مردم شماری: اعداد بدلنے سے حالات نہیں بدلتے!

تحریر: راہول

پندرہ مارچ سے ملک بھر میں نو برس کے التوا کے بعد چھٹی مردم شماری کا آغاز کیا جاچکا ہے، تریسٹھ اضلاع میں شروع ہوئے پہلے مرحلے کا اختتام اسی ماہ ہوجائے گا جس کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھا جائے گا۔ ملک بھر میں مردم شماری کے متعلق کئی آگاہی مہم بھی چلائی جارہی ہیں جس میں لوگوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ وہ عملے کے ساتھ تعاون کریں اور درست معلومات دیں جبکہ غلط معلومات دینے پر پچاس ہزار جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ کہنے کو تو اس مردم شماری کے ذریعے اب طویل عرصے بعد ’’حقیقی‘‘ آئینی بنیادوں پر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی، فنڈز کی ’’درست‘‘ تقسیم کار، وفاقی نوکریوں میں ’’سہی‘‘ کوٹا وغیرہ وغیرہ اب ممکن ہوسکے گا۔ جتایا کچھ ایسے جارہا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے ملک میں سب کچھ غلط ہورہا تھا اور اب اچانک سب ٹھیک ہونے جارہا ہے۔ حالانکہ کئی سیاسی جماعتوں کا اس عمل کے خلاف شدید احتجاج بھی جاری ہے لیکن ریاست کا اکثریتی دھڑا مسلسل یہ رٹ لگائے بیٹھا ہے کہ مردم شماری اب اس ملک کے لئے ناگزیر ہوچکی ہے۔ تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ جیسے افراد کی گنتی مکمل ہوتے ہی ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ختم ہوجائیں گے۔
حالیہ مردم شماری کے لئے محض 20 کروڑ افراد تک رسائی کے لئے تقریبا 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اگر ہندوستان میں ہوئی گزشتہ مردم شماری سے اس کا موازنہ کیا جائے تو باآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ملک کس قدر تکنیکی مفلسی کا شکار ہے۔ ہندوستان میں ہوئی 2011ء کی مردم شماری میں تقریبا 1.3 ارب لوگوں تک 22 ارب روپیوں کے اخراجات میں رسائی کی گئی۔ یہ اعداد اس بات کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہاں ہونے والی حالیہ مردم شماری ایشیا کی مہنگی ترین مردم شماری میں سے ایک ہوگی۔ ویسے تو مردم شماری کروانے کی ذمہ داری پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی ہے لیکن حالیہ عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں دو لاکھ سپاہی اور نوے ہزار کے لگ بھگ سویلین حصہ لیں گے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مردم شماری کے ذریعے کیا حاصل کیا جاسکے گا؟ کیا سلگتے مسائل میں تپتی عوام کا اس عمل کے بعد روز جلنا بند ہوجائے گا؟ کیا صوبوں کو واقعی ان کی خودمختیاری اور اسمبلیوں میں حقیقی نمائندگی مل سکے گی؟ کیا بیروگاروں کی بڑھتی فوج کے لئے مردم شماری کے اختتام پر نوکریاں حاصل کرنا ممکن ہوسکے گا؟ کیا غربت اور لاعلاجی جیسے مسائل مردم شماری کے بعد ختم ہوجائیں گے؟
ان تمام تر سوالوں کے جوابات سے نہ ہی ریاست کوکبھی دلچسپی رہی ہے اور نہ ہی سرمایہ د ارانہ نظام میں ان مسائل کے حل کے لئے کوئی سنجیدگی سے سوچنے کو بھی تیار ہے۔ حالیہ مردم شماری کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر لیا جارہا ہے‘ ایک ایسا چیلنج جس سے ملک کی اکثریتی عوام کا دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ این جی اوز کے ذریعے منعقد کروائی جانے والی آگاہی مہم اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام کی اکثریت اس بات سے واقف ہوچکی ہے کہ نہ ہی مردم شماری سے آج تک کوئی فرق پڑا ہے اور نہ ہی آگے پڑنے والا ہے۔ ایک ایسی ریاست میں جہاں عوام کی اکثریت کو صرف ووٹ دینے کا حق ہو ایسے میں کسی بھی مردم شماری کے ذریعے کبھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ان کے حقیقی نمائندے، جو ان کے لئے آواز اٹھائیں، اسمبلیوں تک پہنچ بھی سکیں! مردم شماری کے بعد ہونے والے الیکشن میں بھی گزشتہ ستر سالوں کی طرح وہی گھرانے نشستوں پر کامیاب ہوکر اسمبلیوں تک پہنچیں گے جو وہاں بیٹھ کر آج تک عوام کا خون چوستے رہے ہیں۔ فرق محض اتنا ضرور پڑے گا کہ اس بار چوروں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے اور وہ غریب عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نہ چھوڑیں۔ پچھلی پانچ مردم شماریوں کی طرح یہ مردم شماری بھی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے ہی مترادف ہوگی۔
