ہندوستان: مودی سرکار کی گرتی ساکھ

تحریر: آصف رشید

گجرات اور ہماچل پردیش کی ریاستوں میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج ہندوستانی سماج میں سطح کے نیچے پلنے والی بے چینی اور تبدیلی کی خواہش کااظہار ہیں۔ جہاں ہماچل پردیش میں کانگریس کو شکست ہوئی وہیں گجرات، جسے بی جے پی کا گڑھ کہا جاتا ہے، وہاں مودی سرکار کو 2012ء کی نسبت 16نشستیں کم ملی ہیں، جبکہ کانگریس نے گجرات میں 2012ء کی نسبت 20 نشستیں زیادہ جیتی ہیں۔بی جے پی کو 150 نشستوں کی توقع تھی جبکہ صرف 99 پر کامیابی مل سکی اور زیادہ تر انتخابی حلقوں میں فتح کا مارجن 20 فیصد سے کم رہا ۔ ہندوستان کے دوسرے کئی علاقوں کی طرح گجرات اور ہماچل پردیش میں بھی عوام کے پاس کانگریس اور بی جے پی جیسی روایتی دائیں بازو کی پارٹیوں کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں تھا۔ مودی میں اپنی انتخابی مہم میں ’وِکاس‘ اور ’وِشواس‘ کے نعرے کے ساتھ ہندوتوااور ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر سماجی مسائل کو چھپانے کی کوشش کی جبکہ کانگریس سیکولر ازم کا پرچار کرتی رہی ۔ جب سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نہ ہو تو مذہبی انتہاپسندی اور تعصبات کو ہوا دے کر سماج کو تقسیم کر کے طبقاتی جبر اور استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
گجرات کو مودی کے ترقی اور خوشحالی کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ انتخابی نتائج کچھ اور ہی روداد پیش کرتے ہیں ۔مودی نے ترقی اور تبدیلی کے جو نعرے لگائے تھے وہ ہوا ہو چکے ہیں۔ ہندوستانی سماج میں بلند شرح نمو کے باوجود غربت، ذلت اور مذہبی انتہا پسندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب سماج میں کوئی متبادل نظر نہ آ رہا ہو تو مستقبل سے مایوس لوگوں، بالخصوص درمیانے طبقے کو سماجی گھٹن وقتی طور پر قدامت پسندی کی طرف لے جا تی ہے جس سے ماضی کے تعصبات اور نفرتیں عود کر آتی ہیں۔
مودی سرکار کے آنے کے بعد جو معاشی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان سے عام انسانوں کی حالت زار مزید ابتر ہوئی ہے۔ عالمی عدم مساوات کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق آج ہندوستان نابرابری کے حوالے سے چین کوبھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔امیر ترین 1 فیصد طبقے کی دولت غریب ترین 50 فیصد کی کل دولت سے زیادہ ہے۔ 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امیر ترین ایک فیصد کی آمدنی 22 فیصد ہے اور امیر ترین 10 فیصد کی آمدنی کل ملکی آمدن کا 56 فیصد ہے جبکہ نیچے کے پچاس فیصد کی کل آمدن محض 13فیصد ہے ۔اس تفریق اور نابرابری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی مالیاتی اداروں نے مودی سرکار پر دباؤ بڑھانا شروع کیا ہواہے جس سے آنے والے دنوں میں نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور ری سٹرکچرنگ کے ذریعے سے محنت کش طبقے پرمزید حملے کیے جائیں گے ۔
ہندوستان کی 66 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جن کو شدید مسائل کا سامنا ہے ۔بے روزگاری اپنی انتہاؤں پر ہے ۔ ’OECD‘ کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 سال کے 30 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں ۔ مودی سرکار نے 2014ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سالانہ 2 کروڑ نئی نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ 2016ء میں صرف 2 لاکھ 30 ہزار نوکریاں پیدا ہوسکیں۔ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے پھر انہیں مودی کے کھوکھلے نعروں اور وعدوں پر وشواس کر نا پڑتاہے۔لیکن وہ ہمیشہ بھروسہ نہیں کریں گے۔ 2019ء تک مزید 10 ریاستوں میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔مودی کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ خالی خولی نعروں کے ذریعے عوام کو بار بار بے وقوف بنائے ۔
مودی 12 سال گجرات کا وزیر اعلی رہا۔عالمی مالیاتی بحران سے پہلے مودی نے گجرات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے تھے۔ جس کی وجہ سے اس سے بحیثیت وزیراعظم کافی امیدیں وابستہ کی گئیں تھیں۔ لیکن اپنے تمام تر وعدوں اور دعوؤ ں کے باوجود مودی بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے پر ناکام رہا۔جب اُس نے اقتدار سنبھالا اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 100 ڈالر تھی جبکہ دسمبر 2014ء میں 60 ڈالر فی بیرل تک گر گئی جس سے انڈین معیشت کو کافی فائدہ ہوا اور 2014ء کے آخری کوارٹر میں جی ڈی پی کی شرح نمو میں 9.2 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے بھارت کو دنیا کی سب سے تیز ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جس نے چین کو بھی پیجھے چھوڑ دیا ۔ لیکن اِس نیو لبرل گروتھ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ثمرات آبادی کی ایک اقلیت تک ہی محدود ہیں۔ آبادی کی وسیع تر اکثریت کی معیشت کا اس میکرو اکنامک معیشت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ حالیہ عرصے میں کرپشن اور کالے دھن کو کنڑول کرنے کے لیے نوٹ بندی کے اقدام سے کالا دھن تو کنٹرول نہیں کیا جا سکا البتہ بے شمار غریب لوگوں کی جمع پونجی برباد ہوگئی۔ ہندوستان کی معیشت کا 25 فیصد کالے دھن پر مشتمل ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام میں کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔
مودی نے پچھلے عرصے میں جی ایس ٹی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جسے ’’ایک قوم ایک ٹیکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے سالانہ قومی آمدنی میں اضافہ مقصود تھا ۔ لیکن اس ٹیکس کا نفاذ پیچیدہ اور مشکل ہے اور اس سے بے شمار چھوٹے کاروباری بری طرح سے متاثرہوئے ہیں۔ لیکن مودی کی تمام تر پالیسیوں کا مقصد ہندوستان کی بورژوازی اور عالمی سرمایہ داری کے لیے ایسا ساز گار ماحول پیدا کرنا ہے کہ جہاں کھل کر لوٹ مار اور استحصال کیا جاسکے۔ آنے والے دنوں میں مودی سرکار محنت کشوں پر زیادہ شدید حملے کرے گی ۔ ہندوستان کے محنت کش طبقے کی نے مودی سرکار کو پچھلے دو سالوں میں دوبڑی عام ہڑتالوں سے للکارا ہے اور ان ہڑتالوں نے محنت کش طبقے کے مطالبات منوائے ہیں جس سے ہندوستان کے محنت کش طبقے میں ایک اعتماد پیدا ہوا ہے ۔ وہ آنے والے دنوں میں زیادہ جرات سے طبقاتی لڑائی کے میدان میں اترے گا۔ ہندوستان کے محنت کش طبقے کے لیے سب سے بڑا بوجھ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیا ں ہیں جن کے نظریاتی دیوالیہ پن کی ایک تاریخ ہے۔ لیکن اصلاح پسندی کا یہ بوجھ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا ۔ ہندوستان کا محنت کش طبقہ اپنی طاقت، حجم اور ساخت کے لحاظ سے ایک طاقتور قوت ہے جو ناگزیر طور پر تمام تر رجعت اور جبر کا سینہ چاک کر کے اِس نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا۔