کردستان کی ’آزادی‘ کا ریفرنڈم!

تحریر: لال خان

پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی سوموار کو کردستان میں’’علیحدگی وآزادی‘‘ کے مسئلہ پر ہونے والے ’’ریفرنڈم‘‘ کو غیر قانونی اور ’’عراق کی سا لمیت‘‘ پر وار قرار دیا ہے۔ ویسے پاکستان کی حکومت کے بیان دینے یا نہ دینے سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہزار وں سالوں سے مختلف قوموں، نسلوں، فرقوں، قبائل او ر مذاہب پر مبنی آبادیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن حالیہ چند دہائیوں میں نسلی، مذہبی اور قومیتی تعصبات اور تضادات میں شدت آگئی ہے۔ کر د آبادی ایران، شام، عراق، ترکی، لبنان اور دوسرے علاقائی ممالک میں اقلیت کے طور موجود ہے۔ ترکی میں کئی دہائیوں سے کردوں پر انقرہ کے قومی جبر واستحصال اور ایک طویل سیاسی وعسکری تصادم کی تاریخ ہے۔ اسی طرح ایران میں بھی کردوں میں علیحدگی کے رحجانات اور قومی استحصال کا جبر شاہ کے دور سے جاری ہے۔
2003ء میں امریکی سامراج کی عراق کو ’’آزادی اور جمہوریت‘‘ دلوانے والی جمہوریت نے عراق کو اتنا تاراج کیا ہے کہ اسکی ریاست درحقیقت ٹوٹ گئی ہے اور مختلف نسلوں، مذاہب، فرقوں اورقومیتوں نے اپنی نیم خود مختار ریاستیں کم از کم عملی طور پر بنائی ہوئی ہیں۔ امریکی سامراجیوں نے عراق میں لاکھوں کا قتل عام کرکے نہ صرف دریائے دجلہ وفراط کے پانیوں کا رنگ سرخ کردیا بلکہ عراق کی سا لمیت کو بھی تار تار کردیا ہے۔ عراق کی فوج اور ریاست کے بکھر جانے اور کسی طبقاتی یکجہتی وتحریک کے فقدان کی کیفیت میں زیادہ طاقتور گروہوں نے مختلف حصوں پر قبضہ کرکے اپنی حکمرانیاں قائم کرلیں۔ ان میں بصرہ میں مقتدیٰ الصدر اور عراقی کردستان میں مسعود بارزانی نے اپنی حاکمیت اربیل کے شہر میں قائم کرلی۔ لیکن اسکے ماتحت کرد ملیشیا نے ایسے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا جہاں کردآبادی کی اکثریت نہیں تھی۔ اس میں سب سے کلیدی کرکوک کا شہر اور ضلع ہے۔ جہاں تیل کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں۔ داعش کی پسپائی اورشکست کے آثار نمایاں ہو ہی رہے ہیں کہ عرب اور کرد ملیشیا دستے جو مشترکہ طور پر داعش کے خلاف برسرپیکار تھے باہمی مسلح تصادم کی جانب تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔ داعش کی پہلی بڑی شکستوں کے بعد مسعود بارزانی، جو طویل عرصے سے عراقی کردستان کا صدر چلا آرہا ہے، نے25 ستمبر کو کردستان کی آزادی کے ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے خلاف عراق کے صدر حیدر العبادی نے بیان دیا کہ یہ ریفرنڈم عراق کی ’سا لمیت‘ کے برخلاف ہے۔ اس بیان کے بعد اس نے بھی اپنی خستہ حال فوجوں کے کچھ دستے کرد حصوں کے سامنے مخمور کے شہر بھیج دیئے ہیں۔ لیکن اگر کردستان کی نیم خودمختار صوبائی حکومت (جس پرمسعود بارزانی 2004 ء سے حکمرانی کررہا ہے) کا جائزہ لیا ہے تو اس کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ کرد عوام اس حکومت کے تحت بھی شدید اقتصادی اور سماجی محرومی کا شکار ہیں۔ اس کی امریکی حمایت یافتہ ’’پیش مرگہ‘‘ ملیشیا فورس مختلف خاندانی دھڑوں کے جنگجو سرداروں کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔ بارزانی دومرتبہ انتخابات ملتوی کرکے اپنی صدارت کے دور کو طوالت دے چکا ہے۔ اس ریفرنڈم کا مقصد بھی قومی شاونزم ابھار کر اپنی حاکمیت کو طول دینا لگتا ہے۔ ریفرنڈم کے بعد بارزانی نے اعلان کیا ہے کہ’’آزادی‘‘کے حق میں92 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا مقصد حتمی آزادی اور علیحدگی کا اعلان کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے اجازت لے کر مذاکرات کے ذریعے مزید خود مختاری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ امریکی جارحیت سے قبل عراق میں کردوں کا سب سے بڑا شہر بغداد تھا۔ لیکن اسکی بربادی کے بعد جہاں دوسری قومیتوں کے عوام منتشر ہوئے وہاں کُرد آبادی کا بڑا حصہ بغداد سے فرار ہو کر شمال کی جانب ہجرت کر گیا۔ کردستان کے دارالحکومت اربیل میں عرب اور ترکمان باشندوں کی بڑی تعداد قیام پذیر ہے جو نفسیاتی خوف وہراس کا شکار ہیں۔ پہلے اربیل سے بھرے ہوئے جہاز جاتے رہے لیکن ریفرنڈم کے بعد کرکوک اور اربیل کے ہوائی اڈوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ ریفرنڈم ’’جیتنے‘‘ کے بعد بارزانی‘ عراق اور کرد آبادیوں والے ممالک سے لین دین کرے گا۔ مغربی سامراجی بھی اسی قسم کی ’’ڈیل‘‘ کروانے کی کوششیں کریں گے۔ صوبائی حکومت پر کرکوک کا تیل خود بیچنے پرجو پابندیاں لگائی گئی تھیں انکو اٹھوانے اور ’’پیش مرگہ‘‘ ملیشیا کو شیعہ ملیشیاؤں کی طرح عراق کی فوجی تنخواہیں دینے کے مطالبات بھی پیش کرے گا۔ مغربی حکمران آنے والے نومبر میں کردستان کے انتخابات کو ایک بار پھر ملتوی کرنے اور بارزانی جیسے جنگجو سردارکے صدر بنے رہنے کو قبول بھی کر لیں گے۔
المیہ یہ ہے کہ کردوں کی قومی آزادی کی تحریک کئی نسلوں پر مبنی ہے، جس میں بے پناہ قربانیاں ہیں لیکن اب اس قومی مسئلے کو کرد حکمران طبقات کے سیاستدان اور سردار اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انکا مذموم مقصد کرکوک کے تیل کے کنوؤں پر سودے بازی سے بھاری رقوم اینٹھنا ہے۔ بارزانی نے ریفرنڈم چاہے اپنے مفادات کے لئے کروا یا تھا لیکن اس سے ترکی، ایران اور دوسرے ممالک میں رہنے والے کرد باشندوں میں ایک نئی ہلچل ابھری ہے۔ ترکی اور ایران کی ریاستوں نے تیل کی سپلائی روکنے اور ہر قسم کی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے۔ ایران میں اس ریفرنڈم کے حق میں ہونے والے بڑے مظاہروں پر فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے نیچی پروازیں کرکے انکو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ ترکی نے کرد علاقوں میں بڑی فوجی مشقوں کا شدت سے آغاز کر دیا ہے۔ جہاں یورپ اور امریکی سامراجیوں نے ریفرنڈم کی ظاہری نیم مخالفت کی ہے وہاں اسرائیلی صیہونی ریاست نے ریفرنڈم اور ’’آزاد کردستان‘‘ کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ پہلے سے فرقہ وارانہ اور قومی جنگوں اور بربادیوں کا شکار مشرقِ وسطیٰ اب ایک نئے تضاد سے ابھرنے والی خونریزی اور تصادم کے بھیانک امکان کا سامنا کر رہا ہے۔ کردوں کی قومی آزادی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس میں ایک ریاست کا جبر نہیں بلکہ چار پانچ ریاستوں کو شکست دے کر ہی کردوں کو ایک قوم کے طو پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ایک حقیقی کرد ریاست بنائی جاسکتی ہے۔ اسکے معنی ایک لامتناہی خونریزی کا نیا آغاز ہے۔
ایک طرف پہلے سے موجود ریاستیں اپنے اقتصادی نظاموں کے بحرانوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ظالم اور قومی جبرواستحصال کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ یہ اقدامات ہی ان ریاستوں کی تاریخی متروکیت کی علامت ہیں۔ پہلے سے موجود ریاستیں کوئی استحکام، خوشحالی اور قومی حقوق دینے سے قاصر ہیں جبکہ نئی ریاستیں جن اقتصادی بنیادوں پر جنم لینے کی کوششیں کر رہی ہیں وہ انتہائی بدعنوان، لوٹ گھسوٹ اور مختلف سامراجوں کی گماشتگی پر مبنی ہیں۔ اس پس منظر میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پورے خطے کی کوئی نئی سامراجی بندر بانٹ کے عزائم طے کیے گئے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی سامراجیوں نے بند بانٹ سے پورے خطے کوخوب لوٹا لیکن ان نئی مصنوعی ریاستوں کے قیام کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ پورا مشرقِ وسطیٰ آگ اور خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج صرف مغربی نہیں بلکہ مشرقی سامراجی بھی اس بندر بانٹ میں حصہ داری کے لئے برسرپیکار ہیں۔ عالمی سرمایہ دارنہ نظام کے زوال کے عہد میں سامراجی جس بحران کا شکار ہیں اسکے نتیجے میں ان کی سفارتکاری زیادہ تباہ کن ہے۔ خطے میں سامراجیوں کی باہمی لڑائیوں سے مزید خون خرابہ ہی ہوگا۔ ان سامراجی جارحیتوں کو شکست دینے کے لئے خطے کے محنت کشوں اور عام لوگوں کو مقامی ایجنٹوں اور دولت کے پجاریوں، قوم پرستی اور مذہبی ٹھیکیداری کرنے والے حکمرانوں کے تخت بھی اکھاڑنا ہونگے۔ یہ انقلابی جنگ مشرقِ وسطیٰ کی تمام قوموں، نسلوں، مذہبوں، فرقوں اور ملکوں کے محنت کش ایک طبقاتی یکجائی میں باہمی جڑت سے ہی جیت سکتے ہیں۔ ورنہ بربریت کا ننگا ناچ خطے میں شروع ہوچکا ہے جو عظیم تاریخی تہذیب کو نیست و نابود کر سکتا ہے۔