اعلانِ بالفور: جبر مسلسل کے سو سال
اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔
اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔
یہ بے دھڑک اقدام محض ٹرمپ کی ڈانواڈول بڑھکوں کا تسلسل نہیں ہے بلکہ امریکی ریاست اور سماج میں گہرے تضادات کی غمازی کرتا ہے۔
یہ بحران معیشت سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے ساختی بحران میں بدل گیا ہے۔
یمن کی اِس بربادی کی وجوہات بنیادی طور پر 2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلابات کی پسپائیوں کی لڑی سے جڑی ہوئی ہیں۔
گو پچھلے چند سالوں کی پورے خطے میں شدت پکڑتی ہوئی پراکسی جنگوں کی لبنان میں بڑی مداخلت نہیں رہی تھی لیکن لبنان کی اپنی تاریخ میں بہت سے ایسے ادوار ہیں جہاں خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ خونریزی رہی ہے۔
کردوں کی قومی آزادی کی تحریک کئی نسلوں پر مبنی ہے لیکن اس قومی مسئلے کو کرد حکمران طبقات کے سیاستدان اور سردار اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
صہیونی ریاست کے ظلم و جبر کی بھی انتہا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ عرب حکمرانوں کی ریاکاری بھی بدترین ہے۔
حسن روحانی کے الیکشن میں سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کے وعدوں کے باوجود ملاں اشرافیہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے عوام پر مزید تشدد کرے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے مغربی رہنماؤں کی جانب سے داعش کی فیصلہ کن شکست اور اس کی ’’کمر توڑنے‘‘ کی باتیں شاید قبل از وقت ہیں اور اس بات پر یقین کرنے والوں کو شدید مایوسی ہوگی۔
قلیل آبادیوں کو بڑے پیمانے کی مراعات دے کر عرب ممالک کی 2011ء کی عوامی تحریکوں سے بچ جانے والی خلیجی بادشاہتیں اب پرانے طریقوں سے نہیں چل سکتیں۔
قطری بادشاہت اس چھوٹے سے ملک کو خطے میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور درحقیقت خلیجی ممالک میں سعودی عرب کی تھانیداری کو چیلنج کر رہی ہے۔
ان دوروں میں واضح طور پر مذہبی منافرت کی پالیسی کے احیا کا عنصر شامل تھا اگرچہ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اور امن کے نام پر ہوا۔
ملاں اشرافیہ کی اِس رجعتی مذہبی آمریت میں انتخابات صرف سماجی دباؤ اور بغاوت کو تحلیل کرنے کی حد تک ہی ’جمہوری‘ ہوتے ہیں۔
روس اور امریکہ سمیت اس تنازعے میں شامل تمام حصہ دار بخوبی آگاہ ہیں کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جو اندھا دھند جارحانہ پالیسیوں اور فیصلوں کے اعلانات کرتا جارہا ہے وہ امریکی ریاست کے اپنے خارجی اور سفارتی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ ان کو مسلسل جاری رکھ سکے۔