تحریر: ظفراللہ
آج کا عہد انتشار اور عدم استحکام کا عہد ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی سیاسی اکائی نہیں جہاں سیاسی و معاشی استحکام اور امن ہو۔ اس عہد کی خستہ حالت مختلف طبقات کی نفسیاتی کیفیت سے عیاں ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کے دانشور اور حمایتی مفکرو معاشی ماہرین موجودہ بحران کو ’’لمبے عرصے کے معاشی انحطاط‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ دراصل یہ بحران معیشت سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے ساختی بحران میں بدل گیا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کا کوئی بھی بحران حتمی نہیں ہوتا اور اس میں سے نکلنے کے ’’کئی طریقے‘‘ ہوتے ہیں چاہے اس کے لیے نسل انسان اور تہذیب کو خطرے سے دوچار کرنا پڑے۔ 2007 ء کے مالیاتی بحران سے عالمی معیشت ابھی تک مکمل طور پر نہ صرف بحال نہیں ہو سکی بلکہ ایک اور بڑے بحران کی پیش گوئی بھی معیشت کے سنجیدہ تجزیہ نگاروں کی طرف سے ہو رہی ہے۔ ابھی تک امریکہ اور یورپ میں کم ترین شرح سود کے ذریعے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے مرتے ہوئے مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہو۔ لیکن اس کیفیت سے بحالی کی طرف نکلنے کی معمولی سی کوشش بھی معیشت کو بڑے جھٹکے سے دوچار کر سکتی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عالمی بینکاری نظام آج 2007ء کے بحران سے پہلے سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہے۔ عالمی قرضے خطرناک حدتک بڑھ چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر حکومتیں آج جس قدر مقروض ہیں اتنی ایک دہائی پہلے نہیں تھیں۔ عالمی قرضہ 217 ٹریلین ڈالر ہو گیا ہے جو کہ عالمی جی ڈی پی کا 327 فیصد بنتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قرضوں کا غبارہ ہے جو کسی بھی وقت دوبارہ پھٹ سکتا ہے۔ ابھی تک یورپ اور امریکہ کی معیشتیں صارفین کو قرضوں کے ذریعے کھپت کے طریقے استعمال کر کے معیشت کو عارضی سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ قرضے جی ڈی پی کے 45 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جبکہ قبل از بحران یہ شرح 35 فیصدتھی۔ ان قرضوں کی عدم ادائیگی اور دیوالیہ پن کی وجہ سے مالیاتی انہدام ہوا تھا۔ شرح منافع کی بڑھوتری کے لیے یہ ایک آگ کا کھیل ہے۔
امریکہ کی معیشت اس سہ ماہی میں اگر چہ تین فیصد کی شرح نمو سے بڑھی ہے۔ لیکن یہ ایک نحیف ، ناپائیدار اور بے بنیاد شرح نمو ہے جو زیادہ تر کنزیومر فنانسنگ اور خدمات کے شعبے کی بدولت ہے۔ نئی نوکریاں پیدا ہوئی ہیں اور بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگوں نے نوکریوں کی تلاش ہی چھوڑ دی ہے جو پھر بیروزگاروں کا حصہ نہیں بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اجرتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ جس سے حقیقی قوت خرید نہ بڑھنے کی وجہ سے گھریلو صارفین کے قرضے میں بڑھوتری کامظہر نظر آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح اس بحران سے نکلنے کے لیے اسلحے اور جنگی سازوسامان کی فروخت پر زیادہ زور دے رہا ہے۔ اس کی قبل از الیکشن کی ساری حکمت عملیاں بھک سے اڑ گئی ہیں اور بالآخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے بہت سی چیزوں کا اندازہ نہیں ہوتا اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ کیا پالیسیاں بنانی ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پنٹاگان سے ٹکرانا اتنا آسان نہیں ہے اور آخر کار ہر امریکی صدر کو انکے آگے سر نگو ں ہوناپڑتا ہے۔ 2007ء کے مالیاتی بحران کے بعد یورپ اور امریکہ کہ موجودہ نسل وہ واحد نسل ہے جو پچھلے پچاس سالوں میں اپنے پرکھوں کی نسبت کم ترین معیار پر زندگی گزار رہی ہے۔ یہ عمل انکے شعور میں زبردست تبدیلی کاموجب بن سکتا ہے اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات نے عوام کے شعور کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے جو مختلف واقعات کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔
یورپی بحران میں جہاں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے واقعے نے یورپی حکمران طبقے کو لرزا دیا ہے وہاں باقی یورپ اور بالخصوص سپین میں ہونے والے واقعات ایک نئی کیفیت کی غمازی کر رہے ہیں۔ کاتالونیا کی سپین سے آزادی کے ریفرنڈم میں ہسپانوی ریاست کے جبر اور تشدد کے واقعات نے سرمایہ دارانہ ریاست اور جمہوریت کے چہرے سے نقاب اتار کر اس کے اصل روپ کوآشکار کیا ہے اورثابت کیا ہے کہ سرمایہ داری کے اندر قومی آزادی کی جدوجہد ایک سراب ہے جسے سرمایہ دارانہ ریاست اپنی پور ی طاقت اور وحشت سے کچل دیتی ہے۔
یورپی یونین کی 1991ء کے ماستریخت معاہدے کے تحت تشکیل اپنی بنیاد میں ہی غیر فطری تھی۔ مختلف مفادات کے تحت قومی ریاستوں کی ایک معاشی اور سیاسی اکائی میں تبدیلی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ابھی بھی یورپ کے اندر مختلف سیاسی رجحانات کاجائزہ لیں تو یورپی یونین کے مستقبل میں خاتمے کے قوی امکانات ہیں۔ فرانس میں لی پین کی نیشنل فرنٹ اور دوسرے یورپی ملکوں میں دائیں بازو کی پارٹیوں کاابھار اس بات کی دلالت ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھیں تو فرانس میں جہاں میکرون اقتدار میں آیاہے اور اس کے فوراً بعد ’معاشی درستگی‘ کے لئے محنت کشوں کی مراعات چھیننے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے وہاں آنے والے دنوں میں محنت کشوں کی سخت مزاحمت کے امکانات ہیں۔ میلاشوں کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ووٹ پڑے ہیں جو بائیں بازو کا امیدوار تھا اور بہت ریڈیکل اصلاحات کے ایجنڈے پر الیکشن لڑ رہا تھا۔ اس سے نظر آتا ہے کہ یورپی سماجوں میں عوام کی پولرائزیشن ہے جو آنے والے دنوں میں واضح شکل میں سامنے آسکتی ہے۔ اسی طرح حالیہ جرمنی کے الیکشن میں حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی تاریخ کے کم ترین ووٹ لیے ہیں جبکہ انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی ’AFD‘ تیسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑا سیاسی زلزلہ ہے۔ کئی سالوں سے دبے معاشی اور سماجی تضادات اچانک سیاسی طور پر اپنا اظہار کرنا شروع کرتے ہیں۔ اینجلا مرکل کی پارٹی تیسری دفعہ الیکشن جیت کر بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ لیکن پہلے کی نسبت کمزور پوزیشن میں ہے۔
مشرق وسطیٰ اس سیارے پر کئی دہائیوں سے ایک سلگتا ہوا خطہ ہے۔ عراق پر مسلط کردہ امریکی جنگ نے جہاں اس خطے کو تارتار کیا ہے وہاں عرب بہار ایک امید کے استعارے کے طور پر نمودار ہوئی۔ جس نے مصر، لیبیا اور تیونس جیسی ریاستوں پر کئی دہائیوں سے براجمان آمریتوں کو اکھاڑ پھینکا۔ اس عرب بہار کی پسپائی سے پھر شام اور عراق میں داعش کے وجود سے ایک خون ریز خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ امریکی سامراج اور دوسری رجعتی علاقائی طاقتوں کی وحشت نے عراق ، لیبیا اور شام کی ریاستوں کو تحلیل کرنے کا جو گھناؤنا کھیل کھیلا وہ اب پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ امریکی سامراج اور اس کی اتحادی رجعتی بادشاہتیں اسد کی حکومت کو اکھاڑنے میں تو ناکام رہیں لیکن شام کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ ایک وقت پر روس کو اپنے مفادات کے تحت مداخلت کرنا پڑی اور امریکی سامراج کو اپنی داخلی کمزوری اور حالات قابو سے باہر ہو جانے کے پیش نظر اِس روسی مداخلت کو نیم رضامندی سے قبول کرنا پڑا۔ دوسری طرف ایران کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق میں اپنے قدم جمانے کا موقع میسر آیا۔ ابھی بھی عراق کے اندر ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کا بھاری اثر ورسوخ موجود ہے۔ اس راستے سے ایران کا لبنان شام اور یمن میں اثر و رسوخ بڑھا ہے جس سے پورے مشرق وسطیٰ میں طاقتوں کے توازن میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ سعودی ایران تضادات میں اضافہ ہونے سے پورا خطہ آگ و خون کی لپیٹ میں آیا ہے۔ اسی طرح عراق کے نیم خودمختار کرد علاقوں کی حکومت نے تیل سے مالامال عراقی علاقے موصل پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی جو ایک کرد ریاست کے لئے مالیاتی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل تھا اور موصل کو آزاد کرانے میں کرد ملیشیا کا بہت بڑا کردار تھا۔ لیکن داعش کے فوری انخلا کے بعد عراقی ریاست نے اپنی فوج بھیج کر موصل کو کردوں سے واپس لے کر کرد علاقوں کو ایک گہرے بحران میں دھکیل دیا۔ جس کے نتیجے میں برزانی کی مقبولیت میں بے پناہ کمی آئی جو پچھلے بارہ سالوں سے مسلسل کرد علاقے پر بلاشرکت غیر حکمران چلاآ رہاتھا۔
