نیپال الیکشن 2017ء: کمیونسٹ انقلاب کہاں؟

تحریر: راہول

قدرتی حسن اور دل پذیر نظاروں سے بھرپور نیپال گیارہ سالوں سے جاری شدید سیاسی جھٹکوں کے بعد بالآخر’’کمیونسٹ اتحاد‘‘ کی واضح کامیابی کے بعد اپنے انتخابات کے اختتام تک پہنچ چکا ہے۔ یہ سال نیپال میں انتخابی سال رہا۔ تین مرحلوں میں ہوئے انتخابات نے پہلے مقامی حکومتیں منتخب کیں اور پھر حالیہ دو مرحلوں میں ہوئے انتخابات نے صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے لوئر ہاؤس یا ایوانِ زیریں کو منتخب کیا۔ ان انتخابات میں جہاں دو لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا وہیں یہ نیپال کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات ثابت ہوئے۔ 2015ء کے نئے جمہوری آئین کے نفاذ کے بعد یہ پہلے پارلیمانی انتخابات تھے۔ جبکہ تھیوکریٹک بادشاہت کے انہدام اور 2008ء کے بعد پہلی بار عوام کو ساتوں اسمبلیوں کے نمائندگان چننے کا موقع ملا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹروں کا ٹرن آؤٹ تقریباً 67 فیصد رہا جسے آج تک کا سب سے بڑا ٹرن آؤٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
پچھلی حکومت کی بدترین کارکردگی کے بعد شدید معاشی و سیاسی مسائل سے جوجھتی نیپالی عوام کے سامنے یہ انتخابات ایک خاص اہمیت کے حامل تھے۔ پچھلے لمبے عرصے سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح نیپال کے عوام بھی شدید غربت، بیروزگاری اور ناخواندگی جیسے اہم مسائل سے دوچار رہے۔ صحت سے لیکر تعلیم تک ہر شعبے کی ریٹنگ میں نیپال کا نام فہرست کے آخری ممالک میں ہی رہا۔ ایسی نازک کیفیت میں کانگریس کی شکست اور کمیونسٹ اتحاد کی کامیابی کوئی بہت حیران کن بات نہیں تھی۔
حالیہ انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤسٹ سینٹر) نے ایک اتحاد تشکیل دیا تھا۔ اسی اتحاد کی بدولت انہیں تاریخ میں پہلی بار اتنی بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ 275 ارکان پر مشتمل وفاقی پارلیمان میں (165 نشستوں پر براہ راست مقابلہ اور 110 پر متناسب نمائندگی کی بنیاد پرانتخابات) یونائیٹڈ مارکسسٹ لیننسٹ کمیونسٹ پارٹی نے 80 جبکہ ماؤاسٹوں نے 36 نشستیں جیتی ہیں اور نیپالی کانگریس صرف 21 نشستیں حاصل کرکے شکست سے دوچار ہوئی۔

اس واضح اکثریت کے ساتھ یہ اتحاد آنے والے دنوں میں یقینی طور پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا جبکہ کمیونسٹ اتحاد کے نئے متوقع وزیر اعظم کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) کے سربراہ ’کھڈگا پراساد اولی‘ ہونگے۔ اولی نے اپنے سیاسی سفرکا آغاز1970ء کی دہائی میں بطور ماؤسٹ بھارتی مغربی بنگال کی سرحد پر واقع نیپال کے علاقے جھاپا سے کیا۔ یہ دراصل ماؤسٹ سیاست کے (خاص طور پر مغربی بنگال میں) وہی دن تھے جب ہر جگہ یہ نعرہ عام تھا کہ ’’چین کا چیئرمین‘ ہمارا چیئرمین، چین کا راستہ‘ ہمارا راستہ‘‘۔ آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بالآخر اولی کو یہ موقع مل ہی رہا ہے کہ وہ چین کے چیئرمین اور اس کے راستے کو اپنا بنا سکے۔ تاہم آثار یہی نظر آتے ہیں کہ یہ چیئرمین ماؤ کا نہیں بلکہ موجودہ چیئرمین شی جن پنگ کا راستہ ہو گا۔ پچھلے کچھ عرصے سے جو کوئی بھی نیپالی سیاست سے دلچسپی رکھتا ہو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اولی کا چین سے یارانہ کس حد تک گہرا ہے۔ اسی یارانے کی وجہ سے بھارتی ریاست آج شدید پریشانی سے دوچار ہے۔ آنے والا عرصہ بھارت کے لئے خطے میں مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ چین کے خطے میں بڑھتے اثر اور اس کے سامراجی پراجیکٹس نے یہاں بھارتی تسلط کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مالدیپ اور سری لنکا پہلے ہی بحر ہند میں چینی بحری جہازوں کو لنگر اندازی کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور چین کے سمندری شاہراہِ ریشم منصوبے کا حصہ ہیں۔ برما سمیت خطے کے تقریباً سبھی چھوٹے بڑے ممالک اب چین کے’’احسانات‘‘ تلے دبتے جا رہے ہیں۔ اب شاید نیپال بھی چین کے ’ون بیلٹ-ون روڈ‘ منصوبے کا حصہ بننے جا رہا ہے۔
