نئی ’سرد جنگ‘؟
مسئلہ یہ ہے کہ آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں ہے جس کے پاس ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل طاقت ہو۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں ہے جس کے پاس ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل طاقت ہو۔
قومی آزادی اور خومختیاری کی ہر تحریک کی طرح یہ جدوجہد بھی پورے خطے اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور یکجہتی سے ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔
محکوم عوام کا ایک ہی انقلابی ریلہ مشرق وسطیٰ کے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے اور ٹرمپ کے خلاف نفرت سارے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
انسان کی لاکھوں سالوں کی محنت اور کاوش سے معرض وجود میں آنے والے یہ پیداواری ذرائع سرمائے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
افغانستان کو سب عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ نوچ رہے ہیں۔ کوئی ’تعمیر نو‘ کے نام پر یہ کھلواڑ کر رہا ہے تو کوئی منشیات کے کالے دھن پر پلنے والی جہادی پراکسیوں کی براہِ راست پشت پناہی کر رہا ہے۔
بھارت کے قانون، عدل اور انصاف کے سب سے اعلیٰ بھگوان پر اس کے اپنے ججوں کے یہ الزامات پورے ریاستی نظام کی حقیقت کو عیاں اور عدلیہ کی اصلیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
جب سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نہ ہو تو مذہبی انتہاپسندی اور تعصبات کو ہوا دے کر سماج کو تقسیم کر کے طبقاتی جبر اور استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں عوام کی خاطر خواہ شرکت کو شاید کچھ حلقوں میں ’’جمہوریت‘‘ کی کامیابی گردانا جا رہا ہے لیکن اِس سے نیپالی عوام، بالخصوص نوجوانوں کے بائیں جانب جھکاؤ اور دباؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔
آج بالعموم پوری دنیا ایک عدم استحکام اور انتشار کی زد میں نظر آتی ہے۔
ایران کے تمام بڑے شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں نے ایرانی ملاں ریاست کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔
اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