا وہاں اس کی جمہوریت بھی مفلوج رہی ہے۔ چنانچہ ڈیپ سٹیٹ نے نواز شریف کو اس کی بھاری اکثریت اور وزارتِ عظمیٰ کی اوقات دکھا دی ہے۔ جب نظام اتنی خستہ حالی اور بحران کا شکار ہو جائے تو اس میں ’جائز‘ طریقے سے کوئی منافع کما سکتا ہے نہ ہی ملک کی معیشت کو اتنی ترقی دے سکتا ہے کہ معاشرہ کسی حد تک آسودگی حاصل کر سکے۔ منافع خوری کے لئے ان حکمران طبقات کو ریاست کے وسائل اور خزانے لوٹنے پڑتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کا معاشی اور سیاسی وجود ہی برقرار نہیں رہ سکتا۔ لیکن پھر اِس لوٹ مار کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کے لئے ریاستی اداروں کو بھی ایک کردار ادا کرنا پڑتا ہے تاکہ پورا نظام ہی دھڑام نہ ہو جائے۔ ضابطہ کاری کے اس عمل کے دوران وہ بدعنوانی میں خود حصہ دار بنتے چلے جاتے ہیں۔ فوج جیسے اداروں کی سویلین معاملات میں مداخلت جوں جوں بڑھتی ہے تو سب سے بڑے کمیشن ایجنٹ اور ٹھیکیدار بھی جرنیل بن جاتے ہیں۔ آج یہ ریاستی ادارے ٹیلیوژن چینلوں سے لے کر کھاد کی فیکٹریاں، بینک اور شادی ہال تک چلا رہے ہیں۔ عدلیہ، جویہاں کا سب سے کرپٹ ادارہ ہے، کرپشن کے خاتمے کا ڈھونگ رچا رہی ہے اور دودھ کی کوالٹی اور ہسپتالوں کی حالت ٹھیک کرتی پھر رہی ہے۔ ساتھ ہی اوکاڑہ کے مزارعین کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر سزائیں دے رہی ہے اور مزدوروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ یہاں ریاست کی اعلیٰ مشینری کالے دھن کے ہر دھندے میں ملوث نظر آتی ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی اشرافیہ چور ہے تو ان چوروں کو ریاستی مور پڑے ہوئے ہیں۔ باضابطہ اقتدار کسی کے پاس ہے اور طاقت کے حقیقی مراکز کہیں اور ہی ہیں۔ فیصلے کرتا کوئی ہے اور میڈیا پر انہیں پڑھتے وزیر ہیں۔ لیکن حکمران طبقات کا یہ بحران اور آپسی چپقلش چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے کہ ان کا نظام لاعلاج بیماری اور زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ سیاست کے اتنے شور میں بھی سیاسی خلا مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں کی سیاسی نمائندگی فی الوقت کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ یہاں آگے آنے والی ’جمہوری حکومت‘ آج سے بھی زیادہ محکوم اور بے بس ہو گی۔ یہ جمہوریت حکمرانوں کے لئے جوے کا کھیل ہے، غریبوں کے بے رحم استحصال کا فریب ہے۔ ریاست بھی اتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ مکھیاں مارنے کے لئے ہتھوڑے چلا رہی ہے۔ لیکن افلاس میں سسکتی خلق حکمرانوں کی اس خانہ جنگی کو کب تک برداشت کر سکتی ہے؟ کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کے روپ میں سرمائے کی اس حاکمیت کو اکھاڑنے کے لئے انہیں تاریخ کے میدان میں اترنا ہو گا۔ اپنا مقدر بدلنے کے لئے اپنی انقلابی قیادت تراشنا ہو گی۔ اس متروک سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