انتخابی نتا ئج پراپنے پہلے ردعمل کے طور پر بھارت نے ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرتے ہوئے نیپالی عوام کو مبارکباد دی ہے۔ اپنے پہلے بیان میں وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ ’’بھارت نیپال میں جمہوری طور پر منتخب ہوئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے۔‘‘ لیکن ایک بات صاف ہے کہ نئی منتخب ہوئی حکومت کا جھکاؤ کسی طور بھارت کی طرف نہیں ہوسکتا۔ دراصل اولی کا ہندوستان کی طرف موقف پچھلے کچھ عرصے سے انتہائی سخت ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اولی کی 2015ء میں غیر اعلانیہ بھارتی ناکہ بندی کے دنوں میں اپنائی گئی بھارت مخالف پالیسیاں اور جارحانہ بیان بازیاں اس کی کامیابی کا اہم عنصر ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بھی اولی نے اپنی پوری مہم کے دوران بھارت کو نیپال کی غیر اعلانیہ ناکہ بندی کا ذمہ دار گردانا اور اسے نیپالی عوام کا دشمن قرار دیا۔ بھارت نے نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد اپنے اثر اور دبدبے کو قائم کرنے کی بھرپورکوشش کی لیکن ستمبر 2015ء میں نئے جمہوری آئین میں ’تیرائی‘ کے علاقے میں رہنے والے ’مدہیشی‘ نسل کے لوگوں ساتھ نابرابری یا انہیں آئین میں کم تر حیثیت دینے کی وجہ سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوا۔ دراصل تیرائی میں مقیم یہ مدہیشی لوگ میتھلی، باجکا اور بھوجپوری زبانیں بولتے ہیں جوکہ بھارت کی ریاست اتر پردیش اور بیہار میں بھی بولی جاتی ہیں اور ان ریاستوں سے کافی نزدیکی کی وجہ سے ان لوگوں کا ایک دوسرے سے تعلق کافی گہرا ہے۔ آئین میں اس قسم کی نابرابری کے خلاف مدہیشیوں کی طرف سے دارالحکومت کی ناکہ بندی کی کوشش کی گئی جسے بھارت کی حمایت حاصل تھی۔ پانچ ماہ تک جاری رہی اس کشیدگی سے نیپال کو کافی نقصان اٹھانا پڑا اس راستے سے لائی جانی والی برآمدات بھی وہاں نہیں پہنچ سکیں جن میں خوراک اور ادوایات شامل تھیں۔ بھارت کے اس عمل کی شدید مخالفت کی گئی اور اسی کے ردعمل میں اُس وقت کے وزیراعظم اولی نے صورتحال سے نپٹنے کے لئے چین کا رخ کیا جس نے انہیں خوش آمدید کہا اور بڑے پیمانے پر نیپال کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی۔ اس کے بعد چین اور نیپال کے درمیان نزدیکیاں بڑھتی چلی گئیں اور کئی بڑے معاہدے بھی طے پائے گئے جن میں بندرگاہیں، ریلوے لائن اور پٹرولیم مصنوعات سمیت 2.5 بلین ڈالرکی ہائیڈرو ڈیم ڈیل سرفہرست تھی۔ گزشتہ ماہ انتخابات سے چند روز قبل عبوری حکومت نے ہائیڈرو ڈیم معاہدے کو منسوخ کردیا۔ اس ایشو کو انتخابی مہم میں اولی نے بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور اس عمل کو نیپالی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا۔ نیپال کے انتخابات پر اپنے حالیہ شمارے میں تجزیہ کرتے ہوئے اکانومسٹ نے متو قع وزیر اعظم اولی کو چین کے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق اولی نے حالیہ انتخابات میں اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا ہے جو ہندوستان کے تسلط کے خلاف ڈٹ جانے والا ہے۔