پچھلے ستر سالوں میں مردم شماری کے انعقاد کی توقع ہر دس برس میں ایک مرتبہ تھی جوکہ 1951ء، 1961ء، 1972ء اور 1982ء میں ہوئی جبکہ 1971ء کی جنگ کے باعث اس میں ایک سال کی تاخیر ہوئی، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد چار دہائیوں تک باقاعدگی کے ساتھ مردم شماری ہوتی رہی لیکن 1991ء میں ہونے والی مردم شماری میں غلط اعدادوشمار جمع کئے جانے کے باعث یہ التوا کا شکار ہوئی جبکہ صوبوں کا عدم اتفاق اسی وقت سے آج تک جاری ہے۔ مردم شماری کے اعدادوشمار کی بنیاد پر صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم کے ذریعے ان کا حصہ طے کیا جاتا ہے اور متنازع اعدادوشمار لازمی طور پر اختلاف کی جانب لے جاتے ہیں۔
کئی برس تک یہ اختلاف مردم شماری کی راہ میں حائل رہے جس کا مقصد کسی طور بھی قومی یا صوبائی ترقی نہیں بلکہ مال کی بندر بانٹ اور دولت کی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار تھا۔ آخری مردم شماری مارچ 1998ء میں ن لیگ کی حکومت نے کرائی۔ جس کے بعد یہ معاملہ کئی حوالوں سے متنازع ہوتا چلا گیا اور تقریبا دو دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی کوئی خاصی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ملیھا لودھی کے ایک کالم کے مطابق حالیہ مردم شماری کے لئے مارچ 2011ء میں پیشگی اقدام کے طور پر خانہ شماری کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت مردم شماری کے فیصلے کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) سے لی جانی تھی۔ جب خانہ شماری کے نتائج سی سی آئی کے سامنے پیش کئے گئے تو بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار پر تنازع نے جنم لیا جو کہ گنتی کی صداقت کے حوالے سے تھا، جس پر سی سی آئی نے مردم شماری کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ بعد ازاں پریس میں یہ بات افشا ہوئی کہ ان اعدادوشمار میں کچھ غلطیاں اختلافات کا باعث بنیں، خانہ شماری کے مطابق آبادی کا تخمینہ 19 کروڑ 20 لاکھ تھا جبکہ غیر جانبدار تنظیموں کی جانب سے اس حوالے سے پیش کیا جانے والا تخمینہ 17 کروڑ50 لاکھ تھا۔ بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار میں تضادات پائے گئے تھے۔ خانہ شماری کے مطابق سندھ کی آبادی کا تخمینہ 5 کروڑ 50 لاکھ تھا جبکہ اس کے مطابق نقل مکانی جیسے تغیر پذیری کے حامل محرک کے تحت سالانہ اضافے کو مدنظر رکھ کر آبادی کا تخمینہ تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ لگایا گیا۔ اس تخمینے میں 1.3 کروڑ نفوس کے فرق نے ان اعدادوشمار کو ناقابل یقین بنا دیا۔ بلوچستان کے اعدادوشمار میں بھی اسی قسم کے تضادات کا انکشاف ہوا۔ جو کچھ ہورہا تھا وہ واضح تھا، جس میں کراچی و کوئٹہ کے مخالف نسلی گروہ وسائل کے زائد حصول کی مسابقت میں دست و گریباں تھے، وسائل کے حصے کو بڑھوانے میں ایک بہتر طور پر منظم گروہ نے اپنی برادری کو اپنے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ظاہر کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں صوبائی سطح پر آبادی کے اعداد وشمار میں اضافہ ہوازمینی حقائق کے برعکس بڑھتی ہوئی آبادی کے تخمینے نے ان اعدادوشمار کو مشتبہ بنا دیا۔
حالیہ مردم شماری بھی ایک ایسے وقت میں سپریم کورٹ کے حکم پر کروائی جارہی ہے جب تمام صوبوں کے مابین اسے لیکر شدید اختلافا ت موجود ہیں۔ بلوچستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی اور حالات کی مسلسل خرابی کے باعث لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی و ہجرت نے کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا ہے۔ اسی کے باعث بلوچستان کی انٹیلیجنسیا اور سیاسی جماعتوں کو یہ خطرات لاحق ہیں کہ اس مردم شماری کے نتائج میں ان کی وفاق میں رسائی اور فنڈز میں مزیدکمی واقع ہوگی۔ دوسری جانب سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ’’پاکستان پیپلزپارٹی ‘‘ اور’’ایم کیو ایم‘‘ پہلے ہی اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہیں جس میں ان کے مطابق شہری اور دیہی بندربانٹ کے باعث درست نتائج اخذ نہیں کئے جاسکتے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کے باوجود بھی تمام افراد کی گنتی کو ممکن بنایا جائے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے اپنے اختلافات سامنے رکھتے ہوئے کراچی میں تمام قومیتوں (علاوہ سندھی) سے تعلق رکھنے والوں کو مہاجر لکھوانے پر زور دیا جارہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملک کا شہری حصہ جی ڈی پی میں 80 فیصد تک حصہ ادا کرتا ہے جبکہ سب سے زیادہ ٹیکس بھی اسی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب موجودہ شہری آبادیوں میں غربت کا تناسب بھی اب دیہاتوں کی نسبت شدت اختیار کرتا جارہا ہے خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد جھونپڑ پٹیوں اور ڈربے نما فلیٹوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ بظاہر پنجاب میں شہری آبادی کا تناسب پورے ملک سے زیادہ ہے لیکن گزشتہ پوری دہائی میں ملک کے شمالی علاقوں سے ہونے والی ہجرت نے سندھ کے بڑے شہروں کا رخ کیا ہے جس سے یہاں تیزی سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے مثلاً صرف کراچی میں ہر سال 8.8 فیصد تک آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ کہنا کسی طور پر غلط نہیں ہوگا کہ اب صرف اس شہر کی آبادی 1998ء کی مردم شماری سے دوگنی ہوچکی ہے۔ ایم کیو ایم اسی صورتحال کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہی ہے اسی سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ کا بھی رخ کیا ہے اور مردم شماری میں دھاندلی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی اپنی گھٹتی ساکھ کے مدنظر اس معاملے کو وفاق کے ساتھ ’’تضاد ‘‘ کی صورت میں پیش کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ حکمران طبقے کے مابین اس قسم کے معاملات میں ہونے والی ہر لڑائی بے بنیاد اور اور آخری تجزیے میں عوام کے ساتھ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوسری جانب حالیہ مردم شماری کے گہرے اثرات پنجاب پر بھی پڑتے دکھائی دیں گے جہاں ممکن ہے کہ وفاق میں اس کی شراکت کم ہو اور مزید فیڈرل یونٹس کا انضمام ہو۔ خیبر پختونخواہ کے حصے میں شدید کمی ہونا متوقع ہے جہاں سے ایک بہت بڑی تعداد بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں ہجرت کرچکی ہے۔ ایسی کیفیت میں کروائی جانے والی مردم شماری کسی طور پر تضادات کو حل نہیں کرپائے گی اور مزید نئے تضادات کو جنم دے گی۔ خاص طور پر جو کچھ پچھلے دنوں پنجاب اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں پختونوں کے ساتھ کیا گیا حکمران طبقے کی نیت کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ حالیہ مردم شماری کو حکمران طبقہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے قومی جذبات کو بھڑکانے اور نفرتیں بکھیرنے کے لئے استعمال کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش طبقہ طبقاتی جڑت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی کاوشوں کو ناکام بنائے۔
حالیہ مردم شماری کو چاہے ریاست کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ عوام کی گنتی سے زیادہ ایک اہم کام کرتی ہے، یہ اہم سماجی اور معاشی عوامل کی نشاندہی کرتی ہے جس میں آبادی میں اضافے کی شرح اور اس کا پھیلاؤ، دیہی اور شہری آبادی کی تقسیم، عمر کا ڈھانچہ، شرح خواندگی، تعلیم، ملازمت، ہجرت اور صحت عامہ کی سہولتوں کی نشاندہی وغیرہ، یہ تمام عوامل ترقیاتی منصوبہ بندی، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور صحت اور تعلیم کیلئے وسائل مختص کرنے کیلئے اہم ہے۔ لیکن جس سرمایہ دارانہ نظام میں ریاست عوام کے حقیقی مسائل سے پہلے ہی درستبردار ہوچکی ہو، جہاں پینے کے پانی سے لیکر رہنے کے لئے گھر تک کے معاملے کو ریاست تسلیم ہی نہ کرتی ہو وہاں کسی بھی اچھے اقدام کے بھی برے ہی نتائج رونما ہوتے ہیں۔ حالیہ مردم شماری بھی ایسی صورتحال میں عوام کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے گی اور جمہوریت سے لیکر قومی خودمختیاری یا این ایف سی ایوارڈ تک تمام معاملات جوں کے توں رہیں گے۔ استحصال پر مبنی اس نظام میں نہ ہی کوئی گنتی پہلے کبھی کام آئی تھی اور نہ ہی آگے آسکے گی۔ جیسے غریبوں کی تعداد معلوم کرلینے سے غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا بالکل ویسے ہی افراد کی تعداد اور ان کی ضروریات جان لینے سے انہیں پور نہیں کیا جاسکتا۔ ایک حقیقی سوشلسٹ ریاست میں ہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے جہاں عوام کی بنیادی ضروریات ہی ریاست کی اولین ترجیحات کا حصہ ہوں۔