سعودی عرب میں شاہ سلمان کے تخت پر بیٹھنے کے بعد بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو کئی دہائیوں کے محلاتی تضادات کو پھاڑنے کاموجب بنی ہیں۔ محمد بن سلمان نے جس طریقے سے سعودی بادشاہت میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں اس سے ہمیں شاہی خاندان میں کئی خاموش بغاوتوں کی بازگشت سنائی دی ہے جس کا اظہار حالیہ کریک ڈاؤن میں شہزادوں کی گرفتاریوں کی شکل ہوا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی بدولت سعودی معیشت کی طرز میں تبدیلیوں کی کوشش نے شاہی حکمران دھڑوں میں تضادات کو عیاں کیا ہے۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر جہاں گہرے بحران میں ہے اور امریکی اور یورپی ریاستیں کوششوں کے باوجود اس پرقابو نہیں پا سکیں تو سعودی عرب میں پانچ سو ارب ڈالر سے نیا تجارتی شہر بنانے کے منصوبے سے سعودی معیشت کیسے بحال ہو سکتی ہے یا آنے والے بحران کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ سعودی عرب کی ریاستی آئل کمپنی آرامکو کے شیئرز بیچنے اور ابتدائی عوامی پیش کش (IPO) کی تیاریاں اگلے سال تک مکمل ہونے والی ہیں۔ یہ عالمی تاریخ کی سب سے بڑی نجکاری ہوگی جو ایک بہت بڑا جوا ہے جو محمد بن سلمان کھیلنے جا رہاہے۔ ایک عالمی معاشی زوال کے عہد میں خطرے سے نبٹنے کا ایک پرخطر طریقہ کار ہے جو عمل میں لایا جا رہاہے۔ دوسری طرف علاقائی بالادستی کی دوڑ میں یمن پر جنگ مسلط کرنے اور قطر کے ساتھ تنازعے بڑھنے سے جو سعودی معیشت پر اخراجات کا بوجھ پڑا ہے وہ سعودی حکمرانوں کو ایک پاگل پن میں دھکیل کر مزید بحران میں داخل کر سکتا ہے۔
نئی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں چین اور بھارت دو قابل ذکر ممالک تھے جن سے سرمائے کے پالیسی سازوں کو امید تھی کہ وہ عالمی معیشت کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ لیکن پچھلے تین سالوں میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کو گہری گراوٹ کا سامنا کرناپڑا ہے۔ عالمی معیشت کی کمزوری اور امریکی اور یورپی منڈی کی قوت خرید میں کمی کی بدولت چین کی معیشت تیز ترین گراوٹ کا شکار ہو کر 14 فیصد شرح نمو سے 7 فیصد سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ معیشتیں جو چین کو خام مال فراہم کرتی تھیں شدید گراوٹ کا شکار ہوئیں۔ برازیل اور روس کی معیشتوں کی شرح نمو منفی میں چلی گئی اور اس طر ح ابھرتی ہوئی معیشتوں کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ چین کی معاشی گراوٹ نے چینی ریاست کو مجبور کیا کہ وہ دیوہیکل سرمایہ کاری سے ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے شروع کرے۔ چین اس منصوبے پر سات سو ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر رہا ہے جو کہ امریکی اور یورپی منڈی میں تیز ترین رسد میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ منصوبہ چین اور امریکہ کے پہلے سے موجود تجارتی تضادات کو مزید گھمبیر کرنے کا موجب بھی بنے گا جو پھر پراکسی جنگوں کی شکل میں مختلف خطوں میں خونریزی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اپنی بنیادی معاشی پالیسیوں اورسامراجی عزائم کی بدولت چین ایک ابھرتے ہوئے سامراج کاکردار اداکرنے کی کوشش میں ہے۔ اس سال ورلڈ اکنامک فورم میں چینی صدر نے واضح کیا کہ چین دنیا کے معاملات سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے موجودہ بحران اور زوال کی کیفیت میں یہ ممکن نہیں کہ چین امریکہ کی جگہ سنبھال سکے۔ امریکہ اب بھی ایک دیو ہیکل معاشی قوت اور خوفناک جنگی طاقت کا حامل سامراج ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے موجودہ بحران نے اسکے سامراجی عزائم اور طاقت کو محدود کر دیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ چین اس کے مقابلے میں سامراج کے طور پر سامنے آسکے۔ عالمی سرمایہ دار چین پر مسلسل دباؤ قائم کیے ہوئے ہیں کہ چین اپنی معیشت کو مزید کھولے لیکن خود چین کے اندر یہ عمل کئی تضادات کو ابھارنے کا سبب بن سکتا ہے جو کہ ہمیں چینی بیوروکریسی کے آپسی اختلافات اور تضادات کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔ ابھی تک چینی افسر شاہی میں ایک دھڑا موجود ہے جو معیشت کو مزید لبرلائز کرنے کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ اس کے مفادات موجودہ معاشی طرز سے وابستہ ہیں جس میں ریاست کی بھاری ملکیت اور معیشت میں مداخلت موجود ہے۔ چینی بیوروکریسی میں شدید کرپشن موجود ہے۔ اس کرپٹ بیوروکریسی کو اپنی اس دولت کے تحفظ اور وراثتی منتقلی کے لیے نجی ملکیت کی مکمل بحالی درکار ہے جو پھر کئی تضادات کی شکل میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے مختلف دھڑوں میں بحران پیدا کر سکتی ہے۔ شی جن پنگ کی حالیہ اصلاحات اور کرپشن کے الزامات کے تحت پارٹی کے انتہائی اہم افراد کے خلاف کاروائی اس کا واضح ثبوت ہے۔ حالیہ پارٹی کانگریس میں شی جن پنگ کا اپنے ’’نظریات‘‘ کو ’’سوچ‘‘ کا درجہ دے کر پارٹی آئین کا حصہ بنانا چین پر طویل عرصے تک حکمرانی کی منصوبہ بندی کو عیاں کرتاہے۔ یہ ماؤزے تنگ اور ڈینگ ژاؤپنگ کے بعد تیسرا اور اپنی زندگی میں ماؤ کے بعد دوسرا چینی رہنما ہے جس کو یہ ’اعزاز‘ حاصل ہوا ہے۔ پارٹی میں نوجوانوں کی بے تحاشا شمولیت پچھلے کچھ سالوں میں بہت بڑھی ہے جس کا مقصد زیادہ تر ریاستی مراعات اور روزگار کو یقینی بنانا ہے کیونکہ نجی اور ریاستی اداروں میں پارٹی اراکین کے لئے روزگار کے کوٹے کا قانون موجود ہے۔ چینی معیشت اگر 6 فیصد کے گروتھ ریٹ سے نیچے گرتی ہے تو بڑے پیمانے پر سماجی دھماکوں کا آغاز ہو سکتاہے۔ معیشت میں گراوٹ بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو پہلے سے موجود بے روزگاری کے وسیع سمندر میں دھکیلنے کا باعث بن سکتی ہے جو چینی سماج میں بے چینی اور اضطراب کو اپنی انتہا تک لے جا ئے گی۔
یہی کیفیت ہندوستان کی ہے جہاں مودی حکومت وہ نتائج نہیں دے سکی جو کہ بھارتی بورژوازی اس سے توقع کر رہی تھی۔ 2017-18ء میں متوقع 7.6 فیصد کے گروتھ ریٹ کے مقابلے میں اس سہ ماہی میں معیشت نے 5.7 فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے جو بڑی گراوٹ کی علامت ہے۔ مزید برآں اِس معاشی نمو کے ثمرات نیچے نہیں پہنچ رہے ہیں۔ مودی حکومت معاشی بحالی اور ’’وِکاس‘‘ میں ناکام ہو کر انتہائی دائیں بازو کی نعرہ بازی کرکے مختلف رجعتی نان ایشوز کی سیاست میں فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ چین اور ہندوستان کا پرولتاریہ اپنے حجم میں دنیا کا سب سے دیوہیکل پرولتاریہ ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ جدوجہد اور انقلابی نجات کے راستے پر چل پڑا تو پوری دنیا کو ہلا سکتا ہے۔
عالمی سرمایہ داری کے بحران کے اثرات دنیا کی ہر معیشت پر واضح انداز میں مرتب ہور ہے ہیں۔ اگر کہیں بحالی ہوئی ہے تو وہ اتنی کمزور اور نحیف ہے کہ اس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ دانشور کوئی طویل المیعاد ابھار کا عندیہ نہیں دے سکتے۔ کٹوتیوں اور محنت کشوں کے معیار زندگی پر حملوں 8 کو ہی تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو خود اس نظام کے لیے مہلک ہے اور پہلے سے موجود کمزور منڈی کو مزید کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ کیفیت نئے مالیاتی اور معاشی انہدام کاباعث بن سکتی ہے جس سے نئے سیاسی بحران پیدا ہوں گے۔ اس سارے عمل کے دوران محنت کشوں کے شعور پر اثر انداز ہونے والے واقعات اُنہیں جدوجہد اور انقلاب کے مشکل مگر ناگزیر راستوں پر دھکیل سکتے ہیں۔ یہ عمل ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں تاریخ کے دھارے کو موڑ سکتا ہے۔