اس ساری صورتحال میں نئی بننے والی حکومت کے سامنے اپنے ہمسائے ممالک سے تعلقات کافی اہم رہیں گے۔ اولی کی چاہے بھارت سے بالکل ناطہ توڑنے کی کتنی ہی خواہش کیوں نہ ہو، ایسا کسی صورت یکسر ممکن نہیں ہے۔ نہ صرف معاشی طور پر بھارت میں مقیم تار کین وطن کی ترسیل زر نیپال کے لئے بہت اہم ہے بلکہ بھارت کے اسٹریٹیجک کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہند وستان اور نیپال کے درمیان کھلی سرحد ہے اور ہزاروں نیپالی پورے ہندوستان، بالخصوص مشرقی اور شمالی ریاستوں میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ یہ حقیقت دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں ایک اہم عنصر ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں مزید بگاڑ سے لاکھوں نیپالیوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی اور وہاں سے آنے والے زرمبادلہ میں شدید گراوٹ ہو سکتی ہے جوکہ مشرقی وسطیٰ سے بھیجے جانے والے پیسوں سمیت جی ڈی پی کا تیس فیصد بنتا ہے۔ دوسری جانب چین اور نیپال کی سرحد بہت دشوار گزار ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے علاوہ چین سے دوسری درآمدات کو بھی ہمالیہ کے دشوار گزار راستوں سے آنا پڑے گا۔ لہٰذا کوئی بھی نیپالی قیادت اس نظام اور اس کے جغرافیے میں بھارت کے سامراجی تسلط سے چھٹکارا نہیں پاسکتی۔

حالیہ انتخابات کے بعد ہر طرف نیپال کی جانبداری کے حوالے سے ہی بحث و مباحثے کئے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے نیپال کے بھارت یا چین کی طرف جھکاؤ کے فائدوں اور نقصانات کا تجزیہ ہو رہا ہے۔ لیکن جس سوال کوانتخابی نتائج کے بعد نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ نیپال کے عوام کی خوشحالی اور بنیادی مسائل سے چھٹکارے کا سوال ہے۔ نیپال جنوبی ایشیا کا سب سے غریب ملک ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سب سے غریب ممالک میں بارہویں نمبر پر ہوتا ہے۔ ہر ایک ہزار بچوں میں سے 35 غربت کی وجہ سے اپنے پہلے جنم دن سے قبل ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ نصف سے بھی کم آبادی کے پاس پینے کے لئے صاف پانی کی سہولت موجود ہے، جبکہ غذا ئی قلت کی بدولت پانچ سال سے کم عمر آدھے سے زیادہ بچے وزن میں کمی کا شکار ہیں۔ غیر سائنسی علاج اور خوراک و صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث اوسط عمر گھٹ کر اب 54 سال ہو چکی ہے۔ اس قسم کی نازک صورتحال درحقیقت پورے جنوب ایشیا میں موجود ہے اور اِس نظام کی حدود و قیود میں کسی حکومت سے بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ چین اور ہندوستان جہاں اپنے ممالک میں ان بنیادی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہیں وہاں ان سے نیپالی عوام کے لئے کوئی بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ حقیقت میں یہ دونوں سامراجی ریاستیں اس غریب ملک میں اپنی بالادستی کے لئے لڑتی رہیں گی۔ نئی بننے والی ’کمیونسٹ‘ حکومت شاید کچھ اصلاحات کی کوشش کرے، لیکن اتنی بوسیدہ سرمایہ داری میں کوئی اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔ دو سال قبل آئے زلزلے نے نیپالی سرمایہ داری کی کھوکھلی بنیادوں کو بے نقاب کر دیا تھا جب نو ہزار سے زائد لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ بہت سی بیرونی امدادوں کے باوجود بھی نیپالی ریاست اپنے بنیادی انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں عوام کی خاطر خواہ شرکت کو شاید کچھ حلقوں میں ’’جمہوریت‘‘ کی کامیابی گردانا جا رہا ہے لیکن اِس سے نیپالی عوام، بالخصوص نوجوانوں کے بائیں جانب جھکاؤ اور دباؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ماؤاسٹوں کی لمبی گوریلا جدوجہد (جس کے بعد وہ دوسری انتہا پر جا کر نظام کا حصہ بن گئے) اور خانہ جنگی کی بربادیوں کے بعد محنت کش عوام نے سیاسی افق پر سب سے بائیں طرف کے رجحانات کو ووٹ دیا ہے۔ اِس نظام کی بنیادوں کو چیلنج کئے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہے لیکن المیہ یہ ہے کمیونسٹ قیادت مرحلہ واریت اور اصلاح پسندی پر یقین رکھتی ہے۔ آنے والے عرصے میں اصلاح پسندی کی ناکامی کمیونسٹ پارٹیوں کے اندر اور باہر عام لوگوں کو انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گی۔