فلسطین: اسرائیلی و عرب حکمرانوں کی سفاکی!

تحریر: لال خان

پچھلے کچھ عرصے سے شام، عراق، یمن اور مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں جاری درندگی، معاشی بحرانوں میں عرب حکمرانوں کی پراگندگی کی لڑائیاں، خلیج فارس میں تناؤ اور مختلف بحرانوں میں کارپوریٹ میڈیا، اقوام متحدہ اور حکمرانوں کے دوسرے گماشتہ اداروں اور نام نہاد ’’عالمی کمیونٹی‘‘ نے مسئلہ فلسطین کو بڑی بے نیازی سے پس پشت ڈال کر اس سے انحراف سا کرلیا ہے۔ لیکن ٹیلی ویژن سکرینوں سے مقبوضہ فلسطین کے باسیوں کے دکھوں اور عذابوں کو غائب کردینے سے یہ اذیتیں اور بربادیاں کم تو نہیں ہوجاتیں بلکہ ہر آنے والا دن پہلے سے بدتر ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر براہِ راست اسرائیلی بمباری اور ریاستی دہشت گردی میں کوئی وقفہ آتا ہے تو انکے اپنے حکمرانوں کا جبر برس پڑتا ہے۔ بھوک ننگ اور افلاس کے ساتھ ساتھ زمینوں اور دیہاتوں پر بڑھتے ہوئے اسرائیلی قبضے انکی زندگیوں کا دائرہ کار محدود اورجینا دوبھر کرتے جارہے ہیں۔ ماضی میں عرب حکمران ملکر ’’فلسطین کے مسئلے‘‘ کے نام پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے اور اپنے ملکوں میں بیرونِ ملک سے آئے مزدوروں پر ظلم ڈھاتے اور اپنی حاکمیت کو طوالت دیتے تھے۔ اب انکی باہمی پھوٹ اور سفاک لڑائی فلسطین میں انکے حمایت یافتہ گروہوں میں مختلف انداز میں سرائیت کر رہی ہے۔
پچھلے ہفتے حکمران مذہبی جماعت ’’حماس‘‘ کے نئے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے قاہرہ کا دورہ کیا۔ اس دورے سے واپسی پر حماس نے 17 ستمبر کو اعلان کیا کہ وہ اپنی مد مقابل فلسطینی پارٹی الفتح اور اسکے لیڈر محمود عباس سے نہ صرف مذاکرات کے لیے تیارہے بلکہ وہ تمام فلسطینی علاقوں میں نئے انتخابات کروانے پر بھی رضامند ہے۔ یہ دورہ مشرقِ وسطیٰ اور عرب ممالک کی سیاست اور سفارتکاری میں ہونے والی تیز تبدیلیوں اور بدلتی وفاداریوں کی غمازی کرتا ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں پر محمود عباس کی’’فلسطینی اتھارٹی‘‘ کے نام سے چلائی جانے والی حکومت اور غزہ میں ’’حماس‘‘ کی حاکمیت کے درمیان تناؤ بہت شدت اختیار کر گیا تھا۔ حماس کی حکومت کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے لئے’’فلسطینی اتھارٹی‘‘ کی انتظامیہ نے غزہ میں رہنے والے اپنے فلسطینی ملازمین کی اجرتوں میں کٹوتیاں کر دیں اور غزہ کی پٹی کی بجلی کی سپلائی بہت کم کر دی۔ 2007ء میں الفتح اورحماس کے درمیان مسلح لڑائی بھی ہو چکی ہے۔ پچھلے سال غزہ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس نے الفتح کو شکست دی لیکن محمود عباس کی انتظامیہ نے انکو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صلح کا یہ اعلان بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ حماس اور الفتح کے درمیان صلح کی کئی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ اس سے پیشتر 2014ء میں بھی دونوں گروپوں کی ’’متحدہ حکومت‘‘ بنی تھی۔ حماس کے مصالحتی بیان کو الفتح کے ایک سینئر رہنما نے خوش آئند قرار دیا لیکن ساتھ ہی ان خدشات کا اظہار کیاکہ انکو ان وعدوں پر عمل درآمد مطلوب ہے ورنہ یہ بے معنی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مصر کے دور ے کے دوران سیسی آمریت کے سائے تلے الفتح اور حماس کے نمائندوں کے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ حماس کے نمائندوں نے واپسی پر یہ بیان دیا کہ ’’مصر کی فراخ دلانہ پیش کش اس (فلسطینی گروہوں کے درمیان) پھوٹ کو ختم کرنے کی مصر کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے اور اس بنیاد پر ہماری ’’قومی یکجہتی‘‘ کی خواہش سے مطابقت رکھتی ہے۔‘‘ حماس کا یہ موقف اسکے پرانے موقف میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔ لگتا ہے کہ مصر اور حماس کے درمیان تناؤ اس وقت سے ختم ہونا شروع ہوا جب اس سال مئی میں حماس نے مصر کی بنیاد پرست پارٹی ’’اخوان المسلمین‘‘ سے ناطے توڑنے کا بالواسطہ اعلان کیا تھا۔
پچھلے چند سالوں سے حماس انتظامیہ‘ غزہ کی پٹی میں مصر اور اسرائیل کی پابندیوں اور سپلائی کے راستوں کی بندش سے بہت کمزور ہوئی ہے۔ لیکن تنازعات اتنے گہرے اور خونریز ہیں کہ اس مصالحت کو بہت سی مشکلات اور مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرحماس نے غزہ کی عبوری انتظامیہ کی کمیٹی کو الفتح کے دباؤ کے تحت تحلیل بھی کر دیا تو غزہ میں حاکمیت تو حماس کی ہی رہے گی۔ اسی قسم کی ایک ڈیل 2011ء میں قاہرہ ہی میں ہوئی تھی لیکن حاکمیت کو قائم رکھنے کے تنازعے میںیہ ٹوٹ گئی تھی۔ اس میں سب سے زیادہ رکاوٹ بننے والا عنصر حماس کا اپنی مسلح قوتوں اور سکیورٹی کے اداروں کو محمود عباس کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت کے سپرد کرنے سے گریزاں ہونا تھا۔ اس مرتبہ پھر یہ مسئلہ ابھرے گا۔ مسلح طاقت کو الفتح کی کمان میں منتقل کرنے پر حماس کے اپنے اندر سے سخت مزاحمت ہوگی۔
غزہ کی پٹی کی بیس لاکھ کی آبادی‘ کھلے آسمان تلے دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں بدترین اقتصادی، سیاسی اور ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ اسرائیلی خونریز جارحیت کا شکار ہے اور مصر کی ان (رفاہ) سرنگوں کو بند کرنے سے بنیادی ضروریات سے بھی محرومی کی اذیتوں میں مبتلا ہے۔ معیشت ٹوٹ پھوٹ کر منتشر ہے اور دنیا کی سب سے بڑی بیروزگار ی کی شرح بھی غزہ میں پائی جاتی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ 2014ء سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار فلسطینی مقبوضہ غزہ سے ’’بارڈر‘‘ پا ر کر کے اسرائیل میں جا کر ملازمت کرتے تھے۔ آج پابندیوں اور سزاؤں کی سختی کی وجہ سے ایک فلسطینی بھی نہیں جاسکتا۔ پہلے ہر گھر میں 4 گھنٹے بجلی آتی تھی، اب اسکو دو گھنٹے کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال، سیوریج، ٹیلی کمیونیکیشن اور پانی کو نمک سے صاف کرنے کے ادارے جو پہلے سے ہی خستہ حال تھے اب مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ان کاموں کے لیے جنریٹر موجود ہیں لیکن انکے لئے درکار تیل مصر کے ذریعے آتا تھا جو بہت مہینوں سے بند ہے۔ باقی تمام زمینی اور سمندری راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں اور وہ غزہ میں بندرگاہ بننے نہیں دیتے۔ غزہ میں اگر ایک اسلامی فرقہ وارانہ پارٹی حماس کی حکومت ہے تو یہاں دوسرے فرقہ واریت پر مبنی گروہوں اور ’’اسلامک جہاد‘‘ کے ٹوٹے ہوئے دھڑوں نے بھی اپنی دہشت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
