عقائد کے کاروبار
بہت سی عیسائی، یہودی اور اسلامی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جو عوام کے ان نازک عقائد کو استعمال کرکے اپنی اشتہاری اور منافع خوری کی مہم تیز کرسکیں۔
بہت سی عیسائی، یہودی اور اسلامی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جو عوام کے ان نازک عقائد کو استعمال کرکے اپنی اشتہاری اور منافع خوری کی مہم تیز کرسکیں۔
مارکسسٹ ہونے کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے درمیان سے مقابلہ بازی، لالچ اور تعصب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
سطح کے نیچے مزدور طبقے میں نجکاری کے گرد ایک شدید غصہ اور نفرت موجود ہے جو کسی ایک چنگاری سے بھڑک کر زر کے اس نظام کو راکھ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔
موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانا، ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔
موجودہ حکمران طبقات، اُن کے ادارے اور سماجی و معاشی نظام اس فسطائیت اور جنونیت کو روکنے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ تو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس میں شریک ہیں۔
تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ جیسے افراد کی گنتی مکمل ہوتے ہی ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ختم ہوجائیں گے۔
عوام کو تو جینا ہے۔ اس جینے کے لیے ان کو ہرروز ایک لڑائی لڑنی ہے۔
کروڑوں ’’نامعلوم‘‘ انسان انصاف کے ان مندروں کے ٹل بجا بجا کر،دروازے کھٹکا کھٹکا کر چلے جاتے ہیں لیکن زندگی بھر ان کو انصاف نہیں ملتا۔
کراچی میں 100 سے زائد تھانے ہیں جن میں سے 52 تھانوں کے ریکارڈ میں جرائم بڑھے ہیں۔
ریاست اور حکمران طبقے کے تقدس اور اتھارٹی کو کئی ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں اور نفسیات پر مسلط کیا جاتا ہے۔
ہر دل کمار ان تمام پہچانوں کے علاوہ ایک مخلص اور سچا انسان بھی تھا۔ وہ واقعی ہردل تھا۔
افغان مہاجرین کا مسئلہ ضیاالحق کے جرائم کی طویل فہرست میں سے ایک کڑی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں پرولتاریہ بحیثیت مجموعی ایک پسماندہ سماج میں جدید ترین فرائض کے حامل انقلاب کا امین اور علمبردار ہے۔
عورت ہمیشہ سے سماجی طور پر غلام نہیں تھی مگر کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے جب اس سے معاشی خود مختیاری چھین لی گئی اور ان کو سماجی طور پر غلام کیا گیا۔