فلسطینی پورے خطے میں بکھیر دیئے گئے ہیں۔ انکے علاقوں کو کاٹ کاٹ کر علیحدہ کیا گیا ہے۔ مغربی کنارے کی نام نہاد’’ خود مختار‘‘ پٹیوں میں 30 لاکھ فلسطینی ہیں جن کے درمیان 3,85,000 یہودی آباد کاروں کی کالونیاں بنا دی گئی ہیں۔ مشرقی بیت المقدس میں3,20,000 فلسطینی اور 2,10,000 یہودی ہیں۔ اگر غزہ میں محرومی اور دہشت کی انتہا ہے تو الفتح کے زیرِ انتظام مشرقی کنارے میں عباس کی’’حکومت‘‘ شدید کرپشن اور مہنگائی کی ذمہ دار ہے۔ یہ سارا علاقہ براہِ راست یا بالواسطہ اسرائیل کی صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔ فلسطین کے باسیوں کی آج جو عملی رہائش اور آباد کاری کی صورتحال ہے اس کو زمینی حقائق کی نظر میں دیکھا جائے تو ’دو ریاستی حل‘ عملی طور پر ممکن ہی نہیں ہے۔ عرب حکمرانوں کے سامراجی مقاصد کے دباؤ نے حماس کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اس سے بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مروجہ سفارتکاری پہلے فلسطینی متحارب گروہوں کے درمیان صلح کروا کر پھر فلسطینیوں اور قابض اسرائیلی صہیونیت کے درمیان مذاکرات سے حل حاصل کرنے کا پرچارکرتی ہے۔ لیکن حماس اور الفتح کے درمیان پہلے بھی ایسے کئی معاہدے ٹوٹے ہیں۔ آج 70 سال بعد فلسطین کی آزادی کی منزل پہلے سے بھی دور محسوس ہوتی ہے۔ لیکن 2011ء کے عرب انقلابی طوفان کے دوران جو ایک اہم واقعہ سامنے آیا تھا وہ اسرائیل، مصر اور فلسطین کے عام انسانوں کا مشترکہ مطالبات لیکر تحریک میں اترنا تھا۔ عوام کی انقلابی بغاوت کو جمہوریت کے نام پر کچل کر مشرقِ وسطیٰ میں آگ اور خون کا بازار گرم کرایا گیا ہے۔ صہیونی ریاست کے ظلم و جبر کی بھی انتہا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ عرب حکمرانوں کی ریاکاری بھی بدترین ہے۔ اپنے حواری گروہوں کو تھوڑے پیسے دیکر وہ فلسطینیوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ پھوٹ ڈالوا کر ان کے نئے انقلابی انتفادہ کو روکنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے انکی اپنی آمرانہ حاکمیتوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ لیکن طبقاتی بنیادوں پر ایک نیا انتفادہ جسکی منزل انقلابی فتح ہو‘ کے بغیر آزادیِ فلسطین کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے ایک سابقہ فوجی جرنیل نوام تیبون نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ’’ لوگوں سے انکی آخری امید بھی نہیں چھین لینی چاہیے۔ جب کسی کو دیوار سے لگا دیا جا ئے تو پھر اُس کے پاس بغاوت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کا معاشی طور پر دم گھونٹ دینا اسکی اپنی بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘

متعلقہ:

ظلم بڑھتا ہے تو…

فلسطین: حلیف اور حریف کون؟